عشرت فاطمہ: خبروں کی دنیا کی شائستہ ترین آواز

کبھی کبھی کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو ایک پورے عہد کی نمائندگی کرتی ہیں، جن کی آواز سن کر وقت تھم جاتا ہے، سانس رک جاتی ہے، اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لفظ خود اپنا احترام کرنے لگتے ہیں۔ عشرت ثاقب کا شمار انہی نامور شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے خبروں کو نہ صرف پڑھا انہیں وقار، شائستگی اور تہذیب کا روپ دیا۔ ان کی شخصیت کی پرتیں جب کھلتی ہیں تو ایک عزم، لگن، قربانی اور سلیقے کی کہانی سامنے آتی ہے جو نئی نسل کے لیے ایک چراغ راہ ہے۔

دو ہزار بیس کی وہ خوشگوار صبحِ جب میں حسبِ معمول ریڈیو پاکستان ہیڈکوارٹر اسلام آباد جا رہی تھی۔ پورے راستے میں ایک ہی خیال ذہن پر چھایا ہوا تھا وہ یہ کہ کیا آج عشرت فاطمہ ریڈیو پاکستان آئی ہوں گی؟ جیسے ہی دفتر کے دروازے سے اندر داخل ہوتی تھی، تو میری نظریں بے اختیار ان کی تلاش میں گھومنے لگ جاتیں۔ عشرت فاطمہ، جنہیں ہم سب محبت سے "میڈم عشرت” کہہ کر پکارتے تھے، محض ایک نیوز کاسٹر تھی وہ نرمی، سادگی اور شائستگی کی زندہ مثال بھی تھیں۔

جب بھی وہ دکھائی دیتیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں اپنائیت کی چمک ہوتی۔ ان کی موجودگی ماحول کو پُرسکون بنا دیتی تھی۔ ان سے ملاقات ہو جائے تو دن سنور جاتا۔ حالانکہ وہ پاکستان ٹیلی وژن کی ایک نمایاں اور مقبول ترین چہرہ تھیں، لیکن کبھی بھی ان کی شخصیت میں غرور، تفاخر یا کسی قسم کی خودپسندی کی جھلک تک نہ دیکھی۔ وہ بے حد سادہ، نرم گو اور خالص گھریلو انداز کی حامل خاتون تھیں جیسے کسی کی اپنی ماں، خالہ یا بڑی بہن ساتھ بیٹھی ہو۔

اکثر اوقات ان کے ہاتھ میں چائے کا کپ ہوتا۔ جب نظر ملتی تو پیار سے مجھے کہتیں، ’’یہ چائے آپ کے لیے ہے، پی لیجیے۔‘‘ میں شرما کر مسکرا دیتی اور کہتی، ’’نہیں میڈم، آپ ہی پی لیں، میں ناشتہ کر کے آئی ہوں۔‘‘ ان کے انداز میں مشفقی، لہجے میں ملائمت اور گفتگو میں ایک خاص کشش تھی۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ کبھی فضول باتوں میں نہیں پڑتیں، نہ ہی وقت ضائع کرتیں۔ وقت کی پابند، کام سے عشق رکھنے والی، اور الفاظ کی حرمت کی قائل یہی تھیں عشرت فاطمہ۔

میری کوشش ہوتی کہ دفتر جلدی پہنچوں تاکہ ان سے سلام دعا کا موقع مل جائے۔ ان سے چند لمحے کی گفتگو، حال احوال یا فقط ایک "السلام علیکم” کہنا ہی دن کا سب سے خوشگوار حصہ بن جاتا۔ اور وہ جب "وعلیکم السلام” کہتیں تو دل جیسے شاد ہو جاتا۔ وہ نہ صرف ایک سینئر ساتھی تھیں، وہ ایسی ہستی بھی، جن سے انسیت ہو گئی تھی۔ ایسے جذبات کسی معروف شخصیت کے لیے بلکہ کسی اپنے کے لیے ہی دل میں جگہ پاتے ہیں اور عشرت فاطمہ ہمارے لیے ایسی ہی عزیز تھیں۔

بخدا زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف چہرے یاد رہنے دیتے، وہ اپنی باتوں، برتاؤ اور اثرات سے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ عشرت فاطمہ انہی نایاب لوگوں میں سے ہیں۔ ان سے جُڑی ہر یاد آج بھی میرے ذہن میں ایسے محفوظ ہے جیسے کوئی قیمتی خزانہ، جسے دل روز کھولتا ہے، دیکھتا ہے، اور دعائیں دیتا ہے۔

عشرت ثاقب کی پیدائش اسلام آباد میں ہوئی، جہاں ان کا بچپن تعلیم و تربیت کے سنہرے ماحول میں گزرا۔ ان کے والد وزارتِ صحت میں ملازم تھے جبکہ والدہ ایک اسکول ٹیچر تھیں، جنہوں نے گھر میں علم و تہذیب کی بنیاد رکھی۔ عشرت پانچ بہن بھائیوں میں ایک تھیں اور بچپن سے ہی خاصی سرگرم، حساس اور محنتی مزاج کی حامل ہیں۔ ان کا تعلیمی سفر بھی اسلام آباد ہی سے شروع ہوا، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اسکول میں ہونے والی تقریری و مباحثوں کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کی فطرت میں شامل تھا، جس نے ان کی آئندہ کیریئر کی راہیں ہموار کیں۔

ریڈیو اور ٹی وی کا سفر بھی کچھ یوں غیر متوقع انداز میں شروع ہوا کہ جیسے قدرت نے ان کے لیے پہلے سے ہی کوئی خاص راستہ متعین کر رکھا ہو۔ عشرت بتاتی ہیں کہ ان کی اسکول ٹیچر انہیں ریڈیو آڈیشن کے لیے لے گئیں، جہاں پہلے پہل انہیں مسترد کر دیا گیا کہ ان کی آواز میچور نہیں۔ لیکن وہیں موجود پروڈیوسر ذوالفقار شاہ نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور انہیں ریڈیو کے مشہور پروگرام ’’صبح بخیر‘‘ میں شامل کر لیا۔ یہی عشرت کی عملی زندگی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوئی۔ راولپنڈی ریڈیو کے لیے روزانہ جانا اور پروگرام کرنے کے بعد اسکول کی طرف دوڑ لگانا، ایک ایسا معمول بن گیا جسے انہوں نے جذبے اور مشن کے طور پر نبھایا۔

وقت کے ساتھ انہیں موقع ملا کہ وہ پی ٹی وی میں موسم کا حال بتانے کے لیے آڈیشن دیں۔ یہ لمحہ ان کی زندگی کا نقطہ عروج بن گیا۔ جب وہ موسم کے آڈیشن کے لیے گئیں تو وہاں موجود افراد نے انہیں مشورہ دیا کہ خبروں کا سکرپٹ پڑھ کر سنائیں۔ انہوں نے پڑھا اور اگلے دن اطلاع ملی کہ وہ منتخب ہو چکی ہیں۔ یوں 1980 کی دہائی میں پی ٹی وی پر خبروں کا وہ نیا چہرہ ناظرین کو دکھائی دیا جس نے جلد ہی ناظرین کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ عشرت فاطمہ نے رمضان کے مہینے میں باقاعدہ خبریں پڑھنا شروع کیں اور ھر یہ سفر 2007 تک بغیر رکے جاری رہا۔

خبریں پڑھنا ان کے لیے نہ صرف ایک پیشہ بلکہ ایک جنون تھا۔ عشرت کہتی ہیں کہ نیوز کاسٹنگ ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے، اگر اسے چھوڑ دیں تو ایسا لگے جیسے رگوں سے خون کھینچ لیا گیا ہو۔ ان کی آواز میں ایسی کشش اور وقار تھا کہ بڑے بڑے نام جیسے اظہر لودھی، مہ پارہ صفدر، ثریا شہاب اور وراثت مرزا کے ساتھ بیٹھ کر خبریں پڑھنے کا موقع ملا تو وہ لمحے ان کی زندگی کے سب سے اہم اثاثے بن گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی ان نامور شخصیات کے برابر تو نہیں آ سکیں، لیکن ان کے ساتھ بیٹھنے اور سیکھنے کا موقع ملا، یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

اپنے کیریئر کے دوران عشرت فاطمہ نے خبروں کی سچائی، درست تلفظ، اور ذمہ داری کے اصولوں کو کبھی پس پشت نہیں ڈالا۔ ان کا ماننا ہے کہ نیوز کاسٹنگ کا مقصد نہ کہ کسی کی رائے سنانا ہے صرف اور صرف درست معلومات ناظرین تک پہنچانا ہے۔ آج کی میڈیا کی دنیا میں جو شور شرابہ، سنسنی خیزی اور ریس کے جنون میں خبروں کا اصل چہرہ بگاڑا جا رہا ہے، اس پر عشرت سخت نالاں نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تبدیلی اچھی ہوتی ہے، لیکن صرف تبدیلی کے لیے تبدیلی خطرناک ہے۔ نیوز کاسٹنگ شائستگی، متانت اور زبان کی خوبصورتی کا مظہر ہونا چاہیے۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر عشرت ثاقب کے انتقال کی جھوٹی خبر نہایت افسوسناک، غیرذمہ دارانہ اور قابلِ مذمت حرکت تھی۔ ایسی خبریں، جن کی تصدیق کیے بغیر پھیلاؤ کیا جاتا ہے، نہ صرف معاشرتی بداعتمادی کو فروغ دیتی ہیں بلکہ ایک حساس اور باوقار شخصیت کی دل آزاری کا سبب بھی بنتی ہیں۔ عشرت فاطمہ جیسی قومی اثاثہ خواتین، جنہوں نے پوری زندگی وقار، سچائی اور دیانت کے ساتھ گزاری، ان کے بارے میں ایسی افواہیں پھیلانا نہ صرف اخلاقی گراوٹ ہے یہ قانونی جرم بھی ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی کو لامحدود خودسری سمجھنے والے عناصر کو یہ جان لینا چاہیے کہ کسی کی موت کی جھوٹی خبر صرف سنسنی ہے یہ تو دلوں پر گہرا زخم چھوڑنے والی بے حسی ہے۔ ان افراد کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور ایسی بے بنیاد افواہیں پھیلانے کی روش روکی جا سکے۔

عشرت فاطمہ خود اس جھوٹ پر شاکی نظر آئیں اور ان کا حاضر دماغی سے دیا گیا جواب "میں نے آج کمبل دھونے ہیں” سچائی، زندگی سے محبت اور جھوٹ کے خلاف خاموش مزاحمت کی ایک علامت بن گیا۔ لیکن محض جواب دینا کافی نہیں، ضروری ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لا کر مثال بنایا جائے تاکہ سچ بولنے والوں کی عزت اور عوامی اعتماد محفوظ رہ سکے۔

مزید اس پر انہوں نے کہا کہ موت برحق ہے، اور وہ اس کی منتظر ہیں، لیکن ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک بار حج کی سعادت عطا کرے، تاکہ وہ اپنے والد کے لیے حج کر سکیں اور شوہر ثاقب کے ساتھ وہ روحانی سفر مکمل کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد اللہ جب چاہے بلا لے، انہیں کوئی شکوہ نہیں۔ ان کی دعا ہے کہ انہیں ایسی موت ملے جو آرام دہ ہو، تکلیف سے پاک ہو، اور کسی کو ان کی وجہ سے مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مزید برآں، عشرت نے اپنے پیشہ ورانہ سفر کو ازدواجی اور خاندانی زندگی کے ساتھ انتہائی خوبصورتی سے متوازن رکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر ثاقب نے ہمیشہ ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کے والد ایک سخت گیر مگر سچے اور محنتی انسان تھے جنہوں نے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ عشرت کہتی ہیں کہ ان کے والد ان کے جوتے تک پالش کیا کرتے تھے، اور والدہ کی تربیت نے انہیں وقت کی پابندی اور کام کی لگن سکھائی۔ شادی کے بعد جب بچوں کی ذمہ داریاں بڑھیں تو عشرت نے خود رات 9 بجے کی خبروں کو خیر باد کہہ کر مارننگ ٹرانسمیشن میں کام شروع کیا تاکہ وہ بچوں کو وقت دے سکیں۔ اس قربانی کی بدولت وہ آج بھی فخر سے کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے کیریئر اور ماں ہونے کا فرض بخوبی ادا کیا۔

پی ٹی وی سے علیحدگی کا لمحہ عشرت کے لیے کڑوا سچ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب کوئی انسان اپنی پوری زندگی کسی ادارے کو دے، محنت سے نام کمائے، تو اسے عزت سے رخصت کیا جانا چاہیے۔ پی ٹی وی سے ناگزیر وجوہات کی بنا پر علیحدگی انہیں آج بھی چبھن دیتی ہے، لیکن ریڈیو پاکستان نے ایک بار پھر انہیں جگہ دی، اور آج بھی وہ کرنٹ افیئرز پر پروگرام کر رہی ہیں۔ ان کا خبرنامہ فیس بک پر سب سے زیادہ ویوز لیتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عشرت فاطمہ آج بھی دلوں کی دھڑکن ہیں۔

حکومت پاکستان کی طرف سے عشرت فاطمہ کو مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے، تاہم ان کی سب سے بڑی خواہش اب ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ حاصل کرنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر لفظوں کے ساتھ دیانت داری برتی، سچ بولا، زبان سے عشق کیا، اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ آج بھی لغت ان کے سرہانے رکھی رہتی ہے۔ وہ الفاظ کی ادائیگی سیکھنے میں جھجک محسوس نہیں کرتیں، کیونکہ ان کے نزدیک الفاظ ایک امانت ہیں، جو درست انداز میں ہی سننے والوں تک پہنچنے چاہئیں۔

عشرت فاطمہ آج بھی خبروں کی دنیا میں ایک معتبر نام ہیں۔ ان کی زندگی قربانی، لگن، علم، محبت اور عزت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ خبروں کو لفظوں کے لباس میں اس خوبصورتی سے لپیٹ کر پیش کرتی ہیں کہ ناظرین نہ صرف سنتے ہیں بلکہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کی زندگی نئی نسل کے لیے ایک مکمل نصاب ہے صداقت، مہارت اور وقار کا۔ عشرت فاطمہ نہ صرف خبروں کی دنیا کی ایک روشن قندیل ہیں، یہ اردو زبان، تہذیب و ثقافت، اور پیشہ ورانہ دیانت داری کی لازوال علامت بھی ہیں۔

عشرت فاطمہ کا شمار اُن نایاب شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے خبر کو صرف نشر کیا ہے بلکہ ایک فن کی صورت میں پیش کیا۔ اُن کی آواز، تلفظ، اندازِ بیان، اور چہرے کی سنجیدگی نے ایک نسل کی تربیت کی، اور اب بھی اُن کا سفر رُکا نہیں۔ آج جب وہ ریڈیو پاکستان پر کرنٹ افیئرز کے پروگرام میں اپنی حاضر جوابی اور سنجیدگی سے ناظرین و سامعین کو محظوظ کر رہی ہیں، تو یہ عشرت کی عمر بھر کی ریاضت اور خلوص کا عکاس ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خبروں کو صرف خبر نہ سمجھا جائے، بلکہ وہ ایک ذمہ داری ہیں۔ عشرت فاطمہ کی شخصیت اس بات کی گواہ ہے کہ اگر نیت صاف ہو، محنت مسلسل ہو، اور زبان سے محبت سچی ہو، تو وقت، حالات اور وسائل سب آپ کے تابع ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عورت اپنے کیریئر اور خاندان دونوں کو بہترین طریقے سے سنبھال سکتی ہے بشرطیکہ اسے راستہ دیا جائے، سمجھا جائے اور اس کی محنت کو سراہا جائے۔

آج جب میڈیا کی دنیا میں تیز رفتاری، سنسنی خیزی اور غیر تصدیق شدہ خبروں کا راج ہے، عشرت فاطمہ کی موجودگی ایک ساکن چراغ کی مانند ہے جو اپنی روشنی سے ماحول کو مہذب بناتی ہے۔ وہ اس نسل کی آخری نمائندہ ہیں جس نے خبر کو عبادت کی طرح برتا۔ ان کی خود احتسابی، سادگی، شائستگی اور زبان سے محبت آج کے پیشہ ورانہ صحافت میں ایک نایاب خزانہ ہے۔

عشرت فاطمہ خود کہتی ہیں کہ اگر وہ خبروں سے دور ہو جائیں تو انہیں یوں لگے گا جیسے زندگی کا مفہوم کھو گیا ہے۔ یہی عشق، یہی لگن ان کی زندگی کو معنی دیتی ہے۔ وہ اس خواہش کے ساتھ زندہ ہیں کہ ایک بار حج کی سعادت نصیب ہو، اور اس کے بعد اللہ جب چاہے بلا لے۔ لیکن اُن کا پیغام اُن تمام خواتین کے لیے بھی ہے جو گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا چاہتی ہیں کہ محنت، تہذیب، وقت کی پابندی اور خلوص وہ اوزار ہیں جو ہر دیوار کو گرادیتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے