چین میں خواتین کی تعلیم

تیس سال قبل، چین کے دارالحکومت بیجنگ میں خواتین پر چوتھی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ‘ مساوات، ترقی اور امن کے حصول’ کا ہدف پیش کیا گیا جو بیجنگ اعلامیہ کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد سے صنفی مساوات کو چینی ترقی کے ایجنڈے میں جدیدیت کے ایک اہم جزو کے طور پر ترجیح دی گئی۔

آج، 1995ء کی عالمی کانفرنس برائے خواتین کی تیسویں سالگرہ کے موقع پر، جب بیجنگ میں خواتین کے حوالے سے عالمی رہنماؤں کی میٹنگ منعقد ہو رہی ہے، چین نے اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے خواتین کی ترقی میں زبردست پیشرفت کی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات نے چین اور دنیا بھر میں خواتین کی بہبود اور مواقع میں دور رس اور گہرے تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔

چین میں خواتین اب ‘آدھا آسمان تھامے ہوئے ہیں’، اور یہ تعلیم کی روشنی کا نتیجہ ہے۔ تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے، عدم مساوات کو کم کرنے اور معیشت کو مضبوط بنانے میں ایک اہم قوت ثابت ہوئی ہے، جیسا کہ 19 ستمبر کو چینی اسٹیٹ کونسل کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر  میں ‘نئے دور میں چین کی کارکردگی: خواتین کی ہمہ گیر ترقی’  کے عنوان سے جاری کیا گیا۔نمایاں ترقی کے مختلف پہلوؤں میں، تعلیم بنیادی محرک کے طور پر ابھری ہے جس نے چینی خواتین کیلئے مواقع پیدا کرنے کےمنظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے، اور روایتی رکاوٹوں کو دور کر کے جدید امکانات پیدا کیے۔

دنیا بھر میں 119 ملین لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں، جن میں 34 ملین پرائمری اسکول کی عمر، 28 ملین لوئر سیکنڈری اسکول کی عمر اور 58 ملین اپر سیکنڈری اسکول کی عمر کی لڑکیاں شامل ہیں۔ صرف 49 فیصد ممالک نے پرائمری تعلیم میں صنفی مساوات حاصل کی ہے۔

ثانوی سطح پر اس فرق میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے: 42 فیصد ممالک نے لوئر سیکنڈری ایجوکیشن میں اور 24 فیصد نے اپر سیکنڈری ایجوکیشن میں صنفی مساوات حاصل کیں ہے ۔

چین میں خواتین کی تعلیم میں نمایاں بہتری:

 تین دہائیوں میں چین نے نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے تعلیم میں صنفی مساوات کے حصول کے لیے ایک راستہ نکالا ہے۔چین کے وائٹ پیپر کے مطابق، 2024ء میں ہائر ایجوکیشن میں  آدھی سے زیادہ خواتین طالبات نے داخلہ لیاجو 1995ء کے بعد سے 14 فیصد کا اضافہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ متاثر کن بات یہ ہے کہ خواتین اب 50 فیصد گریجویٹ طالبات پر مشتمل ہیں، جو اسی عرصے میں 22 فیصد کا اضافہ ہے۔ یہ اعداد و شمار لڑکیوں کے پرائمری اسکول میں 99.9 فیصد نیٹ انرولمنٹ ریٹ اور سینئر ہائی سطح پر 49 فیصد خواتین کے صنفی تناسب پر مبنی ہیں، جو تعلیمی سیڑھی کے ہر قدم پر موثر مساوات ہے۔

دیہی اور کمزور آبادیوں کے لیے ہدف :

چین نے دیہی لڑکیوں اور پسماندہ پس منظر کی خواتین کے سامنے آنے والے مخصوص چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک ہدف کے تحت پروگراموں کو نافذ کیا ہے۔

1989ء میں بچوں اور نوعمر بچوں کیلئے چین نے ” اسپرنگ بڈ ” پروگرام کا آغاز کیا ۔

2024ء کے آخر تک، اس مہم کے تحت 481 ملین ڈالر اکٹھے کیے گئے جس کے ذریعے 4 اعشاریہ 36 ملین لڑکیوں کو مالی امداد اور تعلیمی معاونت فراہم کی گئیں جس سے انہیں لازمی تعلیم، پیشہ وارانہ یا اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملی۔یہی کام تھا جس کی بدولت اس منصوبے کو لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کا یونیسکو ایوارڈ 2023 میں ملا۔

اس کے علاوہ دیہی لڑکیوں کیلئے تعلیمی انفراسٹرکچر اور استادوں کی تربیت پر بھاری سرماریہ کی گئی جس سے تعلیمی فرق کے مسائل کو حل کیا گیا۔ اس حوالے سے کئی اور پروگرام بھی مختلف سطحوں پر نافذ کیے گئے جس سے کنڈر گارٹن، پرائمری اور ثانوی تعلیم میں خواتین کی تعداد میں مستحکم اضافہ ہوا۔

پیشہ ورانہ تعلیم اور آن لائن سیکھنے سے افق وسیع:

چین نے ایک جامع پیشہ ورانہ تعلیمی نظام تیار کیا ہے جو خاص طور پر خواتین کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ 2024ء میں، خواتین ہائر ووکیشنل پروگرامز میں 47.9 فیصد اور انڈرگریجویٹ اور جونیئر کالج کی سطح پر سیکنڈری ووکیشنل پروگرامز میں 45.2 فیصد طالبات پر مشتمل تھیں، جس میں اہل طالبات کے لیے ٹیوشن فری، اسکالرشپ، گرانٹس اور تعلیمی قرضوں  کے اقدامات شامل تھے۔ اس اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ مالی رکاوٹوں کی وجہ سے تعلیمی مواقع محدود نہ ہوں۔

آن لائن سیکھنے کے پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل وسائل نے پسماندہ کمیونٹیز کی لڑکیوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ خاص طور پر، اسمارٹ ایجوکیشن آف چائنا کا قیام، جو عوامی ڈیجیٹل تعلیمی خدمات کے لیے ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے، تعلیمی حوالےسے یہ ایک انقلابی قدم ہے جو خواتین کی متنوع سیکھنے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم مستقبل کی تیاری:

تیزی سے تکنیکی ترقی کے دور میں، چین نے خواتین کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی  کے شعبوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی میں خاص طور پر زور دیا ہے۔

2018ء میں چائنہ ویمن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی طرف سے شروع کیا گیا ‘ایکسپلورنگ دی فیوچر’ پروگرام، 12 سے 16 سال عمر کی 8,200 سے زائد لڑکیوں کو اعلیٰ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے لیبارٹریز سے متعارف کروایا ہے۔ ان نوجوان خواتین نے مکنیکل انجینئرنگ سے لے کر بائیو فزکس تک کے شعبوں کو دریافت کیا ہے، اور ایسے منصوبے تیار کیے ہیں جو کلاس روم میں سیکھنے  کے عمل کو حقیقی دنیا کی ایپلی کیشنز سے جوڑتے ہیں۔ان اقدامات کے نتائج سائنسی تحقیق میں خواتین کی بڑھتی ہوئی موجودگی میں عکس پزیر ہیں۔ 2024ء میں خواتین نے تقریباً 2.85 ملین تحقیق و رقی کے شعبے سے وابستہ تھیں، جو 2012ء کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ  ہے۔ یہ پیشرفت ظاہر کرتی ہے کہ چین کی تعلیمی پالیسیاں نہ صرف موجودہ عدم مساوات کو حل کر رہی ہیں بلکہ مستقبل کے صنعتوں میں قیادت کے لیے خواتین کو تیار کر رہی ہیں۔

چین تعلیمی کوششوں کی عالمی پذیرائی:

خواتین کی ترقی کو آگے بڑھانے کی چین کی کوششیں اس کی سرحدوں سے باہر تک پھیلی ہوئی ہیں، جس نے تعلیم کے ذریعے صنفی مساوات کو فروغ دینے میں ملک کو عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔

اپنےبین الاقوامی تعاون کےاقدامات کے ساتھ، چین نے دنیا بھر میں 100 ” ماں اور بچہ” صحت پراجیکٹ ،  100 ‘ہیپی کیمپس’  بنائے ہیں۔ متعدد پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں نے 180 سے زائد ممالک اور خطوں سے 200,000 سے زائد خواتین کو تربیت دی ہے۔اس کے علاوہ عالمی خواتین کی ترقی کے لیے بیجنگ میں ایک تبادلے اور تربیتی مرکز کا قیام، صلاحیت کی تعمیر کے اقدامات کے لیے ایک مرکز کے طور پر کام کرتا ہے، جو ترقی پذیر ممالک کی خواتین کے لیے حسب ضرورت تربیتی پروگرام پیش کرتا ہے۔یہ کوششیں چین کے عزم کا مظہر ہیں کہ خواتین کی تعلیم نہ صرف ایک قومی ترجیح ہے بلکہ ایک عالمی ضرورت بھی ہے۔

چینی ماڈل دیگر ممالک کے لیے ایک قابل تقلید فریم ورک پیش کرتا ہے جو صنفی مساوات اور پائیدار ترقی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ  ہوں گی تو پورا معاشرہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور یہ ترقی نسلوں تک پھیلے گی۔ جیسا کہ چینی صدر  شی جنگ پھنگ نے کہا ہے کہ چین خواتین کی نشوونما اور ترقی کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرتا رہے گا، اور  خواتین  کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے اقدامات کو پروان چڑھائے گا، خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کیلئے جامع نظام کی تعمیر کرے گا اور خواتین کی ترقی کیلئے عالمی تعاون کا نیا باب کھولے گا۔

چین اپنے تجربات اور وسائل کو شیئر کرنے کے لیے تیار ہے اور تعلیمی مساوات کی طرف عالمی تحریک میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ امید ہے کہ خواتین کی ترقی میں چین کی کوششیں نہ صرف چینی خواتین بلکہ عالمی ترقی کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کریں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے