ڈاکٹر روتھ فاؤ: ایک ہمدرد اور مہربان انسان جن کا کردار ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے

جس طرح جڑوں سے سینچا گیا پانی شاخوں تک اپنی رسائی پہنچاتا ہے، اسی طرح خلوص سے کیا گیا ہر نیک عمل، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اللہ تک ضرور پہنچتا ہے۔ انسانیت کی خدمت میں لگا ہر مخلص دل، ہر بے لوث کوشش، رب کے حضور قبول ہوتی ہے۔ مگر اکثر ہم فرقہ واریت کے گھٹن زدہ دائروں میں گھر کر یہ بھول جاتے ہیں کہ نیکی کا تعلق مذہب یا نسل سے نہیں، بلکہ دل کی صفائی اور عمل کی پاکیزگی سے ہے۔ کسی روح کی تسکین کے لیے دعا کرنا، کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، یا کسی کے اچھے اعمال کو سراہنا کبھی گناہ نہیں ہوسکتا۔ ہر فرد کا ایمان، نیت اور عمل اس کے اپنے رب کے سامنے ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسروں کے عقائد پر حکم لگانے کے بجائے محبت، رواداری اور خدمت کے ذریعے ان کے دلوں تک پہنچیں۔

ایسی ہی ایک عظیم ہستی جنہوں نے مذہب، فرقہ اور رنگ و نسل کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر صرف انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنایا، وہ تھیں ڈاکٹر روتھ فاؤ۔ ایک جرمن خاتون جس نے پاکستان کی دھرتی کو اپنا وطن بنا لیا اور یہاں کے بے بس، لاچار اور معذور افراد کی زندگیوں میں امید کی کرن بکھیر دی۔

1961ء میں جب 29 سالہ جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے کراچی کی ایک کچی بستی میں رہنے کا فیصلہ کیا، تو سب حیران رہ گئے۔ اس زمانے میں کوڑھ (جذام) کے مریضوں کو ناقابل علاج سمجھ کر معاشرے سے نکال دیا جاتا تھا۔ انہیں تنہائی میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا، کیونکہ لوگ خوفزدہ تھے کہ یہ مرض پھیل نہ جائے۔ لیکن ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ان بے یارومددگار مریضوں کی دیکھ بھال کا بیڑہ اٹھایا، جنہیں معاشرے نے چھونے تک سے گریز کیا تھا۔

انہوں نے آئی آئی چندریگر روڈ کے قریب ریلوے کالونی میں ایک چھوٹا سا ہسپتال قائم کیا اور جذام کے مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔ ان کی کوششوں سے پاکستان بھر میں 157 کلینکس کا نیٹ ورک وجود میں آیا، جہاں تقریباً 57 ہزار مریضوں کو شفا بخشی گئی۔ ان کی انتھک محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1996ء میں عالمی ادارہ صحت (WHO) نے پاکستان کو جذام پر قابو پانے والا ملک قرار دے دیا۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنی زندگی کے 55 سال سے زائد عرصے میں نہ صرف جذام کے خلاف جنگ لڑی، بلکہ انہوں نے انتہائی سادگی سے زندگی گزاری۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھیں، جہاں ایک چارپائی، کولر، چند کتابیں اور ضرورت کے چند برتن ہی ان کی ساری دنیا تھی۔ انہوں نے کبھی اپنی خدمات کی تشہیر نہیں چاہی، بلکہ خاموشی سے انسانیت کی خدمت کرتی رہیں۔

1988ء میں پاکستان نے انہیں شہریت کا اعزاز دیا۔ ان کی عظیم خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، ستارہ قائداعظم اور نشان قائداعظم جیسے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا۔

10 اگست 2017ء کو 87 سال کی عمر میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے خاموشی سے اس دنیا کو الوداع کہا۔ ان کی وفات کے بعد انہیں ریاستی اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تین وصیتیں کی تھیں: میرا علاج کسی صورت وینٹی لیٹر پر نہ کیا جائے۔ میری میت لپریسی سینٹر سے اٹھائی جائے۔ میری تدفین سرخ جوڑے (عروسی لباس) میں کی جائے۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی، راہبہ تھیں۔

ان کی آخری خواہش کا احترام کرتے ہوئے، انہیں سرخ جوڑے میں تابوت میں رکھا گیا۔ ان کے چہرے پر ایک عجیب سکون تھا، گویا وہ اپنی منزل پر پہنچ چکی تھیں۔

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی روح کو آسودہ فرمائے۔ یہ دعا کرتے ہوئے ایک اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے: کیا غیر مسلموں کو بھی آخرت میں سکون ملے گا؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غیر مسلموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، بلکہ انھیں دنیا ہی میں ان کے نیک اعمال کا بدلہ دے دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ تصور مکمل طور پر درست ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر فرد کے ساتھ اس کے عقائد، نیتوں، اور حالات کے تناظر میں معاملہ فرماتا ہے۔ وہ خاتون جنہوں نے ۵۵ سال تک پسماندہ مسلمانوں کی بے لوث خدمت کی، وہ اہلِ کتاب میں سے تھیں اور اللہ، پیغمبروں، اور آخرت پر ایمان رکھتی تھیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ اللہ نے ان کے دل میں سچائی کی تلاش اور انسانیت کی خدمت کا جو جذبہ رکھا، اسے قبول فرمایا ہو؟ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی نام نہاد ملحد پائے جاتے ہیں، جبکہ غیر مسلم اقوام میں حق کی جستجو کرنے والے بھی موجود ہیں۔ کسی کے ایمان کی گہرائی، اس کی نیت کی صداقت، اور اس کے خلوص کا حتمی فیصلہ تو صرف اللہ کے علم میں ہے۔ ہمارا کام کسی کے بارے میں قطعی رائے قائم کرنا نہیں، بلکہ نیک خواہشات کا اظہار کرنا ہے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایمان ایک پیچیدہ اور باطنی معاملہ ہے۔ ہر انسان اپنے ماحول، علم، اور فہم کے مطابق حق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت اس سے کہیں وسیع ہے جتنا ہم تصور کر سکتے ہیں۔ وہ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور جو لوگ دوسروں پر مہربانی کرتے ہیں، وہ اللہ کی خاص رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کے ایمان پر حکم لگانے کے بجائے، اپنے عمل، علم، اور خیر خواہی کے ذریعے ان کے دل جیتنے کی کوشش کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں ہم سب کے لیے خیر پوشیدہ ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ (البقرہ: ۶۲)

بے شک جو لوگ ایمان لائے، اور یہودی، اور عیسائی، اور صابی (یعنی دیگر مذہبی گروہ)، جو کوئی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، تو ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، اور نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اس آیت کی رو سے، جو لوگ اللہ اور آخرت پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں، تو وہ اللہ کی رحمت اور اجر کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں کسی کے بارے میں قطعی فیصلہ کرنے کی بجائے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنا چاہیے اور اللہ کی وسیع رحمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسی ہستیاں ہمیں یہ علم و تعلیم دیتی ہیں کہ انسانیت کی خدمت دراصل خالق کی عبادت ہے۔ ان کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے نہ صرف طب کے میدان میں، بلکہ محبت، ایثار اور رواداری کے اعلیٰ اصولوں پر چلنے کی بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے نفرت ختم کرے اور یسے اعمال کی توفیق عطا فرمائے جو سچائی، خیر خواہی اور ہمدردی پر مبنی ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے