بچپن اور بڑھاپا: مشابہتیں اور ہمارا رویہ

اکثر سنا جاتا ہے کہ بڑھاپا اور بچپن ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ بات بظاہر درست ہے کیونکہ دونوں عمر کے مراحل میں انسان کمزورحساس اور دوسروں کے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ حالات ایک جیسے ہوں رویے یکساں نہیں ہوتے۔ بچپن میں بچوں کی ضد ان کی بے معنی باتیں اور شرارتیں پیاری لگتی ہیں۔جبکہ بڑھاپے میں ماں باپ کی باتیں، نصیحتیں، اور بار بار کی دہرائی اولاد کو بوجھ لگتی ہیں۔

جب ایک بچہ مسلسل بولتا ہے، ادھر اُدھر کی باتیں کرتا ہے تو ماں باپ خوشی خوشی سنتے ہیں۔اس کے ہر جملے میں محبت تلاش کرتے ہیں۔لیکن جب وہی والدین عمر رسیدہ ہوکر زیادہ بولنے لگیں تو اولاد جھنجلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے کہتی ہے۔ "امی/ابو! بس کریں ایک بار کہا ہے نا، سن لیا!” یہ فرق رویے کا ہے، جذبے کا نہیں۔

بچہ جب ضد کرتا ہے تو سب اس کو مناتے ہیں اور بہلاتے ہیں خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن جب کوئی بوڑھا ضد کرے تو کہتے ہیں "یہ کوئی عمر ہے ضد کی؟” وہی حرکت وہی کیفیت لیکن رویہ بدل جاتا ہے کیونکہ ضد کرنے والا اب معصوم بچہ نہیں، ایک ضعیف والد یا والدہ ہے۔ ہمارے دل میں وہ شفقت باقی نہیں رہتی جو کبھی ہمیں ان سے ملی تھی۔

بچوں کو کھانے کے وقت لاکھ منایا جاتا ہے، طرح طرح کی ترکیبیں کی جاتی ہیں کہ وہ کھا لیں لیکن اگریہی بات ہمارے بوڑھے والدین کھانے سے انکار کرے تو فوراً کہا جاتا ہےرہنے دو، جب بھوک لگے گی تو خود کھا لے گا۔ یہ بے نیازی دراصل ہمارے دلوں میں پیدا ہوتی سرد مہری کو ظاہر کرتی ہے۔

بچوں کو باہر لے جانا،سیر کرانا، تفریح کروانا ہماری ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ان کے لیے باہر کی دنیا بہت ضروری ہوتی ہے۔ اور ہم یہ بات مانتے بھی ہیں۔ لیکن جب وہی والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں اپنے ساتھ لے جانا بوجھ سمجھتے ہیں۔ وہ گھر کے ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں، اور ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اُن کے لیے بھی ہوا، دھوپ، روشنی اور زندگی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کسی بچے کے لیے۔

یہی ماں باپ، جنہوں نے ہماری ہر ضد، ہر کمزوری، ہر پریشانی کو برداشت کیا، آج جب وہ ہمارے رحم و کرم پر ہوتے ہیں تو ہم اُن کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کرتے جیسا انہوں نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ بڑھاپا اور بچپنا ایک جیسے ہیں، لیکن ہم اس دعوے پر عمل نہیں کرتے۔

اگر ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ بچہ اور بوڑھے برابر ہوتے ہیں تو ہمیں وہی محبت، وہی صبر، وہی تحمل اپنے والدین کے لیے بھی دکھانا ہوگا جو انہوں نے ہمارے بچپن میں ہمارے لیے دکھایا۔ان کی باتیں سننا، ان کی ضد کو سمجھنا، ان کا سہارا بننا، ان کے ساتھ وقت گزارنا یہی اصل عبادت ہے، یہی اصل خدمت ہے۔

آخر میں دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے، ان کی عزت کرنے اور ان کے بڑھاپے میں ان کے لیے راحت کا ذریعہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے