اولڈ ہوم: بزرگوں کے لیے پناہ گاہ یا سزا؟

آج کا دور تیز رفتار زندگی جدید ٹیکنالوجی، اور خودغرضی کا دور ہے۔ جہاں ہر شخص اپنی ذات، اپنے مسائل اور اپنے مفادات میں اس قدر مشغول ہے کہ دوسروں کی تکلیف، خاص طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں کے جذبات اکثر نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل لوگ اپنے ماں باپ، دادا دادی یا نانا نانی جیسے بزرگوں سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں، جو کبھی ان کی پرورش اور تربیت کا مرکز تھے۔

بیزاری کی یہ مختلف وجوہات کی بنا پر سامنے آتی ہے۔ سب سے پہلی وجہ خودغرضی اور مادہ پرستی ہے۔ آج کا انسان "میرے وقت،میری آزادی میری سہولت کے خول میں بند ہو چکا ہے۔ بزرگوں کی خدمت کو وہ ایک بوجھ سمجھنے لگا ہے کیونکہ اس سے اس کی آزادی مصروفیت یا سوشل لائف متاثر ہوتی ہے۔دوسری بڑی وجہ تربیت میں کمی ہے۔ جب بچوں کو بچپن سے ہی بڑوں کی عزت، خدمت اور اہمیت کا سبق نہ دیا جائے تو وہ بڑے ہو کر انہی کو غیر اہم سمجھنے لگتے ہیں۔

اس کے علاوہ جدید طرزِ زندگی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔آج کل کے دور میں زیادہ تر میاں بیوی کام کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ بچوں کی پرورش اور کیریئر کی دوڑ میں وہ اپنے والدین کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔بعض اوقات، خاندانی جھگڑے، جائیداد کے مسائل یا ساس بہو کے اختلافات بھی اس بے زاری کو جنم دیتے ہیں۔
جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بزرگوں کو اولڈ ہوم بھیج دیا جاتا ہے۔

اولڈ ہوم بظاہر ایک سہولت ہے۔ جہاں بزرگوں کو رہائش، کھانا، اور طبّی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔مگر جذباتی طور پر یہ جگہ اکثر ایک "سزا” جیسی محسوس ہوتی ہے۔ ماں باپ جنہوں نے اپنی جوانی بچوں کی پرورش میں لگا دیتے ہیں وہ بڑھاپے میں یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کے بچے ان کا سہارا بنیں گے۔ لیکن جب وہی بچے انہیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں تو ان کے دل پر گہرا زخم لگتا ہے۔ اولڈ ہوم میں وہ جسمانی طور پر تو زندہ ہوتے ہیں مگر اندر سے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔

ایسے بزرگ جو واقعی اکیلے ہوں، جن کا کوئی عزیز نہ ہو، ان کے لیے اولڈ ہوم ایک پناہ گاہ بن سکتا ہے۔لیکن جن کے بچے ہوتے ہوئے بھی وہ وہاں وقت گزارنے پر مجبور ہوں تو ان کے لیے یہ جگہ سزا سے کم نہیں۔ ان کے چہروں کی خاموشی آنکھوں کی نمی اور دل کی اداسی اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اس معاملے می پوری کوشش کریں۔ہمی بزرگوں کی قدر کریں ان کے تجربات سے سیکھیں اور انہیں وہ محبت اور عزت دیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ والدین صرف جسمانی دیکھ بھال کے محتاج نہیں ہوتے وہ محبت وقت اور توجہ بھی چاہتے ہیں۔اولڈ ہوم کو صرف آخری متبادل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، نہ کہ ایک آسان حل کے طور پر۔

بزرگ ہمارا ماضی ہیں اور ان کا احترام ہمارا فرض۔اگر آج ہم اپنے پیاروں کو تنہا چھوڑ دیں گے تو کل ہمارا بھی یہی انجام ہو سکتا ہے۔ معاشرے کی بہتری خاندانی نظام کی مضبوطی اور انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بزرگوں سے بیزار ہونے کے بجائے ان کی خدمت کو فخر کا باعث سمجھیں اور انہیں وہ مقام دیں جو ان کا حق ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے