افغان سرحد کشیدگی، پس منظر اور طالبان کی شریعت پاکستان نہ تو سویت یونین ہے اور نہ ہی نیٹو بلکہ پاکستان, پاکستان ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دونوں برادر اسلامی ممالک ہونے کے باوجود تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ اگر ایک جملے میں بیان کی جائے تو وہ ”تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)“ ہے۔ ٹی ٹی پی دراصل ایک ایسا عسکریت پسند گروہ ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ بلکہ سینکڑوں معصوم جانوں کا قتل بھی کیا ہے۔ اگر اس کے وجود پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ تنظیم سال 2007ء میں مختلف شدت پسند گروہوں کے اتحاد سے وجود میں آئی۔ ان گروہوں کا بنیادی مرکز پاکستان کے قبائلی علاقے، خصوصاً جنوبی اور شمالی وزیرستان تھے، جہاں پر افغان جنگ کے دوران متعدد عسکریت پسند عناصر نے پناہ لے رکھی تھی۔ ان گروہوں نے بیت اللہ محسود کی قیادت میں اکٹھے ہو کر تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا اور پاکستان کے خلاف نام نہاد جہاد کا اعلان کیا۔

ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع ہوئی، فوجی تنصیبات، تعلیمی ادارے، مساجد اور عوامی مقامات دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ پاکستان نے ان کے خلاف بھرپور فوجی آپریشنز شروع کیے، جن میں راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن نمایاں ہیں۔ تاہم، ٹی ٹی پی کے بہت سے جنگجو افغانستان فرار ہو گئے، جہاں انہوں نے دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کی۔ پاکستان کی جانب سے متعدد بار افغان حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پر چھپے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، مگر کابل حکومت ہمیشہ اس معاملے کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی نے کئی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور بعض افغان عناصر ان کی خاموش پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔
افغان طالبان حکومت میں بھی دو گروپ موجود ہیں۔ ایک وہ گروپ ہے جو پاکستان کو اپنا مادرِ علمی سمجھ کر پاکستان کے ساتھ نہ صرف بہتر تعلقات کا خواہاں ہے، بلکہ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان ہی وہ واحد ریاست ہے جس نے افغانستان کا ہمیشہ نہ صرف ساتھ دیا بلکہ عالمی پابندیوں کے ادوار میں بھی ہر قسم کی خوراک، ادوایات پیٹرولیم ذخائر کے دروازے افغانستان کے لیے کھول کر رکھے ہیں۔ یہ گروپ پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ افغان حکومت کے کابینہ اجلاس اور مذاکراتی عمل کی مشاورت میں بھی اس گروپ نے پاکستان کا کردار و پس منظر ہمیشہ خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرا دھڑا پاکستان مخالف جذبات سے نہ صرف مغلوب ہے۔ بلکہ ٹی ٹی پی کی پشت پناہی، اسلحے کی فراہمی اور سرحدی کشیدگی بھی چاہتا ہے۔ حالیہ سرحدی جھڑپیں عین اس وقت سامنے آئیں، جب افغان وزیر خارجہ ہندوستان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے اشارتاً یہ بھی کہا کہ پاکستان افغانستان کی طرف آنے سے قبل روس اور نیٹو سے سبق حاصل کر لے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان افغان جنگوں میں افغانستان کی رہبر و رہنمائی کون کر رہا تھا۔ افغان وزیر خارجہ کے رد عمل میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ تو نیٹو ہے اور نہ ہی روس ہے، بلکہ ہم پاکستان ہیں۔
آج دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی ہے، حالانکہ دونوں کا امن، ترقی اور خوشحالی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان کی عوام افغانستان کے بہن بھائیوں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ پچھلی چار دہائیوں میں میزبانی کی ایسی مثال قائم کی کہ دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں کسی ملک نے نہ تو مہاجرین کو بسایا، نہ اپنی زمینیں ، مال مویشی کسی اور کے سپرد کیے یہ پاکستان اور پاکستان کے عوام ہی ہیں جنہوں نے بنگالی بہن بھائیوں سے لے کر، برمی، فلسطینی اور افغان بہن بھائیوں کو اپنی زمینیں، اپنا مال و تجارت سب کچھ دیا۔ پاکستان کے اندر ایسے طبقات بھی موجود ہیں، جو محبت سے آگے بڑھ کر افغان طالبان سے اندھا عشق بھی کرتے ہیں، عوامی سطح پر افغانستان کے بارے میں ایک جذباتی ہمدردی پائی جاتی ہے جو تاریخی رشتہ، مذہبی قرابت اور افغان مصائب کی وجہ سے ہے۔ تاہم اس ہمدردی کے ساتھ ایک اور مظہر بھی سامنے آیا ہے۔ بعض علمائے کرام اور مذہبی حلقے حد سے بڑھ کر ان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ طالبان کو دنیا بھر شریعت کے علمبردار قرار دیتے ہیں، ان کے تمام عسکری اور سیاسی اقدام کو دینی جہاد کی فضا میں پیش کرتے ہیں، اور یوں عوامی دل میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ عقیدہ کہ طالبان شریعت کے محافظ ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ کیا صرف حقوق اللّٰہ کی ادائیگی اور چند خواتین کے حوالے سے حدود نافذ کرنے کا نام ہی مکمل شریعت ہے ؟؟ شریعت میں معاملات، حقوق العباد، انصاف اور ریاست مدینہ کے اصول و ضوابط شریعت کا حصہ نہیں ہیں؟؟

یہ کیسی شریعت ہے جو مسلمانوں کو بھائی قرار دینے کے بجائے اُنہی کے خلاف صف آراء ہے؟ خود کو شریعت کے علمبردار کہتے ہیں، مگر ان کے طرزِ عمل نے اسلام کے عالمگیر اخوت کے تصور کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ جس شریعت نے امتِ مسلمہ کو ایک جسم کی مانند قرار دیا، وہی شریعت ان کے دعوؤں میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ وہ ہیں جو اپنے ہی برادر پڑوسی اسلامی ممالک کے خلاف جہاد کے نام پر کاروائیاں کرنے والوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، تو دوسری طرف انہی دشمنوں سے ہاتھ ملا لیتے ہیں جنہوں نے برسوں مسلمانوں کا خون بہایا۔ امریکہ سے لے کر روس تک، اور بھارت سے لے کر مغربی ممالک تک، ہر اُس قوت کے سامنے طالبان نے اپنے مفادات کے لیے سر جھکایا جس نے کبھی انہی کے خلاف جنگ لڑی۔ اب نہ تو انہیں فلسطین کے تڑپتے ہوئے معصوم بچے یاد آتے ہیں، نہ ہی کشمیری بہن بھائیوں کی قربانیاں یاد آتی ہیں، افسوس کہ شریعت کے نام پر اقتدار کی سیاست کرنے والوں نے بھارت جیسی ریاست، کشمیریوں پر بدترین ظلم کرنے والے نام نہاد بھارتی حکمرانوں سے نہ صرف تعلقات استوار کیے بلکہ کچھ ذرائع کے مطابق پاکستان کے خلاف خفیہ معاہدوں، مالی امداد اور ہتھیاروں کے تبادلے تک جا پہنچے۔ یہ وہی بھارت ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، مگر افغان طالبان نے اُن قربانیوں کو پسِ پشت ڈال کر کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کر لیا۔ گویا اپنے شہید بھائیوں کے لہو پر سیاسی مفاہمت کی مہر لگا دی۔ کیا یہ شریعت ہے؟ کیا یہی دین کا پیغام ہے؟ شریعت تو عدل، اخوت، اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا حکم دیتی ہے۔
معزز قارئین! یار رکھنے کی اصولی بات یہ ہے کہ شریعت مطہرہ کسی بھی صورت ریاست میں نئی ریاست کے اجرا یا ریاستی سطح پر مسلم نسل کشی یا ایسا کرنے والوں کی پشت پناہی کی اجازت نہیں دیتی۔ بلکہ اسے قبیح ترین فعل قرار دیتے ہوئے فساد فی الارض بتاتی ہے۔ لہذا ہر مسلم اکثریتی ملک کو اپنی روایات اور رسوم کو پس پشت ڈال کر شریعت کی اس حقیقی روح پر عمل پیرا ہونا ہوگا، ورنہ اقوام عالم کے سامنے شرمندگی اور شریعت کی مخالفت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے