چارسدہ کی سرزمین پر سورج ابھی پوری طرح طلوع نہ ہوا تھا کہ گلیوں میں شور کے کچھ آثار سنائی دینے لگے۔ اتمانزئی کے میدان میں لوگ جوق در جوق جمع ہو رہے تھے۔ کہیں پگڑیوں کے رنگ لہرا رہے تھے، کہیں گفتگو کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ فضا میں ایک عجیب سا جوش تھا، جیسے صدیوں سے دبی ہوئی آوازیں آج بولنے جا رہی ہوں۔ وہ 1919ء کا زمانہ تھا، جب ہندوستان کے دل میں بغاوت کی چنگاریاں سلگنے لگیں تھیں۔
اسی ہجوم میں ایک جوانِ رعنا نمودار ہوا، جس کے چہرے پر روشنی تھی اور آنکھوں میں یقین۔ اس کا قد ایسا کہ دیکھنے والا خود بخود سیدھا کھڑا ہو جائے۔ جب اس نے مجمع کے شور پر اپنی آواز بلند کی تو جیسے ہوا تھم گئی اس نے کہا،اس مجلسِ بے ترتیب کو کسی بزرگ کی سرپرستی کی ضرورت ہے، تاکہ بات کا قرینہ پیدا ہو۔ مجمع میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ لمحے بعد ایک آواز اٹھی تو پھر تم ہی صدارت سنبھالو، کہ تم میں ہی یہ جرات ہے۔”
وہ نوجوان آگے بڑھا۔ اسٹیج پر جا کر بیٹھا تو جیسے اس شور میں ایک ترتیب اتر آئی۔ اس نے بات کا آغاز کیا تو لوگوں کے دلوں میں عزم جاگ اٹھا۔ وہ نوجوان عبدالغفار خان تھا مگر آج کے بعد وہ صرف ایک نام نہ رہا اس دن کے بعد وہ "باچا خان” کہلایا، اپنے لوگوں کا بادشاہ، مگر تاج کے بغیر۔
اس داستان کی جڑیں اس سے بہت پہلے تک جاتی ہیں۔ عبدالغفار خان کی پیدائش 1890 میں چارسدہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، اتمانزئی، میں ہوئی۔ ان کے والد بہرام خان علاقے کے معزز زمیندار تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے انگریزی تعلیم حاصل کریں، مگر اس زمانے میں مولوی حضرات انگریزی اسکولوں کو دین سے بغاوت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک انگریز کی زبان انگریز کا جال تھی اور جو اس میں پھنس گیا وہ ایمان سے گیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب باچا خان کے والد نے اپنے بیٹوں کو مشن اسکول بھیجا، تو گاؤں کے طلبہ ان پر طنز کے اشعار گاتے مگر بہرام خان کے عزم نے سب کو خاموش کر دیا وہ کہتے، "میرے بیٹے قرآن بھی پڑھیں گے اور زمانے کا علم بھی۔اور یوں دونوں بھائی اسکول بھی گئے اور قرآن کے حافظ بھی بنے
بڑا بھائی ولایت جا کر ڈاکٹر بن گیا اور غفار خان نے پشاور کے مشہور ایڈورڈز مشن اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ وہ جوانی کے دن تھے، خوابوں کے دن۔ فوج میں جانے کا خیال آیا۔ درخواست بھی دی منظور بھی ہوئی مگر ایک چھوٹا سا واقعہ اس کے دل میں ایسا بیٹھا کہ ہمیشہ کے لیے اس نے انگریزوں کی نوکری سے منہ موڑ لیا
ایک دن وہ اپنے ایک دوست سے ملا جو انگریز فوج میں جونیئر افسر تھا۔ انگریز لیفٹیننٹ نے اسے حقارت سے کہا، خان صاحب، کیا تم انگریز بننے آئے ہو؟ وہ بے چارہ خاموش کھڑا رہا، جیسے زمین میں دھنس گیا ہو۔ غفار خان کے دل میں آگ لگ گئی۔ وہ سوچنے لگا، جس فوج میں عزت نہ ہواس کی وردی کا کیا فائدہ؟ اور یوں اس نے خود کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا علم،اصلاح اور آزادی کی راہ۔
علی گڑھ یونیورسٹی پہنچا تو اس کے سامنے ایک نئی دنیا تھی۔ وہاں کے علمی ماحول نے اس کے اندر کی آگ کو بھڑکا دیا۔ واپسی پر جب اپنے گاؤں لوٹا، تو یہ صرف ایک تعلیم یافتہ نوجوان نہ تھابلکہ ایک فکر بن چکا تھا۔ اس نے اتمانزئی میں پہلا اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کی اینٹ دراصل ایک انقلاب کی بنیاد تھی۔ وہ گاؤں گاؤں جاتا، لوگوں کو تعلیم کی روشنی دکھاتا، اور کہتا، "اسلام نے علم فرض کیا ہے، مگر تم نے اسے گناہ بنا رکھا ہے۔”
اس کے الفاظ میں ایسی صداقت تھی کہ لوگ بدلنے لگے۔ مگر حالات بدلنا آسان نہ تھا انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرنا گویا موت کو آواز دینا تھا۔ جنگِ عظیم اول کے دنوں میں انگریزوں نے ظلم بڑھا دیا۔ اس کے قائم کردہ اسکول بند کر دیے گئے، ساتھی گرفتار کر لیے گئے
پھر 1919 آیا رولٹ ایکٹ اور سرحد کی بیداری۔ اتمانزئی میں جب لوگوں نے احتجاج کیا، تو وہی عبدالغفار خان باچا خان بن گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب قوم کو نہ تلوار، نہ بندوق، بلکہ علم اور امن کے ہتھیار سے جیتا جائے۔
وقت گزرتا گیا۔ اس نے "خدائی خدمتگارتحریک کی بنیاد رکھی سرخ پوش مرد، جو امن کے علمبردار تھے۔ انگریز حیران رہ گئے۔ یہ پشتون، جو بدلے کے لیے مشہور تھے، اب عدم تشدد کے داعی بن گئے تھے۔ مگر انگریز نے انہیں چھوڑا نہیں۔ 1930 کے قصہ خوانی بازار کے دن، جب ہزاروں سرخ پوش نہتے گولیوں کے سامنے کھڑے رہے اور ایک ہاتھ نہ اٹھایا وہ دن تاریخ بن گیا۔ خون بہا، مگر اصول نہ بدلا۔
قیادت، قید، قربانی یہ سب اس کے نصیب میں لکھا تھا۔ کبھی کانگریس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلا، کبھی گاندھی کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا رہا۔ مگر جب 1947 کا سال آیا اور زمین نے تقسیم کا بوجھ سہا، تو باچا خان کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ کہتا تھا، "تم نے ہمیں بھیڑیوں کے حوالے کر دیا۔” اس کے لیے نہ ہندوستان رہا، نہ پاکستان۔ وہ صرف اپنے اصولوں کے ساتھ رہ گیا
پاکستان بن گیا، مگر اس کے لیے دروازے نہیں کھلے، بلکہ زندان کے دروازے کھلے۔ بابڑہ کے خونین سانحے سے لے کر ون یونٹ کی مخالفت تک، وہ ہر بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے گیا۔ اس کے مخالفین نے اسے غدار کہا، مگر تاریخ نے نہیں۔ تاریخ نے اسے "عدم تشدد کا سپاہی” کہا۔
زندگی کے آخری برسوں میں، جب عمر نے نوے کا ہندسہ چھوا، تو بھی اس کی آنکھوں میں وہی عزم چمکتا تھا۔ وہ کہتا تھامیں نے امن سکھایا، اور اس کے بدلے میں جنگ دیکھی مگر میں پھر بھی امن کا علم نہیں چھوڑوں گا۔
1988 میں، جب وہ پشاور میں وفات پا گیا، تو اس کی آخری خواہش یہی تھی کہ اسے افغانستان میں دفن کیا جائے۔ اس کی میت جب جلال آباد پہنچی، تو فضا میں پھر گولیاں چلیں۔ بم دھماکوں نے عدم تشدد کے اس مسافر کا آخری سفر بھی لہو میں نہلایا۔ مگر شاید یہی اس کی کہانی کی شان تھی کہ امن کی بات کرنے والے کو موت بھی جنگ کے درمیان ملی
آج وہ مٹی جس نے اسے جنم دیا تھا، خیبر پختونخوا کہلاتی ہے۔ اس کے پیروکار اب بھی اس کی تعلیمات کو سینوں میں سجائے ہیں۔ اور وقت گزرنے کے باوجود، عبدالغفار خان یعنی باچا خان اب بھی تاریخ کے اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں ظلم کے سامنے ایک نرم مگر اٹل صدا گونجتی ہے
"عدم تشدد کمزوری نہیں، بلکہ بہادری کی آخری منزل ہے۔”