بلوچستان کا ضلع ژوب جو اپنی شرافت، تعلیم، پختون روایات اور بلند سیاسی شعور و سياسی تربیت گاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، آج ایک ایسے صدمے سے دوچار ہے جس نے اس خطے کے وقار اور احساسِ انسانیت کو گہرا زخم دیا ہے۔ ژوب کا ایک غریب نوجوان رحیم اللہ ولد رحمت اللہ قریشی اس وقت صوبہ سندھ کے "کچے” علاقے کے درندہ صفت ڈاکوؤں کی قید میں ہے۔ اس مظلوم کی رہائی کے لیے ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا ہے، مگر افسوس کہ اُس کی فریاد آج بھی کسی بااختیار شخص کے کانوں تک نہیں پہنچی۔
یہ وہی ژوب ہے جہاں سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس جمال مندوخیل کا تعلق ہے۔ وہ انصاف کی علامت اور اس خطے کے فخر سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ان کے دل کے کسی گوشے میں ذرا سی بھی علاقائی محبت یا احساس ہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو اس بے بس شہری کے لیے زندگی کی کرن ثابت ہو۔ شاید ایک نوٹس، ایک حکم، ایک آواز اس مظلوم خاندان کے لیے روشنی بن جائے۔
دوسری جانب، ژوب کے سیاسی ليڈران گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل، ایم این اے جمال شاہ کاکڑ، ایم پی اے شیخ زرک خان مندوخیل (مسلم لیگ ن)، ایم این اے مولوی سمیع الدین حریفال، ایم پی اے فضل قادر مندوخیل، ایم پی اے ڈاکٹر نواز کبزئی (جمعیت علمائے اسلام ف)، سینیٹر شیخ بلال مندوخیل اور وزیرِ صحت بلوچستان بخت کاکڑ (پیپلز پارٹی) سب کے سب طاقتور اور بااثر لوگ ہیں۔ ان میں سے اکثر تعمیراتی کمپنیوں، ٹھیکوں اور کاروبار کے مالک ہیں۔ اگر یہ سب چاہیں تو اسلام آباد سے کراچی تک، ہر دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ ایک فون کال، ایک اجتماعی مؤقف، ایک مشترکہ مطالبہ اس نوجوان کی رہائی کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن افسوس! کسی کے پاس وقت نہیں، کسی کے پاس احساس نہیں۔
اب آئیے “کچے” کی جانب وہ علاقہ جہاں ظلم ,بربريت اور وحشت کا راج ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے پھیلا ہوا یہ خطہ، جسے “کچہ” کہا جاتا ہے، کئی دہائیوں سے ریاست کی کمزوری اور قانون کی بے بسی کی جیتی جاگتی علامت بن چکا ہے۔ یہاں کے ڈاکو کبھی معمولی چور ہوا کرتے تھے، مگر اب وہ جدید ترین اسلحے، راکٹ لانچروں، بکتر بند گاڑیوں اور سیٹلائٹ فونز سے لیس منظم گینگ بن چکے ہیں۔
یہاں شر گینگ، اندر گینگ، کوش گینگ، چوٹو گینگ جیسے خطرناک گروہ دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کو اغوا کرتے ہیں، تاوان وصول کرتے ہیں، مزاحمت پر گولیاں مارتے ہیں، عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ درجنوں بے گناہ انسانوں کی لاشیں اُن کے ظلم کی گواہ ہیں، جو آج بھی دریائے سندھ کے کنارے خاموش چیخ بن کر پڑی ہیں۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے درجنوں فوجی و پولیس آپریشن کیے، مگر بدامنی ختم نہ ہو سکی۔ وجہ صاف ہے: کچے کے ڈاکوؤں کو بعض بااثر جاگیرداروں، وڈیروں اور سیاسی خاندانوں کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ ان کے لیے “کچہ” ایک الگ سلطنت ہے جہاں قانون کی کوئی حیثیت نہیں، جہاں زندگی اور موت کا فیصلہ طاقت اور بندوق کرتی ہے۔
کچے کے عام لوگ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان کے کھیت جل گئے، مویشی چھن گئے، بچے خوف میں پل رہے ہیں، عورتیں راتوں کو اپنے لاپتہ شوہروں کے لیے دعائیں مانگتی ہیں۔ ہر دروازے کے پیچھے خوف کی سانس سنائی دیتی ہے۔
اسی پس منظر میں یہ واقعہ پورے نظام کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے۔ جب ژوب کے چند شہری ایک ایم پی اے کے پاس گئے تاکہ وہ رحیم اللہ کی رہائی کے لیے کچھ مدد کرے، تو اُس نے بے نیازی سے جواب دیا:
“وہ تو کچے کے ڈاکوؤں کے قبضے میں ہے، میں کیا کر سکتا ہوں؟”
افسوس صد افسوس! اگر یہی نمائندہ ذرا سا سیاسی و قانونی شعور دکھاتا، تو بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سے بات کر کے وہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ تک مسئلہ پہنچا سکتا تھا۔ شاید کسی نہ کسی سطح پر رحیم اللہ کی بازیابی ممکن بن جاتی۔ لیکن ہماری سیاست میں حساسیت کی جگہ بے حسی نے لے لی ہے۔
چارسدہ کے نوجوان فضل خان کا واقعہ یاد کیجيئے جسے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے چیئرمین ملک حبیب اورکزئی، صوبائی صدر شہنام خان، اسرار خلیل اور ان کی ٹیم نے سندھ حکومت کے تعاون سے بازیاب کرایا۔ اگر وہ کر سکتے ہیں، تو ژوب کے یہ بااختیار سیاستدان کیوں نہیں؟ کیا ان کے دلوں میں انسانیت کی رمق مر چکی ہے؟
میں نے خود بطور صحافی، سماجی کارکن اور ژوب کے باسی کے طور پر گورنر صاحب کو واٹس ايپ پر ویڈیو پیغام بھیجا اور درخواست کی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ گورنر صاحب سرکاری پروٹوکول میں مصروف، ایم پی ایز سوشل میڈیا کی تصویروں اور ویڈیوز میں مگن، اور ایم این ایز جمال شاہ کاکڑ اور مولوی سميع الدین حريفال نے روز اول سے قومی اسمبلی کے فلور پر جبکہ سینیٹر شیخ بلال مندوخیل نے سینیٹ میں بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔
سرمایہ دار طبقہ پیسہ گننے میں مست ہے، عوام کے دکھ پر سیاستدانوں کے کان بند ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ژوب کے سینیٹر بلال مندوخیل کو عوام پہچانتے تک نہیں۔ میں نے خود پہلی بار ان کی تصویر دیکھی تو پہچان نہ سکا۔ جب ژوب کے سماجی کارکن ظفر کاکڑ سے پوچھا، تو معلوم ہوا کہ یہی “شيخ بلال مندوخیل سینیٹر” ہیں!
ژوب کے یہ باقی لیڈر شاید سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے ایک پیج پر نہ آئیں، لیکن پاکستان کے اہم عہدوں پر فائز ژوب کی چند شخصیات گورنر شیخ جعفر خان مندوخیل، چیف جسٹس شيخ جمال مندوخیل، سینیٹر شیخ بلال مندوخیل اور ایم پی اے شیخ زرک مندوخیل سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔
اسی لیے اگر یہ چاہیں تو اپنے خاندانی واٹس ایپ گروپ میں محض ایک پیغام سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ "آؤ، اس نوجوان کو ہر حال میں رہا کرائیں”۔ پھر یقیناً ایوانِ صدر، وزیرِ اعظم ہاؤس اور وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سندھ سب ایک ساتھ حرکت میں آجائیں گے۔
مگر افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ کسی انسان کی زندگی بچانے کے لیے سب سے پہلے انسانیت کا احساس درکار ہوتا ہے،
اور میرے خیال میں یہی احساس ان میں مفقود ہے۔ورنہ میرے جیسے لکھاریوں اور سماجی کارکنوں کو سوشل میڈیا اور کالموں میں یہ دردناک پکار کیوں بلند کرنی پڑتی؟
یہ المیہ صرف ایک مغوی کا نہیں، بلکہ ایک پورے نظامِ سیاست اور ضمیرِ انسانی کا ہے جو امیر کے سامنے جھکتا ہے اور غریب کی فریاد کو نظرانداز کرتا ہے۔ ژوب سیاسی لحاظ سے ایک زرخیز، مگر احساس کے اعتبار سے بنجر خطہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں لیڈر تو بہت ہیں، مگر رہنما کوئی نہیں۔
کچے کے ڈاکو ظالم ہیں، لیکن ان سے بڑا ظلم اُن بااختیاروں کا ہے جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اگر ژوب کے اس مظلوم نوجوان رحیم اللہ کے ساتھ کچھ ہوا، تو یہ تاریخ لکھے گی کہ اُسے ڈاکوؤں نے نہیں، بلکہ اپنے سياسی ليڈروں کی بے حسی نے مارا۔