تاریک راہوں کی بے زبان مسافر ۔۔۔

ایک یخ بستہ شہر کی برف میں لپٹی گلیوں میں وہ جنم لیتی ہے۔
ایک ٹھنڈی صبح، جہاں دھند میں لپٹے مکان خاموش کھڑے ہیں،
اور زندگی کی حرارت صرف اس کی سانسوں میں جھلک رہی ہے۔
اس کا کوئی گھر نہیں، کوئی نام نہیں۔
وہ گلیوں، بازاروں اور گٹر کے کناروں پر بھٹکتی ہے۔
کبھی کسی بچے کے ہاتھ سے گرا ٹکڑا اس کے لیے ضیافت بن جاتا ہے،
کبھی کسی دروازے کے نیچے سے نکلتی بھاپ اس کی پناہ۔
زندگی اس کے لیے کوئی خواب نہیں، بس گزرتا ہوا موسم ہے۔
اسے نہیں معلوم کہ قسمت اس کے لیے کیسی کہانی لکھ چکی ہے —
ایک ایسی کہانی جس میں آغاز تو زمین پر ہے، مگر انجام کہیں اور۔

پھر ایک دن، چند لوگ آتے ہیں۔
سفید کوٹ، سرد چہرے، پرسکون آوازیں، مگر آنکھوں میں ایک چھپا ہوا فیصلہ۔
وہ اسے اٹھا لیتے ہیں —
شاید نرمی سے، مگر بے رحم ارادے کے ساتھ۔
وہ اسے ایک کمرے میں لے جاتے ہیں،
جہاں مشینوں کی گونج ہے، دیواروں پر ٹھنڈا لوہا ہے،
اور ہوا میں کسی تجربے کی بو ہے۔
اسے تربیت دی جاتی ہے —
خاموش رہنا، بند جگہوں میں سانس لینا، شور برداشت کرنا۔
اس کے جسم پر تاریں باندھی جاتی ہیں، نبض ناپی جاتی ہے،
اور ہر دھڑکن کو ایک عدد میں قید کر لیا جاتا ہے۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آتا —
بس اتنا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب آزاد نہیں رہی۔
کہیں نہ کہیں، اس کے اندر ایک ہلکی سی لرزش ہے —
شاید خوف کہ کچھ ہونے والا ہے۔

اور پھر، ایک صبح —
جب یخ بستہ شہر کے آسمان پر سورج کی پہلی کرن پڑتی ہے،
وہ اسے ایک چمکتی ہوئی دھات کے دائرے میں بٹھاتے ہیں۔
دھات سرد ہے، خاموش ہے،
اس کے اردگرد اجنبی ہاتھ حرکت کر رہے ہیں۔
دروازہ بند ہوتا ہے۔
ایک لمحے کو سب کچھ رک جاتا ہے۔
پھر شور گونجتا ہے، زمین لرزتی ہے،
اور وہ فضا میں اٹھتی ہے۔
اس کے کانوں میں دھماکوں کی آواز ہے،
دل بے قابو دھڑک رہا ہے،
اور آنکھوں میں صرف خوف ہے۔
وہ سمجھ نہیں پاتی —
کیا وہ اڑ رہی ہے، یا گر رہی ہے؟
کیا یہ خواب ہے یا انجام؟
پھر آہستہ آہستہ شور کم ہوتا ہے،
اور ایک بھاری خاموشی ہر چیز کو نگل لیتی ہے۔

یہ لمحہ وہ تھا جہاں زندگی اور تاریخ آپس میں ٹکرا گئیں۔
اور وہ، جو محض ایک بے زبان وجود تھی،
اب ایک “تجربہ” بن چکی تھی۔

یہ کوئی عورت نہیں تھی۔
نہ کوئی انسان۔
یہ ایک کتیا تھی — لائیکا۔
تین نومبر 1957 کو، سوویت یونین نے اسے سپوتنک 2 کے ذریعے خلا میں بھیجا۔
ایک آوارہ جانور، جسے اس کے سکون، برداشت اور خاموشی کے باعث منتخب کیا گیا۔
کیپسول میں کھانا تھا، پانی تھا، نرم دیواریں تھیں —
مگر واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
وہ چند گھنٹے زندہ رہی،
جب تک اس کی سانسیں گرم دھات کی دیواروں میں الجھ نہ گئیں۔
پھر وہ سو گئی — ہمیشہ کے لیے۔

اس کا جسم تو نہیں لوٹا،
مگر اس کا نام زمین کے ہر دائرے میں گھومتا رہا۔
سپوتنک 2 نے دو ہزار پانچ سو ستر چکر لگائے،
پھر 14 اپریل 1958 کو زمین کی فضا میں جل کر ختم ہو گیا۔
راکھ فضا میں بکھر گئی،
اور اس کے ساتھ ایک سوال رہ گیا —
کیا واقعی یہ سب ضروری تھا؟

لائیکا نے انسان کو آسمان تک پہنچا دیا،
مگر خود مٹی میں دفن بھی نہ ہو سکی۔
وہ سائنس کے نام پر قربان ہوئی،
ترقی کے نام پر خاموش کر دی گئی۔
اس نے کسی دوڑ میں حصہ نہیں لیا،
نہ کوئی وعدہ کیا،
نہ کسی جھنڈے کو سلام کیا —
پھر بھی وہ ایک علامت بن گئی۔

اور اب،
جب میں یہ کہانی لکھتا ہوں،
تو سوچتا ہوں —
کیا ہم سب بھی کسی نہ کسی مدار میں نہیں گھوم رہے؟
اپنی اپنی سمت میں، اپنی اپنی رفتار سے؟
ہم کہاں پیدا ہوتے ہیں، کہاں بڑے ہوتے ہیں،
اور پھر ایک ایسے سفر پر نکل پڑتے ہیں جس کی واپسی نہیں۔
وقت گزرتا ہے، لمحے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں،
اور ہم بس گھومتے رہتے ہیں —
خاموش، بے بس، اور خود کو تسلی دیتے ہوئے کہ یہ سب “ترقی” ہے۔

کیا لائیکا کو اس سفر پر بھیجنا،
جس کے اختتام پر صرف موت تھی،
اخلاقی طور پر درست تھا؟
کیا سائنس کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ احساس سے اوپر ہو جائے؟
کیا علم کی روشنی اتنی تیز ہو سکتی ہے کہ وہ رحم کی آنکھوں کو جلا دے؟
اور اگر انسان خود بھی ایک ایسے سفر پر ہے،
جہاں واپسی ممکن نہیں،
تو کیا وہ کم از کم دوسروں کے سفر کو محفوظ نہیں بنا سکتا؟

کیا آپ کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے