جب بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو ان کے رویے، ترجیحات اور مصروفیات میں نمایاں تبدیلی آتی ہے، جبکہ والدین کا دل اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے قریب تر رہیں۔ یہ ایک ایسا نازک مرحلہ ہوتا ہے جہاں محبت اپنی جگہ موجود ہوتی ہے، لیکن اس کے اظہار کا طریقہ بدل جاتا ہے۔ والدین اگر اس تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور خود کو نئی صورتحال کے مطابق ڈھالیں، تو رشتے میں وہ گرمی، اپنائیت اور گہرائی باقی رہ سکتی ہے جو اسے خاص بناتی ہے۔ ایسے وقت میں ضروری ہے کہ والدین سب سے پہلے خود کو کسی خول میں بند کرنے کے بجائے کھلے دل کے ساتھ اپنے بچوں کی دنیا کو جاننے کی کوشش کریں۔ جوان اولاد اب وہ ننھے بچے نہیں رہے جو ہر وقت والدین کی انگلی تھامے رہیں، لیکن یہ حقیقت اس بات کو جھٹلا نہیں سکتی کہ دل کی ڈور ابھی بھی جڑی ہوئی ہے۔ وہ ڈور جس میں محبت، اعتماد، احترام اور قربت کے رنگ بھرے جا سکتے ہیں، اگر والدین چاہیں تو۔
ایک مؤثر طریقہ یہ ہے کہ والدین خود کو ایک مشیر کے بجائے ایک ہم سفر کے طور پر پیش کریں۔ زندگی کے اس مرحلے پر اولاد کو نصیحت سے زیادہ ایک ایسا کان چاہیے جو ان کی بات سنے، ایک ایسا دل چاہیے جو ان کے جذبات کو سمجھے اور ایک ایسا وجود چاہیے جو ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے، بغیر کسی سختی، شکایت یا مداخلت کے۔ جب والدین غیر مشروط محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے بچوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہیں تو باہمی تعلق ایک نئی سطح پر رشتہ پروان چڑھنے لگتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب رشتہ ایک نئے رخ پر چلتا ہے، جہاں دو بالغ افراد ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ اگر والدین ہر ملاقات کو محض رسمی نہ بنائیں بلکہ خلوص سے بھری ایک خوبصورت یادگار میں بدلنے کی نیت رکھیں تو اولاد کے دل خود بخود کھنچ کر آتے ہیں۔
گفتگو کا انداز اس تعلق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ جب والدین بات کرتے وقت لہجے میں نرمی، الفاظ میں محبت اور آنکھوں میں اپنائیت رکھتے ہیں، تو ہر جملہ اولاد کے دل کو چھو لیتا ہے۔ کسی بھی رشتے میں سب سے اہم احساس یہ ہوتا ہے کہ آپ سنے جا رہے ہیں، سمجھے جا رہے ہیں اور قبول کیے جا رہے ہیں۔ والدین اگر اس احساس کو ترجیح دیں تو اولاد کا دل کبھی ان سے دور نہیں ہوتا۔ نوجوانی اور جوانی کے درمیان کی اس بھول بھلیاں میں، والدین کا کردار ایک چراغ کی مانند ہو سکتا ہے جو بغیر آنکھیں جھپکائے روشنی بکھیرتا ہے، بس اتنا کافی ہوتا ہے کہ وہ روشنی میں کوئی سایہ نہ پڑنے دیں۔ والدین اگر اپنے دل کے دروازے کھلے رکھیں، شکایات کے پردے ہٹا دیں اور اعتماد کی ہوا آنے دیں تو وہی اولاد جو وقت کی کمی کا بہانہ کرتی ہے، خود وقت نکالنے لگتی ہے۔
یقین، خلوص، اور محبت کے رشتے جب آزمائش کی گھڑی میں جھلک دکھاتے ہیں، تو دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی سچائیاں سامنے آتی ہیں۔ میرے اپنے گھر کا ایک ایسا ہی لمحہ میری زندگی کے لیے ایک سبق بن گیا، جو رشتوں کی نزاکت، جذبات کی گہرائی اور برداشت کی طاقت کو مکمل طور پر عیاں کر گیا۔ میری والدہ محترمہ جس کی عمر پینسٹھ سال ہے، گزشتہ دو برس سے میرے بھائی سے ناراض تھیں۔ ایک معمولی سی بات کا آغاز، رفتہ رفتہ ایک ایسی ضد میں بدل گیا جس نے دلوں میں خاموش فاصلے پیدا کر دیے۔ والدہ محترمہ کے انکار اور بھائی کی خاموشی نے حالات کو کچھ یوں بگاڑ دیا کہ بھائی گھر چھوڑ کر پشاور منتقل ہو گئے۔ ہم سب نے بہت سمجھایا، رابطے کیے، محبت سے منانے کی کوشش بھی کی، لیکن ضد کی دیواریں اس قدر بلند ہو چکی تھیں کہ کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا۔
پھر آج وہ دن آیا جب والدہ محترمہ شدید علیل ہو گئی ہیں۔ طبیعت ایسی بگڑی کہ سب کچھ ثانوی لگنے لگا۔ جس لمحے میرے بھائی کو یہ اطلاع دی گئی، وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسلام آباد کی راہ لے بیٹھے۔ گھر پہنچے تو کسی سوال یا تاثر کا انتظار کیے بغیر، ماں کو گود میں اٹھا کر گاڑی میں بیٹھایا اور فوراً ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹرز کی مایوسیوں کے باوجود، بھائی نے فیصلہ کیا کہ انہیں ہسپتال میں ہی رکھا جائے تاکہ مسلسل نگہداشت ممکن ہو سکے۔ وہ خود ان کے ساتھ ہر وقت موجود رہتے ہے، دوا، پرہیز، اور دلجوئی سب کچھ خود کرتے ہیں۔
آج ان لمحوں میں والدہ محترمہ کے چہرے پر وہ سچائیاں ابھر آئیں ہے جو برسوں دل میں دفن تھیں۔ وہ بار بار کہتی ہے کہ انہوں نے غلطی کی، ان کی ضد نے بیٹے کو دور کر دیا تھا اور اب وہ پچھتاوے کے بوجھ تلے دب گئی ہیں۔ وہ اکثر رو پڑتی ہے، میرے بھائی کی محبت، ان کی خدمت اور موجودگی کو مدنظر رکھ کر کہتی ہیں کہ اگر انہیں اندازہ ہوتا کہ ان کا بیٹا اتنا وفادار ہے، تو وہ کبھی اس دیوار کو کھڑی نہ کرتیں۔ ان کی آواز بھیگ جاتی، اور میں ضبط کے باوجود اندر سے ٹوٹنے لگتی۔ جب میں یہ باتیں سنتی ہوں تو دل بھر آتا ہے، خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آتی، خود کو سنبھالتی ہوں اور پھر مسکراہٹ سجا کر دوبارہ اندر جاتی ہو تاکہ ماں کو حوصلہ دے سکوں۔ میں ان کے چہرے پر خوشی کے رنگ بکھیرنے کے لیے ہر لمحہ کچھ نیا کرتی ہو، ان کے دل کو بہلانے کی کوشش کرتی ہو۔
والدہ محترمہ اکثر پرانی باتیں دہراتی ہیں، بیٹے کا تذکرہ کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتی ہیں، اور آنکھوں میں نمی لیے دعائیں بھی دیتی ہیں۔ یہ منظر میرے دل پر ایسے نقش چھوڑتا ہے جو کبھی مدھم نہیں ہو سکتے۔ اس سارے تجربے نے مجھے سکھایا کہ والدین اور اولاد کے درمیان کسی بھی اختلاف یا غلط فہمی کو طول دینا رشتے کی جڑوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ برداشت، صبر، اور معاف کر دینے کا حوصلہ ہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک مضبوط اور پائیدار تعلق کھڑا ہوتا ہے۔ ہمیں جذبات میں بہہ کر ایسی ضد اختیار نہیں کرنی چاہیے جو بعد میں ندامت کا لباس پہن لے۔ اگر وقت پر بات سن لی جائے، دل کی بات کہہ دی جائے، تو شاید آنکھیں نم ہونے سے بچ سکیں اور رشتے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہیں۔
اسی طرح یادیں اس رشتے کی خوبصورتی میں رنگ بھرتی ہیں۔ والدین اگر بچوں کے ساتھ ان کے بچپن کی کہانیاں بانٹیں، پرانی تصویریں، چیزیں دکھائیں یا ایسے لمحات کو دہرا دیں جن میں وہ ہنستے تھے، تو یہ سب دلوں کو قریب کر سکتا ہے۔ جذبات کی دنیا میں ایک ایسا لمس ہوتا ہے جو کسی قیمتی تحفے سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ اولاد کے لیے وہ لمحے قیمتی ہوتے ہیں جب وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ ان کے والدین نہ صرف ماں باپ ہی ہیں ان کی زندگی کا سب سے مضبوط سہارا بھی ہیں۔ ایسے وقت میں یہ بھی ضروری ہے کہ والدین صرف ماضی میں نہ الجھیں، بلکہ بچوں کے حال اور مستقبل میں بھی دلچسپی لیں، ان کے منصوبوں، خوابوں اور کامیابیوں کو سراہیں اور ان کی محنت کو تسلیم کریں۔
اسی طرح باہمی اعتماد کی بنیاد پر قائم رشتہ کبھی کمزور نہیں ہوتا۔ والدین اگر اپنی بات منوانے کی کوشش کے بجائے اولاد کی بات سمجھنے کی کوشش کریں تو تلخیوں کے تمام راستے بند ہو سکتے ہیں۔ جب اولاد کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے والدین ان کی مرضی کا احترام کرتے ہیں، تو وہ خود بخود دل کی باتیں شیئر کرنے لگتے ہیں۔ یہ اعتماد ہی ہوتا ہے جو دلوں کے فاصلے کم کرتا ہے۔ اگر کبھی کوئی غلط فہمی یا فاصلہ پیدا ہو بھی جائے تو ایک سادہ سا جملہ "تم میرے لیے بہت اہم ہو” ہر دراڑ کو بھر سکتا ہے۔ ایسے وقت میں ضد، خاموشی یا انا رشتے کو مزید کمزور کر دیتی ہے، اس لیے پہل کرنا والدین کا خاصہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح تجربے کا خزانہ والدین کے پاس ہوتا ہے اور جذبات کی نرمی اولاد کے پاس، جب یہ دونوں مل جائیں تو ایک ایسی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جو ہر رشتے کا خواب ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی زندگی میں شامل رہیں، لیکن ان پر حاوی ہونے کی کوشش نہ کریں۔ ان کی زندگی کا ایک حصہ بنیں، ان کے فیصلوں کا احترام کریں اور ان کی ترجیحات کو سمجھے بغیر رد نہ کریں۔ یہ رویہ تعلقات میں نرمی اور گہرائی لاتا ہے۔ صرف موجودگی کافی نہیں، بلکہ اس موجودگی کا انداز، احساس اور اثر اہمیت رکھتا ہے۔ اولاد کو جب یہ یقین ہو کہ ان کے والدین ان کی زندگی کی ہر تبدیلی کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں تو وہ کبھی ان سے دوری محسوس نہیں کرتے۔
وقت سب سے قیمتی تحفہ ہے جو والدین اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں۔ چند لمحے مل بیٹھ کر چائے پینے، کسی بات پر ہنسنے یا ایک سادہ سی گفتگو میں چھپی محبت وہ اثر رکھتی ہے جو کئی نصیحتیں بھی نہیں رکھتیں۔ والدین اگر اپنی اولاد کی موجودگی میں خود کو جوان محسوس کریں اور ان لمحوں کو یادگار بنانے کی کوشش کریں تو وہی لمحات رشتے کو پھر سے جلا بخش سکتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر یہ رشتہ نیا جنم لے سکتا ہے، اگر اس میں خلوص، سمجھداری اور صبر کی آمیزش ہو۔ والدین کا رویہ ہی وہ آئینہ ہے جس میں اولاد اپنی پہچان تلاش کرتی ہے، اگر وہ آئینہ صاف، روشن اور محبت بھرا ہو تو اس میں کبھی کوئی دھند نہیں جمتی۔
بخدا ہر دن، ہر لمحہ ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے۔ صرف ایک مسکراہٹ، ایک پیغام، ایک دعا، یا ایک گلے ملنا رشتے کو اس مقام تک لے جا سکتا ہے جہاں فاصلوں کی گنجائش نہ رہے۔ والدین اگر اپنے رویوں میں نرمی، سوچ میں وسعت اور دل میں گہرائی پیدا کریں تو جوان اولاد ان کے قریب آتی ہے، ان کے تجربات سے سیکھتی ہے اور اس رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی ہے۔ یہ سفر محبت، سمجھ بوجھ، قربانی اور دعا کا سفر ہے، جس میں اگر دونوں طرف سے خلوص ہو تو منزل کبھی دور نہیں ہوتی۔