ادب، روحانیت اور موجودہ سماجی حال احوال

اس وقت پورا معاشرہ شدید ذہنی، جذباتی، سیاسی اور سماجی تناؤ میں بری طرح مبتلا ہو گیا ہے جس کے سنگین نتائج اور عواقب روز نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف گالیوں، الزامات، بدتمیزیوں اور چور چور کا شور مچا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اخلاق باختگی، بے چینی، گناہوں کی کثرت اور جرائم کی نحوست چار سوں پھیلی ہوئی ہے۔

جہاں بھی دیکھیں انسان نے انسان کا نشانہ لیا ہوا ہے۔ احساس کا فقدان ہے، ادراک کمیاب ہے، اخلاق کا بحران ہے، تعلقات میں خلا ہے، معاملات میں عدم اعتماد ہے اور حالات ہر طرح سے تشویشناک ہیں جبکہ لوگ ایسے پریشان حال ہیں کہ انہیں درست سلوک اور رویوں کا اندازہ بالکل نہیں ہو رہا۔ ایسے عالم میں ضروری ہے کہ اصلاح کے خاطر علمی، روحانی اور اصلاحی سلسلوں سے منسلک بزرگوں کی تعلیمات کو بڑے پیمانے پر رجوع کیا جائے تاکہ قلب و نظر کی دنیا میں سکون اور ٹھہراؤ آ جائے اور یوں نتیجتاً اخلاق و کردار میں مثبت تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے۔

ادب اور روحانیت کا باہمی تعلق نہایت درینہ اور مضبوط ہے۔ ادب اگر تخیل کی تہذیب کو کہا جاتا ہے تو روحانیت اندرونی کیفیات کی تہذیب کو۔ یہی وجہ ہے کہ ادب اور روحانیت ہر دور اور مقام پہ ہمیں جا بجا، ساتھ ساتھ قدم اُٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انبیاء کرام، صلحاء عظام اور دانشمندان قوم نے ہمیشہ انسانی تخیل اور کیفیتوں کی اصلاح کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ علم و اصلاح کے اس تاریخی تسلسل سے انسان کے لیے، انسانیت کے معراج پر پہنچنا ممکن ہو رہا ہے۔

موجودہ سماجی تناؤ اور اخلاقی زوال کی بنیادی وجہ مادیت پرستی اور روحانی خلا ہے۔انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی تو کرلی ہے لیکن اپنے باطن کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ یہی داخلی خلا بیرونی انتشار کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ ایسے میں ادب اور روحانیت کا امتزاج ہی وہ شفاف چشمہ ہے جو انسان کے اندر چھپے ہوئے روحانی تشنگی کو سیراب کر سکتا ہے اور اس کی بے چین روح کو سکون بخش سکتا ہے۔

آج ادب کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے، جبکہ اس کا اصل مقصد ہمیشہ سے انسان کے تخیل اور جذبات کی تربیت و نفاست رہا ہے۔ ادیبوں اور دانشمندوں نے اسی مقصد کے لیے قلم اٹھایا تھا۔ ان کا مقصد مخاطب لوگوں کے دل و دماغ میں ایک ایسی کہکشاں بسانا تھا جہاں سے وہ روشنی حاصل کر سکے۔ لہٰذا ادب کو اپنے اصل مشن کی طرف لوٹانا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

روحانیت کو اکثر و بیشتر محض چند مذہبی رسوم و عبادات تک محدود سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ صوفیائے کرام کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ روحانیت درحقیقت "خود شناسی” کا دوسرا نام ہے۔ یہ اپنے اندر کے وجودی حقائق کو پانے، اپنی نفسی کیفیات کو سمجھنے اور پھر اس معرفت کے ذریعے خالق اور مخلوق کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرنے کا عمل ہے۔

موجودہ ہمہ جہت بحران سے نکلنے میں نوجوان نسل کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہیں محض ڈگریوں اور نوکریوں کے حصول تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ مختلف علمی و ادبی محفلوں کا حصہ بن کر اپنے فکری و روحانی ذوق کو جلا بخشنی چاہیے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو اپنی توانائی، جدت اور جرات سے معاشرے میں ایک مثالی انقلاب لا سکتے ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا آغاز فرد کی اصلاح سے ہوتا ہے۔ جب ایک انسان اپنے اندر ادب، احترام، صبر اور شکر کے جذبات پیدا کرے گا تو یہی خوبیاں اس کے خاندان، پھر اس کے محلے اور بالآخر پورے معاشرے میں منتقل ہو جائیں گی۔ "قلم کارواں” جیسی تحریکیں درحقیقت اسی "فرد” کو مخاطب بنانے اور اسے تبدیل کرنے کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔

"قلم کارواں” اسلام آباد کی ایک معروف اور وقیع ادبی تنظیم ہے جو پورا سال ہفتہ وار سطح پر مختلف موضوعات کے اوپر بامقصد ادبی اور تعمیری سرگرمیوں کا اہتمام نہایت باقاعدگی اور خلوص سے انجام دے رہی ہے۔ "قلم کارواں” سے بڑی تعداد میں علمی اور ادبی شخصیات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک لوگ وابستہ ہیں۔ میرے خیال میں ایسی تنظیمیں اور ان کی جاری سرگرمیاں سماج کے لیے کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔ تمام لوگ بالخصوص نوجوانوں کو ایسے پروگرامات میں ضرور شریک ہونا چاہیے تاکہ زندگی کے وہ پہلوؤں بھی نگاہوں میں آجائیں جو بوجوہ توجہ سے اوجھل ہیں۔

قلم کارواں کی انتظامیہ نے کچھ عرصہ قبل اپنے ہفتہ وار پروگرام میں خاکسار کو معروف صوفی بزرگ محی الدین ابن عربی پر مقالہ: بعنوان "منفرد خیالات کے حامل صوفی بزرگ کی زندگی اور تعلیمات پر ایک طائرانہ نظر” پیش کرنے کا حکم صادر کیا ہے جو کہ میرے لیے اپنی کم مائیگی کی وجہ سے مشکل ہونے کے باوجود ایک سعادت کی بات ہے۔ خاکسار نے اپنی بساط کے مطابق مذکورہ موضوع پر اپنے خیالات ناظرین کے سامنے رکھ دئیے۔

محی الدین ابن عربی کی تعلیمات کو اگر دقت بندی اور مابعدالطبیعاتی مباحث سے نکال کر عملی زندگی میں لاگو کیا جائے تو یہ پورے معاشرے میں رواداری، باہمی محبت اور احترام کا جذبہ پیدا کر سکتی ہیں۔ جب انسان ہر شے میں خدا کا جلوہ دیکھے گا تو پھر وہ کسی کو تکلیف دینے، کسی پر ظلم ڈھانے یا کسی کی توہین کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکے گا۔ یہی تعلیمات ہمارے اس متشدد دور کے لیے سب سے بڑی شفا ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں درست طور پر زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نوٹ: ان شاءاللہ محی الدین ابن عربی پر میرا تفصیلی مقالہ چند روز کے بعد آئی بی سی اردو پر شائع ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے