وطن، مٹی اور شہریت کا سچ

دنیا کے ہر خطے کی طرح پشتون سرزمین کی بھی ایک الگ تاریخ، شناخت، اور زمینی حدود ہیں۔ جيسا کہ کعبہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ مقدس جگہ ہے، مگر اس کے باوجود سب مسلمان سعودی شہری نہیں ہوتے کیونکہ ہر قوم کا اپنا وطن اور اپنی شہریت ہوتی ہے۔ اسی اصول کے مطابق اگرچہ مندوخیل اور سلیمان خیل دونوں پشتون ہیں، لیکن دونوں کی اپنی زمین، حدود، اور قومی شناخت الگ ہے۔ اسی لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی سرزمین پر زبردستی قبضہ کرے۔

شہریت اور زمینی حقیقت

تمام پشتون اگرچہ قوماً افغان ہیں، لیکن آج وہ دو مختلف ریاستوں پاکستان اور افغانستان میں آباد ہیں یہ تاریخی حقیقت ہے کہ افغانستان کی حکومت ڈیوڑنڈ لائن کے اِس پار رہنے والے پشتونوں کو شہریت نہیں دیتی، اور پاکستان بھی سرحد کے اُس پار کے افغانوں کو پاکستانی شہریت نہیں دیتا۔ لہٰذا پاکستان میں مقیم سلیمان خیل کا تعلق افغانستان سے جبکہ مندوخیل کا تعلق پاکستان سے ہے اور یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے۔

افغان باشندگان کی واپسی اور ژوب کا منظرنامہ

اس وقت جب پاکستان میں افغان باشندگان کی واپسی کا عمل جاری ہے، تو سلیمان خیل قبائل نے پنجاب یا سندھ کے بجائے ژوب شہر کا رخ کیا۔ان کا مقصد اپنی موجودگی کو "مقامی” ظاہر کر کے شناختی کارڈ، ب فارم، اور پاسپورٹ حاصل کرنا ہے تاکہ انہیں افغانستان واپس نہ بھیجا جائے۔ بلوچستان کا ضلع ژوب ہمیشہ امن، بھائی چارے، اور قربانی کی علامت رہا ہے۔ یہاں کے مقامی قبائل مندوخیل، کاکڑ، شیرانی، حریفال، بابر، اور لعون صدیوں سے اپنی دھرتی کی حرمت کے محافظ ہیں۔

علاقائی اثرات اور قبائلی خدشات

اگر یہ خانه بدوش ژوب میں آباد ہو گئے تو اس کے منفی اثرات صرف مندوخیل قبیلے پر نہیں بلکہ ژوب کے تمام مقامی قبائل پر پڑیں گے۔ یہ لوگ جب لوکل سرٹیفیکیٹ حاصل کریں گے تو مقامی نوجوانوں کے تعلیمی مواقع، سرکاری ملازمتیں، اور ترقیاتی کوٹے متاثر ہوں گے۔ کاروباری لحاظ سے بھی غیر مقامی اثرات مارکیٹ کے توازن کو بگاڑ دیں گے۔ امن و امان کے حوالے سے صورتحال مزید حساس ہو سکتی ہے، کیونکہ ژوب افغان بارڈر پر واقع شہر ہے۔ ایسے حالات میں غیر مقامی آبادی کی موجودگی سے دہشت گردی کے خطرات کسی بھی وقت جنم لے سکتے ہیں۔

غیر آئینی مطالبات اور نئی خطرناک روش

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ جلوس میں شریک سلیمان خیل قبیلے کی تین شاخوں نے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ “ہمارے چند افراد کو سرکار کی لوکل بنانے والی کمیٹی میں شامل کیا جائے۔” یہ ایک غیر آئینی اور خطرناک مطالبہ ہے۔ اگر کسی بھی سطح پر اس کی اجازت دی گئی، تو یہ نہ صرف مندوخیل بلکہ ژوب کے تمام مقامی قبائل کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہوگا، کیونکہ اس سے غیر مقامی عناصر کو قانونی حیثیت مل جائے گی جو آئندہ تعلیمی، ملازمتی، اور کاروباری مواقع میں مقامی آبادی کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں جب بھی ان پر جنگیں مسلط کی گئیں، انہوں نے امن اور رواداری کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنی سر زمین کا دفاع کیا۔ درجنوں نوجوانوں نے اپنی مٹی کے لیے جانیں قربان کیں، مگر کبھی اپنے اقدار سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان قربانیوں کی بدولت آج ژوب میں امن قائم ہے۔

تنازع کی بنیاد اور تاریخی پس منظر

تقریباً چالیس سال پہلے سلیمان خیل قبیلے کی تین شاخوں مینزی، محمود خیل، اور میر خان خیل نے مندوخیل کے بزرگوں سے درخواست کی کہ: “ہم مویشی پال لوگ ہیں، اگر آپ ہمیں اپنی چراگاہ میں چرنے کی اجازت دیں تو ہم ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔” انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت مندو خیل کے بزرگوں نے اجازت دے دی، مگر کچھ عرصے بعد انہی قبائل نے وہاں مستقل گھر تعمیر کرنا شروع کر دیے۔ یوں یہ مسئلہ ایک انسانی ہمدردی سے نکل کر زمین کے تنازع میں بدل گیا۔ پولیٹیکل ایجنٹ اور کلیکٹر ژوب کی 1994 تا 1999 کی رپورٹوں کے مطابق: “سلیمان خیل افغان رعایا ہیں اور پاکستان کی زمین پر ملکیت کے حق دار نہیں۔”

امن جرگہ، شرپسند عناصر اور تصادم کی روک تھام

جب ژوب کے مختلف قبائل کے مشران نے امن کے لیے جرگہ قائم کیا، تو چند شرپسند عناصر نے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی اور 11 اکتوبر 2025 کو جلسے کا اعلان کیا۔مندو خیل قبیلے کا موقف دوٹوک ہے کہ: “جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کو شہید کیا، وہ اب ہماری زمین پر قبضہ نہیں کر سکتے۔”

اس کے بعد 10 اکتوبر کو مندوخیل قبیلے نے ژوب کے داخلی راستے بند کر دیے تاکہ کوئی ان کی حدود میں داخل نہ ہو۔ تاہم، انتظامیہ، قبائلی مشران، اور سیاسی رہنماؤں کی بروقت مداخلت سے ممکنہ تصادم ٹل گیا۔ ورنہ باہر سے آئے عناصر ایک بڑے نقصان کا باعث بن سکتے تھے اور ایک نئی جنگ بھڑک اٹھتی۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہی گروہ قمردین کاریز میں لعون اور مردانزی کاکڑ قبائل کی زمینوں پر بھی قبضے کے تنازعات میں ملوث ہیں۔

مندوخیل قبیلے کے باشعور نوجوانوں اور کمیٹی کے فعال اراکین

سردار محمد ایوب مندوخیل، سردار عبدالصمد مندوخیل، ملک حاجی اسلم مندوخیل، حاجی فضل قادر مندوخیل، کمال خان مندوخیل، جلال خان مندوخیل، انجینئر عبدالمالک مندوخیل، مراد خان مندو خیل، نیک نظر (نیکو) مندوخیل نے اپنے علاقے میں امن، اتحاد، اور ترقی کے لیے دن رات جدوجہد کی۔ ان کی قربانیاں ژوب کے امن کی ضمانت بنیں۔ساتھ ہی ژوب کے دیگر مقامی قبائل کاکڑ، شیرانی، حریفال، بابر، اور لعون کا کردار بھی قابلِ ستائش ہے جنہوں نے امن و بھائی چارے کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔

وطن اور مٹی ماں کی مانند ہوتی ہے۔ چاہے انسان کتنا ہی تعلیم یافتہ یا مہذب کیوں نہ ہو، جو اپنی زمین اور اپنے وطن کے لیے لڑ نہیں سکتا، وہ اپنی ماں کے لیے بھی نہیں لڑ سکتا۔یہی مندو خیل قبیلے کی پہچان ہے۔ کعبہ کی سمت منہ رکھنے والا، اور انسانیت کے احترام پر قائم قبیلہ۔

آج یہ ضروری ہے کہ حکومت جعلی شناختی کارڈ، جائیدادیں، اور غیر قانونی شہریت حاصل کرنے والے لوگوں، خاص طور پر بااثر عناصر کے خلاف بلاامتیاز اور سخت قانونی کارروائی کرے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سے سليمان خيل نہ صرف پاکستانی شناخت حاصل کر چکے ہیں بلکہ ، بلدیاتی اداروں، اور سرکاری ملازمتوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ پاکستان کے نظام پر سوالیہ نشان ہے اور مقامی شہریوں کے حقوق پر کھلا ڈاکہ سرحدی علاقوں میں بااثر لوگوں کی موجودگی، مقامی وسائل پر قبضہ، اور سرکاری ملازمتوں میں غیر قانونی شمولیت نے مقامی آبادی میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔

دوسری جانب، افسوسناک امر یہ ہے کہ کارروائی صرف غریب اور کمزور لوگوں تک محدود ہے، جبکہ طاقتور عناصر کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ جعلی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دستاویزات کی جامع چھان بین کر کے جعلی لوگوں کو بے نقاب کرے، اور ان کے سرپرستوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لائے یہ سب تب ہی ممکن ہے جب قانون کی عمل داری شفافیت اور قومی مفاد کو ذاتی سیاسی یا گروہی مفاد پر ترجیح دی جائے صرف زبانی اعلانات سے بات نہیں بنے گی عملی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے