آثارِ قدیمہ کا عالمی دن ،جنڈیال مندر میں

اکتوبر کے تیسرے ہفتے کو ، آثارِ قدیمہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔

عین ممکن ہے کہ آپ اس بات سے اختلاف کرتے ہوں لیکن میرا یہ خیال ہے یا میرا یہ نظریہ ہے کہ پتھر کی کتابیں تمام دنیا کی کتابوں سے زیادہ صاف، واضح اور آسان ہیں اور ان کی زبان کبھی دروغ بیانی سے آلودہ نہیں ہوتیں. جب ہم تاریخ کی حقیقت کے حوالے سے کتابوں کی طرف جاتے ہیں تو اس میں بہت کم امکانات ہیں کہ ہم کسی ایک نقطے پر پہنچیں، بلکہ بھٹکنے اور گمراہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں جبکہ اگر ہم آثار قدیمہ کو دیکھیں تو یہاں گمراہی کے امکانات کم ہیں اور کسی خاص نتیجے پر پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں. قدیم، برباد شدہ کھنڈرات سب کچھ کھل کر بیان کر دیتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ کے عالمی دن کو منانے کے لئے ، پہنچ گئے ہم ،جنڈیال مندر ۔

ڈی بویئر کا کہنا ہے کہ، تاریخ، انسان کے ذرائع معاش، جنگ و جدال کے اسباب اور انسانی پیشوں، عقائد اور نظریات، قیادت کے مطالعے، تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ارتقاء کے بیان، جائزے اور تجزیے کا نام ہے۔

یہ بیان، جائزے اور تجزیے، کسی کھوج، تلاش اور جستجو کے مرہونِ منت، وجود میں آتے ہیں، ایک سیاح یا مؤرخ اسی تلاش اور جستجو کا ہاتھ تھامے سفر پر نکلتا ہے اور ویران، اجاڑ کھنڈرات سے ہمکلام ہوتا ہے، جب ہمکلام ہوتا ہے تو وہ پتھر اسے ساری داستان سنا دیتے ہیں۔

اسی تلاش اور جستجو کا ہاتھ تھامے، 44 عیسوی میں، ٹیانا کا مشہور سیاح اپولونیس، ٹیکسلا پہنچا تو اُس نے جنڈیال مندر میں قیام کیا۔ وہ اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ شہر پناہ کے باہر تقریباً ایک سو فٹ لمبا مندر ہے، جس میں ایک عبادت گاہ ہے۔ یہ عبادت گاہ ، مندر کی جسامت اور اس کے ستونوں کو دیکھتے ہوئے چھوٹی سی لگتی ہے، مگر پھر بھی بہت خوبصورت ہے. عبادت گاہ کے اطراف، تانبے کی تختیوں پر بنی ہوئی تصاویر آویزاں ہیں جن پر سکندرِ اعظم اور پورس کے واقعات دکھائے گئے ہیں. ان تصاویر میں گھوڑے، ہاتھی، سپاہی اور ہتھیار وغیرہ بھی دکھائے گئے ہیں جو سونے، چاندی اور تانبے کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنائے ہوئے تھے۔

ان تصاویر سے راجہ پورس کا بلند با اخلاق ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ گو کہ یہ تصاویر سکندر اعظم کی وفات کے بعد یہاں لگائی گئیں تھیں،لیکن پھر بھی ان میں سکندر اعظم کو فاتح اور اپنے آپ کو مفتوح اور زخمی حالت میں سکندر سے اپنی کھوئی ہوئی ہندوستان کی بادشاہت بطور خیرات وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

جنڈیال ،پاکستان کے تاریخی اور قدیمی شہر ٹیکسلا میں ایک پرشکوہ اور قدیم المثال ،قدیم یونانی مندر ہے ،جسے دوسری صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے تعمیر کروایا.

اس مندر سے ملنے والے سکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مندر، ٹیکسلا کا کشمیر کے تحت آنے تک آباد رہا، اس کے بعد کے ادوار میں ویران ہو کر انحطاط پذیر ہو گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے