انسانی ضمیر وہ عظیم اخلاقی حس ہے جو کہ انسان کو صحیح اور غلط کے درمیان فرق سمجھاتا ہے۔ یہ ہمارے اندرونی شعور کی وہ لطیف آواز ہے جو ہمیں نیکی کی طرف راغب کر رہی ہے اور برائی سے ہر دم روکنے کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہے۔
ضمیر صرف ایک فرد کی انفرادی تربیت کا ہی حصہ نہیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھی ایک بنیادی ستون ہے۔ جہاں افراد اپنے ضمیر کی پکار سنتے ہیں تو معاشرہ خود بخود خیر و بھلائی، عدل و انصاف، احساس و احسان، احترام و التزام اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنتا چلا جاتا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے ایک بار ضمیر کو اللہ کا پولیس مین قرار دیدیا تھا کہ "یہ اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی کر رہا ہے جبکہ برائی پر یک دم گرفت”۔ یہ ایک بہت ہی خوبصورت اور بامعنی تمثیل ہے۔
ضمیر ایک فطری اور روحانی قوت ہے جو انسان کو بلاواسطہ طور پر حق و باطل کا احساس دلاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک نور ہے جو انسان کو گناہوں سے بچاتا اور نیکیوں کی باقاعدہ ترغیب دیتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور نفس اور اس کی پروردگار کی طرف سے اسے تزکیہ (پاکیزگی) بخشی گئی ہے۔” (سورہ الشمس: 9)
ضمیر کے تین بنیادی اقسام ہیں
صالح ضمیر: وہ لطیف ضمیر جو انسان کو ہمیشہ حق کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔
مردہ ضمیر: وہ ثقیل ضمیر جو گناہوں کی نحوست اور برائیوں کی کثرت سے بالکل بے حس ہوچکا ہو۔
مضطرب ضمیر: گوں مگوں کی کیفیت میں مبتلا ضمیر کا واقع ہونا جو کبھی صحیح فیصلہ کرتا ہے اور کبھی غلط راستے پر چل پڑتا ہے۔
ضمیر کی نشوونما کے چند بنیادی اسباب و عوامل ایسے ہیں ہیں جن کے بروئے کار لانے سے ضمیر کی صحت و تندرستی یقینی ہوتی ہیں آئیے ملاحظہ فرمائیے!
زندگی کے سفر میں قرآن و سنت سے رہنمائی لینا زندہ اور تندرست ضمیر کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اس طرح اخلاقی تربیت کا التزام یعنی والدین، خاندان اور تعلیمی اداروں کی جانب سے نیک رہنمائی کا میسر آنا۔ اس طرح صالح معاشرتی دھارہ کسی بھی فرد کے ضمیر کو جِلا بخشتا ہے۔
یہ تو رہا معاملہ ذاتی زندگی میں ضمیر کی صحت و تندرستی کا حوالہ اب آئیے ضمیر اور معاشرتی فلاح و بہبود کے تعلق پر ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں۔
جب معاشرے کے ہر فرد کا ضمیر بیدار ہو تو وہ ناانصافی، رشوت ستانی اور ظلم و ستم کے خلاف موثر آواز اٹھاتا ہے۔ تاریخ میں عدل و انصاف کے بہت بڑے عالم بردار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کردار عدل پسندی اور انصاف پروری کے تناظر میں اسی بیدار ضمیری کی عکاسی کر رہا ہے۔ اپنے زمانہ خلافت میں، ایک بار ایک ضرورت مند خاندان کے لیے شام گئے اپنی پشت پر اجناس کی بھاری بوری لاد کر جانے لگا تو پاس میں موجود معاون نے کہا جناب مجھے دیجئے میں ساتھ لے کر جاتا ہوں انکار کرتے ہوئے جواب دیا قطعاً نہیں کیا قیامت میں بھی تم میرا ” بوجھ اٹھاؤں گے؟
اس طرح زندہ ضمیر انسان کو جھوٹ، ظلم و ستم، دھوکہ دہی، خیانت اور غیبت جیسے گناہوں سے بچاتا ہے، جس سے معاشرے میں باہمی اعتماد اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک باضمیر انسان دوسروں کی مدد پر ہمیشہ آمادہ رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ضرورت پڑنے پر وہ اپنی مدد و رہنمائی، صدقات و خیرات اور دوسری رضاکارانہ خدمات کے ذریعے معاشرے کے غریب اور ضرورت مند طبقوں کی زندگی بہتر بناتے ہیں۔ اس طرح اگر تاجر اور کاروباری افراد اپنے ضمیر کے مطابق ایمانداری سے کام کریں تو معیشت میں استحکام آتا ہے اور معاشرے میں عمومی خوشحالی بھی مزید برآں عوام کو جعلی اشیاء سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور مصنوعی مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ اس طرح زندہ ضمیر انسان کو انتقام لینے، تعصب برتنے اور نفرت کے ساتھ پیش آنے سے روکتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں برداشت، رواداری اور باہمی احترام کی فضا قائم ہوتی ہے۔
فعال ضمیر کے لیے روزانہ کے حساب سے اپنے اعمال اور رویوں کا محاسبہ بہت ضروری ہے، اس طرح بامقصد اور سنجیدہ مطالعہ ایک مددگار محرک ہے، اس طرح نیک، کامیاب اور لائق و فائق لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا بھی حد درجہ فائدہ مند عمل ہے، اس طرح جرائم اور گناہوں سے توبہ بھی ایک مجرب نسخہ ہے مزید برآں برے اعمال سے ارادتاً دور رہنا ضمیر کو مطمئن رکھتا ہے۔
ضمیر کی تربیت محض انفرادی کوششوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس میں خاندان، تعلیمی ادارے اور معاشرتی نظام کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ خاندان بچے کی اخلاقی بنیادوں کی پہلی اینٹ رکھتا ہے، جہاں والدین کا عملی نمونہ اور نگرانی بچے کے ضمیر کو جِلا بخشتی ہے۔ اس کے بعد تعلیمی ادارے اس کام کو آگے بڑھاتے ہیں، جہاں نصاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا اخلاقی رول ماڈل ہونا بھی ضروری ہے۔ میڈیا اور معاشرتی دھارا بھی ضمیر کی تشکیل میں معاون یا مزاحم ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، ایک صالح معاشرہ وہی ہے جو اپنے تمام اجتماعی اداروں کو اس طرح مربوط کرے کہ وہ افراد کے اندر ذمہ دارانہ اور بیدار ضمیر پیدا کرنے کا باعث بن سکیں۔
آج کی تیز رفتار، مادیّت پرست اور انفرادی طور پر مرکوز دنیا میں انسانی ضمیر نئے چیلنجز سے دوچار ہے۔ اجتماعی اخلاقیات کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کا رجحان، معلومات کی کثرت میں سچائی کو پرکھنے کی دشواری، اور وائرل ہونے کی دوڑ میں اخلاقی حدود کا پامال ہونا بعض ایسے مسائل ہیں جو ضمیر کو دھندلا کر رہے ہیں۔ تاہم، اسی جدیدیت نے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا ایک نیا میدان کھول دیا ہے۔ ایک بیدار ضمیر فرد اب اپنی آواز کو عالمی سطح تک پہنچا سکتا ہے اور مثبت تبدیلی کا محرک بن سکتا ہے۔ یہ دور ضمیر کو سماجی احتساب کا ایک طاقتور ہتھیار بننے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ضمیر کا تعلق صرف ذاتی گناہوں اور نیکیوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمیں معاشرتی برائیوں کے خلاف بولنے کی اجتماعی ذمہ داری کا احساس بھی دلاتا ہے۔ جب کوئی معاشرہ کسی ظلم پر خاموش تماشائی بن جاتا ہے، تو درحقیقت اس کے ہر فرد کا ضمیر اس اجتماعی گناہ میں شریک ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم درحقیقت اسی اجتماعی ضمیر کو فعال رکھنے کی ترغیب ہے۔ ہماری ذاتی پاکیزگی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ہمارا ضمیر ہمیں اپنے آس پاس ہونے والی ناانصافی، غربت اور جہالت کے خلاف اقدام کرنے کے لیے نہ کہے۔ اصل کامیابی اس میں ہے کہ ہمارا ضمیر ہمیں اپنی ذات کی حدوں سے نکل کر پورے معاشرے کی بہتری کے لیے سوچنے اور عمل کرنے پر آمادہ کرے۔
زندہ اور فعال انسانی ضمیر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ وہ عظیم نعمت ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا طاقتور ذریعہ ہے۔ اگر ہم اپنے ضمیر کی آواز سنیں اور اس کے مطابق عمل کریں تو یہ نہ صرف ہماری اپنی زندگی سنورنے میں بے مثال عمل ہے بلکہ اس سے پورا معاشرہ ترقی، خوشحالی، امن اور آسودگی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو ہمیشہ بیدار رکھیں اور اس کی روشنی میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو سنواریں۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ "جو شخص اپنے ضمیر کی آواز سنتا ہے تو وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا”۔
آئیے آخر میں بیدار ضمیری کے وہ چند نقد فوائد کو اجاگر کرتے ہیں جن کے اثرات و ثمرات فرد سے لے کر معاشرے کا یکساں احاطہ کرتے ہیں!
زندہ ضمیری انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں فوری مدد دیتی ہے، جس سے زندگی کے اہم معاملات میں، بروقت درست فیصلے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس طرح اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرنے سے دل کو ایک خاص قسم کا سکون ملتا ہے جس سے انسان نفسیاتی طور پر آسودہ رہتا ہے۔ اس طرح بیدار ضمیر افراد معاشرے میں قابلِ اعتماد اور لائق احترام سمجھے جاتے ہیں، جس سے دوسروں کے ساتھ ان کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ اس طرح ضمیر انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اور برے راستے پر چلنے سے بچاتا ہے۔ اس طرح زندہ ضمیر انسان کے اخلاق اور کردار شفاف ہوتے ہیں جس سے اس کی شخصیت نکھرتی ہے۔ اس طرح زندہ ضمیر کی افادیت صرف زندگی یا زندگی کے وقتی معاملات تک محدود نہیں بلکہ زندہ ضمیر انسان کی نگاہیں زندگی کے اس پار بھی دیکھتی ہیں اور ایسے افراد کبھی آخرت کی فکر سے غافل نہیں ہو سکتے۔ وہ اللہ کے جہنموں سے ڈر کر اس سے اپنی جنتوں کے طلبگار رہتے ہیں۔
ہر سال 5 اپریل کو، اقوام متحدہ کی سفارش پر دنیا بھر میں یوم ضمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 2025 کے لیے اقوام متحدہ نے جو تھیم تجویز کیا ہے وہ "بہتر مستقبل کے لیے ہوش مندانہ فیصلے” ہے۔ موجودہ عالمی اور علاقائی فیصلہ سازی کے عمل کو دیکھ کر باآسانی محسوس ہوتا ہے کہ انسان نے بحیثیت مجموعی ضمیر سے اپنا رشتہ کمزور بلکہ بہت ہی کمزور کیا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سائنسی ترقی، تہذیبی چمک دمک، انتظامی جدت اور علوم و فنون کے برق رفتار ارتقائی عمل کے باوجود انصاف، احساس، ادراک، احتساب، اخلاص اور اشتراک ایسے جواہر کہیں مفقود ہو گئے ہیں اور انسانوں نے خود اپنے ہاتھوں سے انسانیت کو ختم کرنے کا بے رحمانہ آغاز کیا ہے۔ یہ جسارت اس دور کا سب سے بڑا سانحہ ہے یاد رکھیں انسان نے اگر خود کو نہیں سنبھالا اور انسانیت کے خلاف مہلک سرگرمیوں کو جاری رکھا تو وہ وقت دور نہیں کہ انسانیت بچ جائے گی اور نہ ہی انسان دونوں ہی فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔