کوئی خوبصورت لمحہ ملے تو دل جھوم اٹھتا ہے، اور جب دکھ چھا جائے تو آنکھوں سے بہتے آنسو خاموش گواہی دیتے ہیں کہ ہم ابھی بھی جیتے جاگتے انسان ہیں۔ جذبات کی اس دنیا میں ہر رنگ کی اپنی ایک خوشبو ہے، ہر احساس کا اپنا ایک وزن ہے جو ہمیں متوازن رکھتا ہے۔ مسکراہٹ اور آنسو، دونوں انسان کے لیے یکساں اہم ہیں۔ یہی احساسات وہ زبان ہیں جن کے ذریعے دل خود کو بیان کرتا ہے، روح کو سکون ملتا ہے اور ذہن کو وضاحت نصیب ہوتی ہے۔ جب کوئی خوشی ملے تو اس کا اظہار کیجیے، اور جب کوئی دکھ آئے تو اسے دل میں دفنانے کے بجائے تسلیم کرنا سیکھیں۔ یہی انسانی رویہ ہمیں اندر سے مطمئن بناتا ہے اور زندگی کو آسان کر دیتا ہے۔
دنیا کا ہر فرد کبھی خوشی میں جھومتا ہے، تو کبھی کرب میں ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ کسی تکلیف پر افسردہ ہو اور کسی کامیابی پر خوشی سے جھوم اٹھے۔ جذبات کا یہی امتزاج زندگی کو مکمل بناتا ہے۔ کوئی ایک جذبہ مستقل نہیں رہتا، ہر کیفیت عارضی ہوتی ہے اور یہی حقیقت زندگی کی خوبصورتی کو نمایاں کرتی ہے۔ لیکن اگر انسان اپنے فطری جذبات سے منہ موڑ لے تو وہ خود اپنی ذات کے خلاف کام کرنے لگتا ہے۔ خوشی کے موقع پر ہنسنا جتنا ضروری ہے، ویسے ہی دکھ کے لمحے میں رو لینا بھی بے حد اہم ہے۔
جدید دور میں ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے جس کے مطابق ہر حال میں مثبت نظر آنا چاہیے۔ چاہے اندر کتنا ہی طوفان کیوں نہ ہو، چہرے پر مسکراہٹ لازم ہے۔ یہ رویہ بظاہر خوشنما محسوس ہوتا ہے، مگر اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ ایک مسلسل دباؤ انسان پر حاوی رہتا ہے کہ وہ کسی حال میں اپنی کمزوری نہ دکھائے، اور یہی بات اُسے اس کے جذبات سے دور لے جاتی ہے۔ اصل سکون تب ملتا ہے جب ہم خود کو اس حالت میں قبول کرتے ہیں جیسے ہم ہیں، بنا کسی بناوٹ کے، بنا کسی جھوٹی تسلی کے۔
انسان جب اپنی اندرونی کیفیات کو چھپانے لگے تو وہ جذبات کی اس قدرتی روانی کو روک دیتا ہے جو ذہنی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہر جذبہ، چاہے وہ خوشی کا ہو یا درد کا، اپنے وقت پر اظہار مانگتا ہے۔ جب ہم درد کو صرف اس لیے نظرانداز کرتے ہیں کہ ہم ’مثبت‘ نظر آئیں، تو ہم اپنے اندر ایک بے نام خلا پیدا کر لیتے ہیں۔ یہی خلا وقت کے ساتھ بڑھتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے جب ہم اپنے ہی جذبات کو پہچاننا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کیفیت سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنے ہر احساس کو بغیر کسی خوف کے جینے کا ہنر سیکھیں۔
انسانی ذہن ایک کائنات کی مانند ہے جس میں ہر جذبہ کسی سیارے کی طرح گردش کرتا ہے۔ جب ہم ان جذبات کو دبانے لگتے ہیں، تو یہ سیارے اپنی جگہ چھوڑ کر ٹکرا جاتے ہیں اور ذہنی الجھنوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دکھ کی تسلیم پذیری انسان کو مضبوط بناتی ہے، اور غم سے گزر کر نکلنے والا شخص زیادہ باشعور اور حساس بنتا ہے۔ صرف خوشی کی تلاش ہمیں یک رخا انسان بنا دیتی ہے۔ زندگی مکمل تب ہوتی ہے جب ہر جذبے کو اس کا مقام دیا جائے۔
ہماری زندگی میں بے شمار لمحات ایسے آتے ہیں جب لوگ ہمیں جلد بازی میں تسلی دیتے ہیں، حالانکہ ہمیں صرف سنا جانا ہوتا ہے۔ ’’سب بہتر ہو جائے گا‘‘ جیسے جملے بظاہر ہمدردی لگتے ہیں، مگر یہ کسی کی کیفیت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہیں۔ اصل ہمدردی تب ہوتی ہے جب کسی کو اپنے دکھ کے ساتھ جینے کی اجازت دی جائے، اُس کے آنسوؤں کو کمزوری کے بجائے طاقت سمجھا جائے۔ جب کوئی سننے والا صرف سنے اور اپنی تسلیوں کے ذریعے دوسروں کے جذبات پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے، تو وہ لمحہ شفا دینے والا بن جاتا ہے۔
آج کا انسان اپنے دکھوں کو چھپانے کے لیے سوشل میڈیا کی چمکتی دنیا میں پناہ لیتا ہے۔ تصویروں کی وہ دنیا جو ہمیشہ خوشی سے لبریز نظر آتی ہے، حقیقت میں ایک فرضی دنیا ہے جہاں دکھ کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی۔ ہر پوسٹ، ہر تصویر اور ہر کیپشن ایک مثالی زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے، جس میں حقیقت کا عکس ڈھونڈنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں انسان خود کو کم تر محسوس کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی کو اس غیرحقیقی معیار پر پرکھنے لگتا ہے جو اصل میں وجود ہی نہیں رکھتا۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ہم خوشی کی اصل تعریف کو سمجھیں۔ خوشی نہ صرف قہقہوں یا کامیابی کے لمحوں کا نام ہے یہ اُس سکون کا نام ہے جو تب ملتا ہے جب ہم اپنی ہر کیفیت کو جینے کا حق دیتے ہیں۔ حقیقی خوشی وہ ہے جو غم کے بعد بھی دل میں اطمینان پیدا کرے، جو کمزوریوں کے ساتھ جینے کا ہنر سکھائے اور جو دوسروں کے دکھ کو تسلیم کرنے کا حوصلہ عطا کرے۔ زندگی کا اصل جمال اسی توازن میں ہے جو دکھ اور خوشی، خاموشی اور مسکراہٹ، کمزوری اور طاقت کے درمیان موجود ہوتا ہے۔
انسان اگر اپنی فطرت سے جُڑا رہے تو کبھی کھوکھلا محسوس نہیں کرے گا۔ جذباتی سچائی وہ بنیاد ہے جس پر ایک صحتمند شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ بناوٹ سے بھری خوشی، اندر کی اداسی کو دباتی ضرور ہے مگر مٹا نہیں سکتی۔ سچ یہ ہے کہ انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے اندر کے ہر پہلو کو سمجھتا ہے، اسے مانتا ہے اور اس کے ساتھ جینا سیکھتا ہے۔ خوشی کا حقیقی مطلب یہی ہے کہ ہم خود کو اپنی تمام تر حقیقت کے ساتھ قبول کریں، چاہے وہ آنسو ہوں یا ہنسی، خاموشی ہو یا اظہار، سب کچھ ایک مکمل انسان کی علامت ہے۔
جب انسان اپنے جذبات کو بغیر کسی خوف کے اپنانا سیکھ لیتا ہے تو زندگی ایک نئی روشنی سے بھر جاتی ہے۔ یہ روشنی باہر سے نہیں یہ اندر سے آتی ہے، وہ روشنی جو سچائی، قبولیت اور خود شناسی سے جنم لیتی ہے۔ تب نہ کوئی دکھ خوفزدہ کرتا ہے اور نہ کوئی خوشی حد سے بڑھتی ہے، سب کچھ توازن میں آ جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان خود سے صلح کر لیتا ہے، اور یہی صلح اُس کی سب سے بڑی جیت بن جاتی ہے۔