خاکہ میرا کلاس فیلو:محمد عباس

جب ہماری بی ایس اردو کی کلاسیں شروع ہوئیں تو کلاس میں کُل چالیس لڑکے تھے۔ ابتدا میں کوئی جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں کوئی بات چیت نہیں ہوتی تھی، بس حسبِ ضرورت ایک دوسرے کو دیکھ لیا یا مختصر سی بات ہو جاتی اور پھر اپنا راستہ ناپ لیتے۔اس مقدس خاموشی میں اہلِ کلاس ایک دوسرے کے قریب آتے گئے اور تعلیمی رفتار سست ہوتی گئی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے ایک دوسرے سے یہ سیکھ لیا تھا کہ وقت کو ذوق و شوق سے کیسے استعمال کرنا ہے۔ مطلب مسلسل غیر حاضر رہنے کا ذوق اور حاضری کی صورت میں گپ شپ لگانے کا شوق۔

پانچویں سمسٹر تک آتے آتے کلاس میں محض بارہ لڑکے رہ گئے۔گویا ایک درجن کیلوں کا گچھا رہ گیا جن کی صلاحیتیں تاحال چھلکوں میں پوشیدہ تھیں۔ یہ بارہ کھلاڑی میدانِ کلاس میں گھل مل کر ہنسا ہنسی کا کھیل کھیلتے اور لطیفوں اور چٹکلوں کے چھکے چھوکے لگاتے رہتے ۔یہ میچ اکثر ایک دوستانہ ماحول میں ہوتے ۔

ہمارے درمیان کلاس میں ایک ایسا بندہ موجود تھا جو تمام اساتذہ کے زیر چشم رہتا ،اور سچ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے کلاس میں رونق رہتی۔ یہ الگ بات کہ یہ رونق ہفتہ دس دن میں ایک ہی روز کے لیے میسر آتی کیونکہ اس کی غیر حاضریوں کی شرح اس کے جی پی اے کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس کا نام محمد عباس ہے

۔خوبصورت جسامت، سرخ رنگت ،چہرے پر داڑھی کو کسی حد تک بکھری ہوئی نظر آتی ہے ،بال کانوں کے اوپر ،لیکن بال اور داڑھی خشک ہونے کی وجہ سے کالی اور سنہری رنگ کی دیکھتی ہے۔ سر کے بال سادہ سے ہیں جو کنگھی سے محروم تو رہتے ہیں لیکن وہ اپنی انگلیوں سے اسے ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔

کنگھی کی مستقل مشق نہ ہونے کی وجہ سے اگر کبھی کنگھی میسر آ جائے تو بال آگے کی طرف کنگھی کرکے کنگھی رکھ لیتے ہیں اور پھر پورے انہماک سے اوپر ہاتھ پھیر کر اسے ایک عجیب انداز کے ساتھ درست کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ انداز ایک طرف سادہ ہے تو دوسری طرف کچھ لوگوں کی style بھی ہے۔

کلاس میں ایک خاص نشست پر بیٹھتا ہے جو کھڑکی کے قریب ہے۔چونکہ ہماری کلاس دوسری منزل پر ہے اس لیے کھڑکی سے باہر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ سامنے کرکٹ کا ایک بڑا میدان ہے اور آمدورفت کے لیے ایک چھوٹا سا راستہ ہے جو کالج دیوار کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔

اب یہ عباس ہی بتا سکتا ہے کہ وہ اس کھڑکی کے پاس کیوں بیٹھتا ہے۔کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کرکٹ سے اسے دل چسپی نہیں اور کالج دیوار میں اس طرف کالج سے بھاگنے کے لیے کوئی گیٹ بھی نہیں۔ موبائل کا تو گویا شیدائی ہے آتے جاتے ،اٹھتے بیٹھتے بعض اوقات تو کلاس کے دوران اساتذہ کے سامنے بھی استعمال کرنے لگ جاتا ہے خدا جانے یہ بندہ اس میں کیا دیکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کتاب سے تو گویا کوئی پرانی دشمنی ہے۔بلکہ کبھی کبھار جب بھائیوں کی تعلیمی قابلیت بتاتے ہیں تو لگتا ہے یہ ان کی خاندانی اور نسلی دشمنی ہے ۔اگر دوسرے بندے کے پاس بھی کوئی کتاب دیکھتا ہے تو فوراً کہنے لگتا ہے خدا کے بندے زیادہ پڑھائی نہ کیا کرو پاگل ہو جاؤ گے۔

تھوڑا آرام بھی کیا کرو ،۔جب ہم تیسرے میقات میں تھے تو ایک بار دو لڑکوں کی آپس میں کسی موضوع پر بحث شروع ہوگئی۔ عباس نے ان میں سے ایک کے قریب جا کر بڑے تحمل سے کہا کہ اس کے ساتھ نہ بیٹھا کرو ورنہ پاگل ہو جاؤ گے۔ یہ سن کراس نے عباس سے کہا کہ جاؤ آپنا کام کرو ۔اب اسے اتفاق کہیے یا عباس کی شرارت کی جب امتحانات شروع ہوئے تو اتفاقاً وہ لڑکا جس نے عباس سے کہا تھا آپنا کام کرو، Date sheet میں غلطی کی وجہ سے پرچہ دینے کے لیے نہیں آیا ۔ جب عباس کو اس بات کا علم ہوا تو فوراً اس سے ملنے گیا۔ہمارا خیال تھا کہ وہ اس سے افسوس کرنے یا حوصلہ دینے گیا ہو گا لیکن بعد میں پتا چلا کہ عباس نے وہاں جا کر وہ پرانا واقعہ یاد دلایا اور ایک بار پھر کہا کہ میں نے تو پہلے ہی یہ کہا تھا کہ یہ جو زیادہ پڑھائی ہے یہ اچھی بات نہیں ۔اب اپنا انجام دیکھ لیا۔

اگر کوئی عباس سے کسی بات پر چڑ جائے تو پھر اللہ ہی اس کا حافظ ہو۔ مد مقابل کو کچھ اسی طرح کے الفاظ کا سامنا درپیش رہتا ہے جس کا مطلب خود عباس کو بھی پتا نہیں ہوتا ۔ایسے موقعوں پر وہ بالکل ایک فلاسفر لگتا ہے
"تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو؟ میں ایسے ایسے حالات سے گزرا ہوں جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ میں لوگوں کی رگ رگ سے واقف ہوں۔ تم کل کے بچے ہو تمہارا سب کچھ تمہارے والدین پر منحصر ہے۔تم زندگی کے حقائق سے بے خبر ہو ”

عموماً جب وہ اردو میں بات کرتے ہیں تو لگتا ہے حلق میں نوالہ پھنس چکا ہے مگر ایسی فلسفیانہ گفتگو کے دوران ان کی بات میں غیر معمولی روانی پیدا ہو جاتی ہے۔سننے والے کو لگنے لگتا ہے کہ یہ فلاسفر کہاں سے آگیا۔یہ بندہ کن حقائق سے با خبر ہے، کن مشکلات سے گزرا ہے ہم کو تو اب تک کبھ سمجھ نہ آئی۔ البتہ عباس کی شخصیت میں یہ بات لائقِ تقلید ہے کہ کسی کے ساتھ جھگڑے کے دوران جتنا بھی غصہ ہو اور لڑائی جتنی بھی شدید ہو اس بندے کے منہ سے جو سب سے بڑی گالی نکلتی ہے وہ یہی ہوتی ہے ۔

"دی خلے تہ دی اوگورا”
(اپنے منہ کو دیکھوں)
"زہ ورک شہ مڑا”
(جاؤ دفع ہو جاؤ ۔)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے