علم، صنعتی ترقی اور اخلاق کا ملاپ: قومی خوشحالی کا ایک متوازن راستہ

کیا ہی خوب ہو کہ علم، معیشت، صنعت اور مہارت ایک ہی چھت تلے آجائیں۔ اس عمل سے ایک طرف پیداوار اور معیار میں بے تحاشہ اضافہ ممکن ہوگا تو دوسری طرف روزگار کا سیلاب امڈ آئے گا۔ میرا مطلب ہے معیشت علم پر مبنی ہو، علم معیشت سے جڑا رہے، دونوں کا رخ عالمگیر صنعت اور تجارت کی طرف ہو جائے اور ہاں انسانی فلاح و بہبود کے حصول کو مرکزی ستون کا درجہ حاصل ہو۔ تعمیرات، اصلاحات اور عمومی خوشحالی کے اہداف حکمت اور سمجھداری سے متعین ہو تاکہ خوشحالی کے اثرات سے کوئی طبقہ محروم نہ رہے اور ہاں بین الاقوامی سطح پر ہمارا تاثر ایک خدا پرست اور باکردار ملت کے طور پر پیش نظر ہو۔ یقین کریں اس طرزِ عمل کے فروغ سے خود ہمارے لیے بھی اور پوری انسانیت کے لیے بھی خیر کا ایک بڑا سر چشمہ جاری ہو جائے گا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں علمی، معاشی، صنعتی اور تکنیکی دائرہ ہائے کار ایک دوسرے سے کماحقہ مربوط نہیں۔ یونیورسٹی کو انڈسٹری کا اندازہ نہیں، انڈسٹری کو یونیورسٹی کا اتہ پتہ نہیں، کارخانہ دار کو ماہر نہیں مل رہا جبکہ ماہر کو مناسب کام اور معاوضہ نہیں مل پا رہا۔ ہم گویا ایک قوم ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے گم ہو چکے ہیں۔ عصر حاضر کا کڑا تقاضا ہے کہ علم، دولت، صنعت اور مہارت باہم اچھی طرح بغلگیر ہو۔ اس سے ہمارے ہاں ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔ علم اور مارکیٹ، اخلاقیات اور ضروریات نیز مصارف اور اخراجات کے درمیان ایک توازن سماجی اور معاشی آسودگی اور تحفظ کی ضمانت ہے اس کے بغیر جدید صنعتی اور تجارتی دنیا میں، قابلِ قدر جگہ بنانا ممکن نہیں۔

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ علم اور صنعت دو متوازی خطوط کی مانند چل رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تحقیق بازار کی ضروریات سے کٹی ہوئی ہے، تو صنعت کو جدید علوم سے آراستہ ماہرین دستیاب نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم معاشی ترقی سے امکانات کے باوجود دور اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ اس خلیج نے نہ صرف معیشت کو متوازن ترقی سے محروم رکھا ہے بلکہ نوجوان نسل کے لیے روزگار کے بحران کو بھی جنم دیا ہے۔

ترقی کا حقیقی تصور اس وقت تک پنپ نہیں سکتا جب تک علم اور معیشت ایک دوسرے کے لیے معاون و مکمل نہ ہوں۔ علم اگر صنعت کاری کی رہنمائی کرے اور صنعت علم کو عملی شکل دے، تو نہ صرف معیارِ زندگی بلند ہوگا بلکہ روزگار کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔ یہ رشتہ محض معاشی خوشحالی تک محدود نہیں، بلکہ قومی خود مختاری اور سالمیت کی بنیاد بھی ہے۔

معیشت و صنعت کی دوڑ میں اگر اخلاقیات کو نظر انداز کر دیا جائے تو ترقی بے سمت ہو جاتی ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دولت کے انبار اور غربت کی گڑھے ایک ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں۔ عیاشی اور محرومی کے درمیان معاشرہ پھٹا جا رہا ہے۔ ایسے میں خدا پرستی، انصاف اور انسان دوستی جیسی اقدار ہی وہ ستون ہیں جو ترقی کے عمل اور ثمرات کو پائدار بنا سکتی ہیں۔

امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ علم و اخلاق کے جو مثالی تصورات اسلام پیش کرتا ہے، انہیں عملی شکل دے۔ ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے جہاں تعلیم، صنعت اور تجارت کا ہر پہلو انسانی فلاح اور اخلاقی بلندی سے ہم آہنگ ہو۔ یہی وہ کامیاب ماڈل ہوگا جو دنیا کو ظلم، عیش پرستی اور بے راہ روی کے بحران سے نکال سکتا ہے۔

انسانی روح کا سب سے بڑا سہارا خدا سے وابستگی ہے۔ جب یہ رشتہ کمزور پڑتا ہے، تو فرد اور قوم دونوں بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کے تمام تر سماجی، معاشی اور اخلاقی مسائل کی جڑ یہی ہے کہ انسان نے خدا کو نظر انداز کر دیا ہے۔ خدا پرستی ہی وہ بنیاد ہے جو انسان کو اس کے مقصدِ وجود سے جوڑتی ہے اور ہر عمل میں توازن پیدا کرتی ہے۔

امت مسلمہ کو اب اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ اپنے تصور علم و فلاح اور تصور اخلاق و سماج کو پریکٹس میں لائے اور دنیا کو اسے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر دکھائے۔ انسانیت کی روح، حالات، مزاج اور معاملات میں جو بحران اٹھ گیا ہے اس کو خدا پرستانہ ذہنیت، انسان دوست مقصدیت، عمومی آفادیت، آسودہ روحانیت، اخلاقی رفعت اور بااقدار بین الاقوامیت سے دور کیا جا سکتا ہے۔

انسانوں کی زندگی اور روح میں سب سے بڑا خانہ خدا کیلیے موجود ہے۔ یہ خانہ اگر خالی رہ جائے یا یہ غلط طور پر فل ہو جائے تو انسان، فرد اور قوم دونوں سطح پر بحران سے دوچار ہو جاتا ہے اور یہ حقیقت آج کے عالمی حالات سے بلکل عیاں ہے۔ ہم چند مظاہر کو لطیف سے اشارے کر رہے ہیں، آئیے ملاحظہ کریں۔

دولت کے ذخائر اور غربت دونوں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے، معاشرہ محرومی اور عیاشی کے دو واضح دھاروں میں بری طرح تقسیم ہوچکا ہے، پیدوار اور بے روزگاری ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہیں، تعلیم اور روزگار کا پورا ڈھانچہ بے ترتیب سا ہوگیا ہے، جدید ایجادات اور سہولتوں نے چاروں جانب سے زندگی پر آسانیاں برسائی ہیں لیکن ساتھ ہی انسان کے لیے کاہلی سے کروٹ بدلنا مشکل ہو رہا ہے، نوجوان ذمہ داری (شادی) سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے جبکہ عیش(ناجائز تعلقات) میں ڈوبا ہوا ہے، دنیا میں باتیں انصاف کی ہو رہی ہیں لیکن کام سارے ظلم کے جاری و ساری ہیں، خواتین تیز واقع ہوگئی ہیں لیکن ان کی تیزی کی یہ دوڑ "شاپنگ مال” یا "بے تھکان کلام” تک محدود ہے۔

ایک جگہ اگر سرمایہ غیر ضروری طور پر اڑایا جا رہا ہے تو دوسری صورت میں صدیوں کی پیاس کو پانی کے چند قطروں (ٹکوں) سے بجھانے کی تدبیر ہو رہی ہے۔ دنیا پر ایک نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ کس طرح پوری دنیا میں ریاستی، سماجی، گروہی، جذباتی اور مفاداتی تقسیم نے بدترین ظلم کی لاکھوں شکلیں اختیار کی ہوئی ہیں، ایک ہی "وجود” کا ایک حصہ امن کے لیے ہل رہا ہے تو دوسرا حصہ جنگ کے لیے حرکت میں آرہا ہے۔ مختصر یہ کہ خدا سے بے نیاز انسان کا کوئی معاملہ ٹھیک نہیں چل رہا، وہ کر کچھ رہا ہے اس سے ہو کچھ رہا ہے اس تناقض کو ختم کرنے کے لیے خدا اور دین لازم ہیں انسان جتنی جلدی اس جانب مراجعت کرلیں، بہتر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے