افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ محض ایک انتظامی حکم نہیں، بلکہ ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کا امتحان ہے۔ سرحدوں پر بندش اور دلوں میں بے یقینی نے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اور افغانستان الزام تراشی اور جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے ایسا حل نکالیں جو امن، معیشت اور انسانیت تینوں کی بقا کا سبب بنے۔ کیونکہ امن کا دروازہ کبھی بارود سے نہیں، دل سے کھلتا ہے۔
افغان مہاجرین کی واپسی کا اعلان جیسے ہی سامنے آیا، ایک عجیب سا سکوت فضا میں پھیل گیا۔ لاکھوں انسانوں کے دلوں پر ایک ساتھ بوجھ آن پڑا۔ جن گلیوں میں بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، وہاں اب صرف سوال ہے کہ ہم کہاں جائیں؟ چالیس پچاس برس کی زندگی، گھر، روزگار، تعلیم، سب کچھ اچانک غیر یقینی میں بدل گیا۔
پاکستان سے جب افغان مہاجرین واپس جانے لگے تو اُن میں سے بہت سے لوگوں نے ٹوٹے دل کے ساتھ یہ سرزمین چھوڑی۔ یہ وہ لوگ تھے جو یہیں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے، جن کا بچپن، تعلیم، دوستیاں اور یادیں سب اسی مٹی سے جُڑی تھیں۔ آج جب اُنہیں وطنِ اصلی، افغانستان کی طرف روانہ کیا جا رہا ہے تو اُن کی آنکھوں میں اُمید سے زیادہ خوف اور بے یقینی نظر آتی ہے۔
کئی نوجوان ایسے بھی دکھائی دیے جو پنجاب کے شہروں میں پیدا ہوئے اور وہیں جوان ہوئے۔ ان کی زبان پنجابی ہے، اُنہیں پشتو بولنا نہیں آتی۔ اُن کے چہروں پر ایک انجان دھرتی کا خوف اور ایک مانوس وطن سے بچھڑنے کا درد واضح تھا۔اُن میں سے ایک نوجوان نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا:
“افغانستان میں ہمیں پاکستانی کہا جاتا ہے، اور یہاں ہمیں افغانی۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ ہم دراصل ہیں کہاں کے؟”
یہ جملہ شاید لاکھوں مہاجرین کے احساسِ بے وطنی کا آئینہ ہے وہ لوگ جن کے جسم پاکستان میں جوان ہوئے مگر اُن کی شناخت کہیں بھی قبول نہیں کی گئی۔ ان کی زندگی اب دو ملکوں کی سرحدوں کے بیچ، ایک ان دیکھے خلا میں معلق ہے۔
وفاقی حکومت نے سات دن کی مہلت دی، مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ واپسی کے اس سفر میں بارڈر کے اس پار کیا ہے؟ جنگ، بھوک، بے روزگاری، یا وہ دشمنیاں جن سے بچنے کے لیے یہ لوگ کبھی نکلے تھے۔ یہ محض نقل مکانی نہیں، بلکہ ایک نئے دکھ کی ہجرت ہے۔
اسلام آباد اور خیبر پختونخوا کے درمیان اختلافات نے اس معاملے کو مزید نازک بنا دیا ہے۔ وفاق سخت مؤقف رکھتا ہے کہ تمام غیر قانونی مہاجرین کو واپس بھیجا جائے، جبکہ صوبائی حکومت افغان مہاجرين سے نرمی کی قائل ہے۔ دو حکومتیں اپنی باتوں میں مصروف ہیں، مگر جن کی زندگیاں اس فیصلے سے بدلنے والی ہیں، وہ در بدر کی خاک چاٹ رہے ہیں۔
طورخم، چمن اور غلام خان کے راستے اب انسانوں کے قافلے بن چکے ہیں۔ عورتیں اپنے بچوں کو گود میں لیے، بوڑھے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگائے، دھوپ، بارش اور سردی میں سفر کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس نہ وطن میں گھر ہے، نہ یہاں مستقبل۔ چمن بارڈر پر ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے افغانستان جانے کے انتظار میں پڑے ہیں۔ خوراک اور پانی کم پڑجاتا هے، نہ بچوں کا علاج ہو رہا ہے ۔
کوئٹہ میں افغانستان کی انسانی حقوق کی رهنما فائزہ خانم کہتی ہیں کہ “اب تو پولیس مقامی پشتونوں کو بھی افغان سمجھ کر پکڑ رہی ہے۔ کئی پاکستانی شہری غلطی سے بارڈر تک پہنچا دیے گئے۔” اُن کے الفاظ دل دہلا دینے والے ہیں۔ شناختی عمل میں یہ غلطیاں نہ صرف افراد کی زندگی برباد کرتی ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہیں۔ ایسے وقت میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے ساتھ انسانیت کو بھی ساتھ لے کر چلے۔
فائزہ خانم مزید کہتی ہیں کہ “پاکستان کو جنیوا کنونشن اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت اُن افغانوں کے لیے سہولت دینی چاہیئے جن کے لیے واپس جانا خطرناک ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو وہاں دشمنیوں میں گھرے ہیں، فنکار ہیں، یا جن کی بیٹیاں یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔” ان کے یہ الفاظ دلوں کو چھو جاتے ہیں کیونکہ پناہ کا حق صرف قانون نہیں، ضمیر کی پکار بھی ہے۔
راولپنڈی میں مقیم حضرت خان نامی افغان تاجر کہتے ہیں: “ہم یہاں چالیس سال سے رہ رہے ہیں۔ کاروبار کیا، ٹیکس دیا، لوگوں کے ساتھ رشتے بنائے۔ اب اگر اچانک چلے جائیں تو سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔” حضرت خان کی آواز میں وہ لرزش ہے جو کسی ٹوٹتے خواب کی ہوتی ہے۔ وہ التجا کرتے ہیں کہ “حکومت ہمیں چھ ماہ یا ایک سال کی مہلت دے، تاکہ ہم اپنی جمع پونجی نکال سکیں، یا ہر گھر کے ایک فرد کو ویزا دے تاکہ وہ کاروبار سمیٹ سکے۔”
یہ بات بالکل درست ہے۔ پاکستان میں افغان تاجروں اور کاریگروں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کے کاروبار، دکانیں اور مارکیٹیں ملکی معیشت کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگر یہ سرمایہ اچانک باہر نکل گیا تو مارکیٹ کا توازن بگڑ جائے گا۔ حکومت اگر دانشمندی دکھائے تو انہی تاجروں کو ٹیکس کے دائرے میں لا کر، ویزا آسان کر کے، ملک کی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
افغانستان کے اندر تعلیم، خاص طور پر خواتین کی تعلیم پر پابندیاں، فنون لطیفہ پر قدغنیں اور سماجی آزادیوں کی کمی نے ہزاروں خاندانوں کو پاکستان آنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو امن، علم اور عزت کے متلاشی ہیں — نہ کہ کسی جرم کے مرتکب۔ اگر ان لوگوں کو زبردستی واپس بھیجا گیا تو یہ انسانیت کے چہرے پر ایک اور داغ ہوگا۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس سرزمین نے اپنے ہزاروں بیٹے کھوئے ہیں۔ اگر دوبارہ شدت پسندی نے سر اٹھایا، تو سب سے زیادہ نقصان انہی صوبوں کا ہوگا۔ طالبان حکومت کو بھی سوچنا ہوگا کہ دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کسی کے مفاد میں نہیں۔ جو آگ بارڈر کے اُس پار بھڑکائی جائے گی، اس کا دھواں دونوں جانب پھیلے گا۔
پاکستان کو اپنی سلامتی کے ساتھ انسانیت کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ سختی وقتی حل ہے، مگر پائیدار حل وہی ہے جو دلوں کو مطمئن کرے۔ افغان مہاجرین کو قانونی، منظم اور انسانی بنیادوں پر رجسٹر کرنا، انہیں معاشی نظام میں لانا، اور قابلِ اعتماد شناختی طریقہ اپنانا۔ یہی وہ راستہ ہے جو سیکیورٹی اور ہمدردی دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان سميت پاکستان کے عوام نے جس طرح افغان مہمانوں کے ساتھ برادری کا سلوک کیا، وہ اس خطے کی اصل روح ہے۔ آج وقت ہے کہ وفاق بھی وہی جذبہ دکھائے۔ صوبے کے ساتھ ہم آہنگی، مشاورت اور مشترکہ پالیسی ہی مستقبل کے امن کی ضمانت بن سکتی ہے۔
اگر پاکستان اور افغانستان واقعی امن چاہتے ہیں تو دونوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی چھوڑ کر مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ گولی سے نہیں، گفت و شنید سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ دونوں کے درمیان نہ صرف جغرافیہ مشترک ہے بلکہ زبان، ثقافت اور مذہب بھی ایک ہے۔ دشمنی ہمارے مقدر میں نہیں، بلکہ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
امن کے راستے پر پہلا قدم نفرت کی دیواریں گرانا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے دکھ سننا سیکھیں گے، تب بارڈر صرف لکیر رہ جائے گا، زخم نہیں۔ کیونکہ امن کا دروازہ سرحد سے نہیں، دل سے کھلتا ہے۔