کہانی ڈیڑھ مہینے کی (ایک یاد، ایک سفر، ایک خواب کی تعبیر)

13 اگست 2025 کی دوپہر تھی۔ اچانک مجھے ایک کال موصول ہوئی کہ ڈپٹی کمشنر کیچ میجر (ر) بشیر احمد بڑیچ یاد فرما رہے ہیں۔ میں نے حیرت سے پوچھا،“خیر ہے؟”جواب ملا،”میٹنگ ہے۔“

فون بند ہی کیا تھا کہ میرے پیارے اور قریبی دوست التاز سخی کی کال آگئی۔ بولے،”ڈی سی صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں۔”میں نے پوچھا،“وجہ؟“انہیں بھی کچھ علم نہیں تھا۔ابھی یہ کال ختم ہی کی تھی کہ ایک اور دوست کا فون آیا،”ڈی سی صاحب یاد کر رہے ہیں، تیار ہو جاؤ، ہم تمہیں لینے آرہے ہیں۔“میں دوکان پر تھا، تیاری کی کیا ضرورت تھی، بس انتظار کیا۔ کچھ دیر بعد وہ پہنچ گئے اور ہم دفتر کی جانب روانہ ہوئے۔

ڈی سی آفس پہنچے تو دفتر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ میجر بشیراحمد نے مجھ سے پوچھا، ”التاز کہاں ہے؟“ میں نے بتایا کہ ہم نے صبح ایک ساتھ آنے کا طے کیا تھا۔

انہوں نے کہاکہ ”فوراً اسے بلاؤ، کہو جلدی آجائے۔“
میں نے کال کی، التاز کی بات بھی خود بشیر احمد بڑیچ صاحب سے کرائی۔ کچھ دیر میں وہ بھی پہنچ گیا۔

اس سے پہلے میں آل پارٹیز کیچ کے چند دوستوں کے ساتھ آیا تھا۔ ان سے ایک پروگرام پر بات چیت ہوئی، پھر بشیر صاحب نے کہا،”ٹھیک ہے، آپ لوگ جائیں، یہ بیٹھ جائے۔“ میں رک گیا۔

جب تمام لوگوں کے مسائل اور باتیں سن لی گئیں تو ڈی سی صاحب نے ہماری طرف متوجہ ہوکر کہا،”مقبول کے پاس ایک اچھا آئیڈیا ہے، سنو۔“ میرے دو قریبی دوست مقبول ناصر اور پھلان خان بھی موجود تھے۔

مقبول نے بڑے اعتماد سے اپنا آئیڈیا پیش کیا۔ اس پر کافی دیر بحث و مباحثہ ہوا اور آخر میں طے پایا کہ اگلی صبح کلچرل سینٹر میں اس حوالے سے ایک باضابطہ بیٹھک ہوگی۔

اس سے پہلے بھی دو تین اجلاس ہو چکے تھے، مگر اب بات واضح سمت میں جا رہی تھی۔ بیٹھک میں مختلف آئیڈیاز پر گفتگو ہوتی رہی۔ ڈی سی صاحب نے ایک بات بڑے واضح انداز میں کہی، ”پروگرام ہوگا تو کلچرل سینٹر میں ہی ہوگا۔“

بعد ازاں ایک اجلاس لوکل گورنمنٹ ریسٹ ہاؤس میں یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ ہوا۔پھر سلسلہ ملاقاتوں اور مشاورتوں کا چل نکلا۔ مختلف شخصیات سے بات چیت ہوتی رہی۔

ایک اہم ملاقات سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب سے طے ہوئی۔ہم نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ شہر میں ایک بڑا ثقافتی پروگرام منعقد کرنے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے نہایت خلوص اور محبت سے دعوت قبول کی اور کہاکہ ”ٹھیک ہے، میں میزبانی اور سرپرستی کے لیے حاضر ہوں۔“

یوں ہم نے باقاعدہ پروگرام کی تیاریوں کا آغاز کیا۔اس دوران مختلف شخصیات پر غور ہوا کہ کن مہمانوں کو مدعو کیا جائے اور رفتہ رفتہ ایک خواب حقیقت میں ڈھلنے لگا۔

تیاری سے انعقاد تک

پروگرام کی تیاریاں اب باقاعدہ شروع ہو چکی تھیں۔
روز کسی نہ کسی کے ساتھ میٹنگ ہوتی۔۔۔ کبھی لوکل گورنمنٹ ریسٹ ہاؤس میں، کبھی کلچرل سینٹر میں اور کبھی کسی دوست کے ڈرائنگ روم میں۔

ہر ایک کے ذہن میں کچھ نہ کچھ تھا۔ کوئی موسیقی کی بات کرتا، کوئی کتابوں کے اسٹال کی، کوئی مہمانوں کے استقبال کی۔

ڈی سی صاحب کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر ایک کی بات پوری توجہ سے سنتے تھے۔

ایک دن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا،”دیکھو، اگر ہم سب دل سے لگ جائیں تو یہ پروگرام کیچ کے لیے ایک تاریخی موقع بن سکتا ہے۔“

ان کی بات میں وہ یقین تھا جو سب کو حوصلہ دے گیا۔

جلد ہی کاموں کی تقسیم ہوگئی۔

کسی کے ذمے اسٹیج سجاوٹ، کسی کے ذمے ثقافتی شو، کسی کے سپرد مہمان نوازی۔

میرے حصے میں کتابوں کے اسٹال اور پہلے دن بطور اسٹیج سیکریٹری کے فرائض آئے۔

یہ ذمہ داری میرے لیے اعزاز بھی تھی اور امتحان بھی، کہ افتتاحی دن پورا نظم و ضبط میرے کندھوں پر تھا۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسٹالز کو خاص رنگ دیا جائے تاکہ لوگ صرف دیکھنے نہیں بلکہ پڑھنے اور سوچنے پر بھی مجبور ہوں۔

اسی سوچ کے ساتھ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ اسٹال کی تیاری میں دل لگا دیا۔

کتابوں کی ترتیب، اسٹال کا ڈیزائن اور کلچرل فضا کے مطابق سادگی و خوبصورتی۔۔۔ ہر پہلو پر محنت کی۔

دوستوں کا جوش دیکھنے والا تھا۔
التاز سخی ہر لمحہ سرگرم، جبکہ مقبول ناصر اور پھلان خان پروگرام کے خاکے پر غور کرتے رہتے۔

یوں لگتا تھا جیسے پورا تربت ایک ہی خواب دیکھ رہا ہو۔

وقت تیزی سے گزرتا گیا۔
ڈیڑھ مہینے یوں بیت گئے جیسے پلک جھپکنے میں۔
پروگرام کی تاریخ قریب آئی تو ہر طرف ایک عجیب سی دوڑ دھوپ شروع ہوگئی۔۔ بینرز لگ رہے تھے، ساؤنڈ چیک ہو رہا تھا، ریہرسل کا سلسلہ جاری رہا۔ اور میں اکثر دوکان سے سیدھا کلچرل سینٹر پہنچ جاتا تھا۔

اسی دوران میں ہم نے گوادر کا سفر کیا۔اس سفر میں میرے ساتھ التاز سخی، حافظ صلاح الدین سلفی، پھلان خان اور عومر ہوت شامل تھے۔

گوادر پہنچتے ہی گوادر یونیورسٹی گئے جہاں رجسٹرار ڈاکٹر دولت خان نے ملاقات کی۔

فیسٹیول کی دعوت و دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔ کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر رحیم مہر بھی موجود تھے۔

جیوز کے دفتر میں کے بی فراق سے ملاقات کی جو اپنے آپ میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہیں۔

اس کے بعد آر سی ڈی سی کے دفتر میں ناصر سہرابی کی سربراہی میں آرسی ڈی سی اور خیر جان خیرول آرٹس اکیڈمی کے نمائندوں سے تفصیلی ملاقات کی۔

شام کے وقت پریس کلب کے دوستوں سے ملاقات طے تھا، جہاں انہیں باقاعدہ دعوت دی۔
واپسی پر ہمارے عزیز دوست اللہ بخش دشتی کی والدہ محترمہ کے انتقال پر تعزیت کی۔
یوں ایک خوبصورت سفر کا اختتام ہوا۔

اسی سلسلے میں یونیورسٹی آف تربت میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر گل حسن صاحب سے ان کے آفس میں ملاقات کی۔

انہوں نے روز اوّل سے آخر تک مکمل تعاون کیا، ہر محاذ پر ساتھ تھے۔پورا یونیورسٹی ہر معاملے میں شامل تھا۔
تیاریوں کے سلسلے میں آرٹ کمپیٹیشن کا انعقاد کیا۔طلباء نے میوزک مقابلہ ہو یا بزنس پروپوزل مقابلہ۔۔۔ تمام میں حصہ لیا اور جیت بھی اپنے نام کی۔

اسی طرح مکران میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر افضل خالق صاحب سے ملاقات کی،انہوں نے بھی بھرپور تعاون کیا، اپنا اسٹال لگایا اور لوگوں کو آگاہی دی۔

آخر وہ دن آ پہنچا۔۔۔ کیچ کلچرل فیسٹیول کا پہلا دن۔
کلچرل سینٹر لوگوں سے بھر چکا تھا۔ رنگ، خوشبو، موسیقی اور کتابوں کی مہک فضا میں گھل گئی تھی۔

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی جو مہمانِ خاص تھے، اسلام آباد سے خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔

اس کے علاوہ معروف صحافی و اینکر، ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان کے صدر سبوخ سید، پی ایف یو جے کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار، عرفان سعید (صدر پریس کلب کوئٹہ) اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری بھی مہمانان میں شامل تھے۔

افتتاحی کلمات ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر احمد بڑیچ نے اپنے انداز میں بلوچی بول کر اداکیے،اور ڈاکٹر مالک صاحب چونکہ میزبان تھے، اس لیے انہوں نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

میں نے بطور اسٹیج سیکریٹری مائیک سنبھالا تو دل میں ایک عجیب سا سکون تھا۔۔۔یہ لمحہ صرف میرا نہیں، پورے کیچ کا تھا۔

پورا دن نظم و ضبط، پیشکش اور مہمان نوازی میں گزرا،مگر دل میں خوشی یہ تھی کہ ہر چیز اپنے مقام پر تھی۔

تین دن تک تربت جیتا رہا۔ لوگوں نے بلوچ ثقافت کو نئے رنگ میں دیکھا، ادبی نشستوں نے دلوں کو چھو لیا،
اور سب سے بڑھ کر یہ احساس غالب رہا کہ جب نیت صاف ہو تو چھوٹا شہر بھی بڑا خواب دیکھ سکتا ہے۔

جب فیسٹیول ختم ہوا تو تھکن بھی تھی، مگر دل مطمئن تھا۔میں نے دل ہی دل میں کہا کہ ”یہ سب ایک کال سے شروع ہوا تھا۔۔۔اور ڈیڑھ مہینے میں تاریخ بن گئی۔”

بعد از فیسٹیول۔۔۔ یادیں، تاثرات اور سیکھنے کے پہلو

فیسٹیول کے تین دن گزرے، مگر ان کے اثرات اگلے کئی دنوں تک فضا میں محسوس ہوتے رہے۔

تربت جیسے ایک چھوٹے مگر ثقافتی لحاظ سے زرخیز شہر نے وہ دن دیکھے جنہیں لوگ دیر تک یاد رکھیں گے۔
شہر کے گلی کوچوں میں باتیں ہو رہی تھیں۔۔۔ کسی کو اسٹالز پسند آئے، کسی کو ثقافتی شو، کسی کو ادبی نشستوں نے متاثر کیااور کئی لوگ اس پروگرام کو”تربت کی ایک نئی شروعات“کہہ رہے تھے۔

فیسٹیول کے بعد جب میں اپنی دوکان پر واپس آیا تو کئی لوگ آتے اور اپنے تاثرات بیان کرتے۔

کوئی کہتا، آپ کا اسٹال بہت خوبصورت تھا، کتابیں دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔۔۔

کوئی کہتا،”افتتاحی دن اسٹیج پر آپ کی گفتگو نے پروگرام کو جِلا بخشی۔

یہ تعریفیں صرف میرے لیے نہیں تھیں، یہ ایک مشترکہ کامیابی کا اعتراف تھا۔

سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ پروگرام صرف ایک ایونٹ نہیں بلکہ ایک احساس بن گیا تھا۔۔۔۔۔ایک ایسا احساس کہ اگر شہر کے لوگ مل کر سوچیں، محنت کریں اور نیت صاف ہو۔۔۔ تو بڑے شہروں کی طرح چھوٹے شہر بھی اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔

اس فیسٹیول سے میں نے اور میرے ساتھ کام کرنے والے دوستوں نے بہت کچھ سیکھا۔
ہم نے جانا کہ

منصوبہ بندی میں نظم و ضبط سب سے ضروری ہے،

ٹیم ورک ہی اصل طاقت ہے

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب دل سے کام کیا جائے تو تھکن بھی ایک میٹھا تجربہ بن جاتی ہے۔

اس ایونٹ نے کیچ کے نوجوانوں میں اعتماد پیدا کیا،ادبی و ثقافتی فضا کو ایک نئی زندگی دی اور سب سے اہم یہ کہ شہر میں مثبت سوچ کو مضبوط کیا۔

آج بھی جب وہ لمحے یاد آتے ہیں۔۔۔۔ وہ میٹنگز، تیاریوں کی دوڑ، افتتاحی دن کا مائیک سنبھالنا، کتابوں کے اسٹال کے اردگرد لوگوں کا ہجوم۔۔۔۔ تو دل کے کسی کونے میں ایک اطمینان سا جاگ اٹھتا ہے۔

یہ سب ایک کال سے شروع ہوا تھا،ڈیڑھ مہینے کی دوڑ دھوپ سے گزرااور آخرکار تاریخ کا ایک خوبصورت باب بن گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے