افغانستان وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کے بالکل سنگم پر واقع ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ایک پہاڑی اور خشکی سے گھرا ہوا ایک قدیم ملک ہے۔ پاکستان کے مغرب میں واقع ہے۔ احمد شاہ درانی (پیدائش: 1722ء، وفات 1772ء) موجودہ افغانستان کے بانی ہیں۔ آبادی محتاط اندازے کے مطابق چار پونے چار کروڑ کے آس پاس ہے۔ یہاں مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں۔ سب سے بڑی قومیت پشتون ہے۔ یہ کل ابادی کے 45 سے 50 فیصد ہیں۔ باقی آبادی تاجک، ازبک، ہزارہ، ترک من وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اٹھانوے فیصد آبادی مسلمان اور غالب ترین اکثریت حنفی مسلک سے منسلک ہے۔ روزگار کے تین بڑے ذرائع زراعت، مال مویشی اور تجارت ہیں۔ آفغانستان شرحِ پیدائش کے اعتبار سے دنیا کے بلند ترین سطح رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔ افغانستان کے لوگ بہادر، مہمان نواز اور قدرے سخت گیر مشہور ہیں۔
افغانستان کا شمار دنیا کے نہایت غریب ممالک میں ہوتا ہے اکیسویں صدی میں بھی یہ صنعتی ترقی سے دور اور عمومی امن و امان سے محروم ملک ہے۔ آفغانستان زمانوں سے بدامنی کا شکار چلا آرہا ہے۔ عالمی طاقتوں کے قبضے، پھر مزاحمت کی بھرپور تحریکیں اور آخر میں باہمی اختلافات (نسلی اور لسانی) اور خانہ جنگیاں (سیاسی اور گروہی) بدامنی کے بنیادی اسباب ہیں۔ آفغانستان کی حالیہ تاریخ میں کوئی دور اور کوئی مقام امن اور استحکام کا حامل ہو، کم از کم میرے علم میں نہیں۔
آفغانستان ہر دور میں عالمی اور استبدادی طاقتوں کے نشانے پر رہا ہے۔ ہم نے جب بھی آفغانستان کا ذکر سنا ہے تو جنگوں، خانہ جنگیوں، حملوں، دھماکوں، لڑائیوں، بدامنی، تباہی، عدم تحفظ اور انسانی جان و مال کی بے توقیری ہی کے حوالے سے زیادہ تر سنا ہے۔
فرد ہو یا قوم، ان کے زیادہ تر تعلقات دوستی کے تناظر میں پنپتے ہیں یا پھر پڑوسی ہونے کے ناطے۔ دونوں معاملات ایک دوسرے سے کافی حد تک مختلف واقع ہوئے ہیں مثلاً دوست کے انتخاب میں اپنا ارادہ شامل ہوتا ہے لیکن پڑوسی کا میسر آنا زیادہ تر ایک قدرتی امر ہوتا ہے ایک فرد یا خاندان کے لیے تو ممکن ہے اڑوس پڑوس اختیار کرنے یا بدلنے میں کسی حد تک مرضی چلانے پر قدرت حاصل ہو لیکن ایک ملک کے لیے اڑوس پڑوس کا محل وقوع مکمل طور پر قدرتی امر ہوتا ہے ایک ملک اپنا محل وقوع تبدیل نہیں کر سکتا اسے بس اپنے محل وقوع میں ہی رہنا ہوتا ہے ایک قدرتی معاملے میں قوموں کو پھر لازم ہے کہ مصلحت اور قبولیت سے کام لیں اور اڑوس پڑوس کو خصوصی سلوک، خصوصی خلوص اور خصوصی اہتمام سے دوست بنانے کی پالیسی اپنائی اور چلائی جائے۔
ایک ملک کا اپنے پڑوسی سے دشمنی نبھانا سیدھا سادہ ناممکن ہے یا ناقابلِ برداشت حد تک ضرر ناک جبکہ مقابلے میں دوستی اور خوشگوار تعلقات کئی گنا زیادہ سود مند اور مفید۔ دنیا کے خوشحال خطوں نے اڑوس پڑوس کو دوست بنانے کی ارادی اور اداری طور پر دوست بنانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور آج دنیا اس کے ثمرات دیکھ رہی ہے مثلاً یورپی یونین جبکہ الٹ حال احوال رکھنے والے خطوں کی تباہی اتنی کہ اندھوں کو بھی نظر آرہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے اس مثال میں بڑا سبق پوشیدہ ہے اور پوشیدہ نہیں بالکل نمایاں ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کو دوست بنائیں، دوست رکھیں اور دائمی طور پر دوست بن کر نبھائیں۔ یہی پالیسی ہو، یہی اصول ہو، یہی جذبہ ہو اور یہی تعلقات کار کی مضبوط بنیاد ہو۔
میں ہمیشہ دوستوں کے ساتھ ایک دلچسپ خیال شیئر کرتا رہتا ہوں اور وہ یہ کہ "عرصہ دراز سے لاکھوں افغان شہری پاکستان میں مقیم ہیں ایک بڑی تعداد تو ایسے لوگوں کی ہے جن کی پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی ہے وہ یا تو افغانستان سرے سے گئے ہی نہیں یا بہت ہی کم۔ وہ یہاں رہتے ہیں، یہاں پڑھتے، یہاں کاروبار کرتے ہیں، رشتے ناطے بھی یہیں ہوئے ہیں، محنت مزدوری یہیں کرتے ہیں، مساجد اور مدارس میں مقیم ہیں، ہوٹلنگ اور ٹرانسپورٹ انڈسٹری سے بڑی تعداد میں وابستہ ہیں۔ ان کو شہریت دیں، ان کو تعلیم، قانون اور ٹیکس نیٹ میں لے آئیں، بڑے ذہین و فطین لوگ ہیں ملازمتیں دیں، افغان نڈر اور بہادر لوگ بھی ہیں انہیں فوج میں بھرتی کریں۔ خوبصورت، صحت مند، وفادار اور محنتی لوگ بھی ہیں، ہم سب ایک جیسے انسان اور مسلمان بھی ہیں۔ دو طرفہ رشتوں میں بھی کوئی حرج نہیں اور گزشتہ تین چار عشروں کے دورانیے میں بے شمار رشتے منعقد بھی ہوئے ہیں انہیں قبول کریں، انہیں اپنائیں۔ اس پالیسی سے ملک و ملت کو سماج، معاش، دفاع، امن اور تحفظ کے تناظر میں بے انتہا فائدہ پہنچے گا۔ شہریت دینا ایک بین الاقوامی قانون ہیں اور ایک قابل ذکر دورانیے کے بعد ضروری شرائط پر دینے میں کوئی قباحت نہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں شہریت دینے میں جس فراخ دلی اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یہ ہمارے لیے بھی ایک اچھی مثال ہے۔ یہ بات باعث حیرت و اذیت ہے کہ ہم، باہم جس قدر قریب ہیں اس قدر تعلقات میں وہ گرم جوشی اور اعتماد نہیں جو نہایت قریب ترین پڑوسی ہونے کے ناطے لازم ہیں مندرجہ بالا پالیسی اس حوالے سے بھی سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔
اس حقیقت میں شک نہیں کہ ملت افغان بے شمار انسانی اور اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہے۔ لیکن اس کے سیاسی نظام، مزاج اور ماحول میں کچھ ایسے جراثیم موجود ہیں جو امن اور استحکام کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں ماننا پڑے گا اس صورت حال کے ذمہ دار صرف افغان نہیں بلکہ اس تباہ کن حالت کی جڑیں عالمی، علاقائی اور مقامی سیاست میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں۔ حال احوال پیچیدہ اتنے ہیں کہ کسی کو بھی مصالحت کا سرا نظر نہیں آتا۔ بے شک بعض لوگوں کو افغان امور میں مہارت تامہ اور بصیرت تامہ کے دعوے تو ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی سب بس اندازوں پر ہی چلتے ہیں سرا اور حل ان کے پاس بھی نہیں۔ اس حالت میں دو تبدیلیاں لازم ہیں ایک افغان خود اندرونی طور پر اپنے مزاج اور رویوں میں لچک پیدا کریں ایک دوسرے کو قبول کریں، ایک دوسرے کو تسلیم کریں اور قدرتی تنوع (نسلی، لسانی اور سیاسی اختلافات کو) نفرت اور عداوت کی حد تک نہ لے کے جائیں۔ حق پسند بنیں، حقیقت پسند بنیں، امکان پسند بنیں اور ایک دوسرے کے صلاحیتوں اور قابلیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھائیں بخدا امن، استحکام اور خوشحالی آپ کی مقدر میں شامل ہوں جائیں گے۔ دوم علاقائی ممالک کو افغانستان میں نامطلوب مداخلت سے دامن بچاتے ہوئے من حیث القوم افغانوں سے بغیر کسی گروہی اور سیاسی پسند و نا پسند کے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ یہ سب کے لیے بہتر ہے۔
سماجی اعتبار سے دیکھیں تو غیرت و حمیت، شجاعت و بے باکی، مہمان نوازی اور انسان دوستی، سماجی احترام اور تاریخی اقدار، ایمان و یقین، جوش و جذبہ اور شرافت و نجابت سے افغان معاشرہ لبالب بھرا ہے۔ میں نے پانچ برس تک ایک ایسے دینی مدرسے میں پڑھا ہے جہاں پر پچہتر فیصد افغان طلبہ زیر تعلیم تھے۔ مجھے ان کے مزاج اور اخلاق کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس کے علاوہ میں جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں بھی قابلِ ذکر تعداد میں افغان باشندے طویل عرصے سے مقیم رہے ہیں۔ میں نے تقریباً تمام سماجی احوال، اجتماعی تقریبات اور مختلف سرگرمیوں کے حامل مواقع پر نہ صرف ان کو قریب سے دیکھا ہے بلکہ کافی حد تک باریک بینی سے پرکھا بھی ہے۔
ایک افغان کو اگر یہ اطمینان ہو جائے کہ میرا مخاطب مخلص ہے تو پھر وہ دوستی اور تعلق میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ آپ نرم ہوں گے تو وہ ڈبل نرم رہیں گے، آپ میٹھا بنے گے تو وہ ایکسٹرا ارڈینری میٹھے بن جائیں گے، آپ خوش مزاجی سے پیش آئیں گے تو وہ سراپا خوش مزاجی میں ڈھل جائیں گے، اپ کوئی پیشکش کریں گے تو وہ برابر سے کہیں زیادہ بدلہ چکائیں گے۔ اپ عزت دیں گے تو وہ سر آنکھوں پر بیٹھائیں گے۔ غرض افغانوں میں عام انسانی خوبیاں اطمینان بخش پیمانے پر بالکل اسی طرح پائی جاتی ہیں جس طرح دوسری اقوام میں پائی جاتی ہیں۔ آفغان اس معاملے میں کسی سے بھی کم نہیں ہاں اگر کہیں پاکستان میں کچھ لوگوں کو ان سے الٹ طرح کا تجربہ یا تاثر ملا ہو تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ان آفغانوں کے کئی عشروں تک نہایت ناگفتہ بہ اور تکلیف دہ حالات میں زندگی بسر کرنے اور بے انتہا مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنے والے حالات کا بھی کسی حد تک سوچیں، غیر صحت مندانہ رویوں میں بسا اوقات مبتلا ہونا حالات کی جبر سے ہوتا ہے، فطری طور پر ایسا نہیں ہوتا۔
آفغانستان کا جغرافیہ، معدنیات، نسلی، لسانی، گروہی اختلافات اور وہاں کے رہنے والوں کا ضرورت سے زیادہ جذباتی پن آفغانوں کے لیے ہمیشہ سے مصائب اور مسائل کے اسباب رہے ہیں۔ ہندوستان کے معروف سکالر مولانا وحید الدین خان نے افغانوں کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ "بہادر ہونا اچھی بات ہے لیکن ضرورت سے زیادہ بہادر ہونا انتی ہی بری بات، افغان لوگ ضرورت سے کہیں زیادہ بہادر واقع ہوگئے ہیں اس وجہ سے بھی وہ سخت مشکلات کا شکار چلے آرہے ہیں”۔ میرا خیال ہے کہ سختی انسان خوشی سے اختیار نہیں کرتا بلکہ کچھ اسباب اور محرکات افراد اور اقوام کو سخت بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کچھ عالمی طاقتیں، کچھ علاقائی حال احوال، کچھ اندرونی اختلافات اور کچھ خود افغانوں کے اپنے جذبات اور مزاج میں کچھ ایسی چیزیں جمع ہو گئی ہیں جو ان کے لیے بڑے پیمانے پر مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
چند برس پہلے ایک اہم افغان عہدے دار نصیر اللہ محمدی (اشرف غنی دور) ایک وفد سمیت پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ اعلی حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ وہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بھی مخاطب ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا تھا!
"امریکہ افغانستان سے نہیں نکلے گا بلکہ نکالنا پڑے گا اتحادی طاقتیں افغانستان کے تین ٹریلین ڈالرز کے معدنیات لینا چاہتے ہیں”۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا
"نیٹو کی موجودگی سے ہزاروں آفغانی اسلام چھوڑ کر مسیحی بن گئے ہیں”۔
ان کا مذید کہنا تھا
"امریکہ اور اتحادی مستقبل قریب میں افغانستان سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ ان کے مفادات یہاں موجود ہیں جو طویل عرصہ قیام کے متقاضی ہیں”۔
آفغانستان ہمارا قریب ترین پڑوسی اور مسلمان ملک ہے۔ افغانستان کے امن اور استحکام سے پاکستان کا امن اور استحکام گہرے طور پر وابستہ ہیں۔ یہ قطعاً ممکن نہیں کہ آفغانستان میں حالات خراب ہو اور پاکستان ان سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکے۔ گہرے تاریخی، علاقائی، نسلی اور سیاسی رشتوں نے پاکستان اور آفغانستان کو ایک دوسرے سے حد درجہ منسلک اور قریب کئے رکھا ہیں۔ خطے میں ہمارا چونکہ زمانوں کا ساتھ ہے اس لیے ہم ایک دوسرے کے لیے معلوم و مانوس ہیں۔ آفغانستان کے امن اور استحکام سے ہمارا امن و استحکام براہ راست اور تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
طالبان کی 2021 میں افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد، عالمی برادری نے انھیں تسلیم کرنے میں محتاط رویہ اپنایا ہے۔ نئی حکومت کو درپیش معاشی مشکلات، انسانی حقوق کے مسائل، اور خواتین کی تعلیم و ملازمت پر پابندیوں نے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ عالمی اداروں کی جانب سے امداد معطل ہونے کے باعث افغانستان میں معاشی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
افغانستان میں اگر چہ عمومی امن اور استحکام پیدا ہوا ہے لیکن معاشی اور اقتصادی حالات مشکل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تباہ کن زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی مچی تھی۔ انسانی بحران دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ غذائی قلت، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی، اور بے روزگاری نے عوام کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں جیسا کہ اقوام متحدہ اور ریڈ کراس ہنگامی امداد فراہم کر رہی ہیں، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق انسانی حقوق کی پاسداری کرے تاکہ عالمی برادری کا اعتماد حاصل ہو سکے اور امداد کے راستے کھل سکیں۔
افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امید کی چند کرنیں موجود ہیں۔ طالبان حکومت اگر بین الاقوامی مطالبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے انسانی حقوق کی پاسداری کرے، تو عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، افغانستان کی معدنی دولت کو بروئے کار لانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری درکار ہے، جو اس کی معیشت کو مستحکم کر سکتی ہے۔ علاقائی ممالک کی مدد سے افغانستان میں امن اور ترقی کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام فریق مصالحت اور تعاون کے جذبے سے کام لیں۔
حال ہی میں آمریکہ نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بگرام ایئربیس امریکہ کو واپس کیا جائے جس افغان حکومت سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت ایسا نہیں کریں گے۔ دو طرفہ دھمکیوں سے خطے کی فضاء میں تشویش کی لہریں دوڑ گئی ہیں۔ آمریکہ بے شک سپر پاور ہے اور اسے بے تحاشہ طاقت بھی حاصل ہے لیکن اسے تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا میں خواہ فرد ہو یا ملک اس کے گرد و پیش میں قدرت نے کچھ حدود کھینچی ہے اور ہر حالت میں اس کے سامنے کوئی نہ کوئی طاقت یا چیلنج ضرور سر اٹھا کر آتا ہے۔ امریکہ کو دنیا کے مختلف خطوں میں ایک بار نہیں، بار بار ایسی مزاحمت کا سامنا رہا ہے جس نے اس کی ساکھ اور مفادات کو نقصان پہنچایا ہے دنیا کی بدقسمتی ہے کہ امریکہ ہر موقعہ صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا جانتا ہے کسی اور کے مفاد اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھنا اس کے مزاج میں شامل نہیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ دنیا سے برابری، شراکت داری اور دو طرفہ احترام کے اصول پر چلنا شروع کریں اور زور زبردستی سے کام نہ لیں۔ یہ پالیسی دنیا اور خود امریکہ کے لیے بہترین ہے۔
دعا ہے آللہ تعالیٰ دنیا بھر کی لیڈرشپ کو بصیرت اور انصاف کے ساتھ فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے جو عالمی امن، خوشحالی اور استحکام نیز مخلوق کی وسیع ترین بہتری اور عمومی خیر و دانش سے ہم آہنگ ہوں۔