غربت: دنیا کی سب سے بڑی مصیبت، نجات کیسے ممکن ہے؟

عالمگیر شہرت کے حامل برطانوی سیاستدان سر ونسٹن چرچل ایک بار اپنے حلقہ انتخاب کے نسبتاً پسماندہ علاقے کے دورے پر چلے تھے۔ کچھ وقت ادھر گزارنے اور گرد و پیش کا جائزہ لینے کے بعد اپنے اسسٹنٹ سے مخاطب ہو کر بولیں "نوجوان! یہاں رہنے والوں کے لہجوں میں دانش، چہروں پر حسن اور کھانوں میں ذائقہ بالکل نہیں۔ اسسٹنٹ نے ہلکا سا مسکرا کر جواب دیا! "محترم آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں، ایسا ہی ہے”۔

یہ واقعہ بظاہر معمول کا ایک عام سا معاملہ ہے جو روز ہمارے خیالوں اور نگاہوں میں گردش کرتا رہتا ہے لیکن سر ونسٹن چرچل نے معمول کے ایک عام سے مشاہدے میں اپنی خدا داد بصیرت شامل کر کے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کو خوبصورت انداز میں اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موصوف بڑے زیرک اور ہوشیار شخصیت کے مالک تھے۔

غربت بے شمار مصیبتوں، نحوستوں، پریشانیوں، دکھوں اور ناکامیوں کی ماں ہے۔ غربت سے پیدا ہونے والے مسائل، نفسیاتی احوال اور سماجی حالات انسان کے قلب و روح کو بری طرح مجروح کر رہے ہیں۔ غربت کے حساب میں نہ آنے والے آثرات اور عواقب ہوتے ہیں جن کے روز نت نئی شکلوں میں ہم نظارہ کرتے رہتے ہیں۔ سردست میں صرف غربت کے چند پہلوؤں، اس کے اثرات اور اس سے نجات دلانے والے امکانات پر کچھ باتیں عرض کر رہا ہوں۔

غربت کے دلدل میں دھنسے لوگوں کے اوقات، اذہان اور صلاحیتیں معمولی اور بے وقعت باتوں، چیزوں اور کاموں میں بے انتہا ضائع ہو رہے ہیں یعنی غربت سے پیدا ہونے والے حالات اور ماحول میں رہ کر ان کے اوقات اور صلاحیتیں درست مصرف میں نہیں لگ رہے، یہی وجہ ہے کہ ذیادہ اہم، بڑے اور دور رس نتائج کے حامل معاملات ان کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہتے ہیں مثلاً غریب اپنے بچوں کو بہتر تعلیم، مناسب صحت، موزوں تربیت، متوازن غذا اور صاف ستھرے رہائش ایسی ضروری اور بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کرسکتے نتیجتاً زندگی کا معیار گر جاتا ہے لوگ پست حالات میں بس "گزارا” ہی کر لیتے ہیں۔ غریب صرف حال بلکہ آج میں سرگرداں زندگی کے "بوجھ” کھینچ رہے ہوتے ہیں ان کی ذہنی صلاحیتیں اور ترجیحات تعلیم، صحت، ادب، ثقافت، سیاست اور سائنس و ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔

غریبوں کے لیے زندگی کے چند ضروریات یعنی چند پیسوں، لقموں، ٹکڑوں، حسرتوں، اور کدورتوں کا ملاپ ایک ایسا "چٹان” بن جاتا ہے کہ جس سے غریب بے چارا ساری زندگی سر ٹکراتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ عالم برزخ سدھار جاتا ہے اس کے بعد اگلی نسل پھر اسی "چٹان” سے سر ٹکرانے کے لیے میدان میں اتر جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ نسل درنسل جاری رہتا ہے۔ میں اس حقیقت سے قطعاً بے خبر نہیں ہوں کہ غربت ایک قدرتی امر بھی ہے یہ کوئی نیا اور حادثاتی مسئلہ بھی نہیں بلکہ ازل سے حضرت انسان کے ساتھ قدرت نے لگایا ہے لیکن اس کی قدرتی شکل و صورت اور حدود و قیود وہ نہیں جو آج کی دنیا میں ہمیں نظر آرہی ہیں۔ ایک تحقیقی اندازے کے مطابق ” آج کی دنیا میں بیس سے پچیس فیصد آبادی ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہ جو 80 فیصد ابادی دس ہزار برس پہلے گزارنے پر مجبور تھی”۔ یہ صورتحال ترقی و خوشحالی کے حوالے سے عمومی زعم پر ایک زوردار تمانچہ ہے۔

موجودہ عالمی اور علاقائی منظر نامے میں غربت و امارت کے جو رنگ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں یہ قدرتی ہرگز نہیں بلکہ یہ ظالمانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت وجود میں آئی ہیں لیکن اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ غریبوں کے پاس ایک طاقتور وسیلہ ہوتا ہے اگر وہ مجموعی طور پہ کام میں لایا جائے تو نہ صرف غربت کم یا ختم ہوسکتی ہے بلکہ غریب لوگ ایک باوقار اور آسودہ زندگی کا موقع بھی پا سکتے ہیں وہ وسیلہ ہے "وقت اور صلاحیت کا درست استعمال”۔ وقت اور صلاحیت کا ضائع ہونا غربت کے دروازوں میں سب سے بڑا دروازہ ہے۔ اے کاش کوئی ادارہ ایسا ہو جو غریبوں کو اپنے اوقات اور صلاحیتوں کا صرف درست استعمال ہی سیکھا دیں بلکہ ان کے روزانہ کی ضروریات میں مدد بھی کریں تاکہ وہ کوئی مفید علم یا ہنر سیکھ کر اپنی زندگی بہتر بنانے کے قابل ہو سکیں۔

حکومت اگر غریب اور محنت کش لوگوں کو رجسٹر کریں ان کے لیے ایک کوآرڈنیشن آفس بنادیں، ان کو ضروری ٹریننگ دیں تو یہ لوگ بھی ملک کے لیے ایک بڑا اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ صاحب ثروت لوگ حکومتی اشتراک، الخدمت فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں یا آزادانہ طور پر مختلف پراجیکٹس سے غربت کی مصیبت سے لوگوں کو نکالنے میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں یعنی کچھ حضرات خوراک کے معاملے کو لے لیں، کچھ لباس پوشاک کی فراہمی یقینی بنائے، کوئی تعلیم اور کتب کا انتظام اپنے ذمہ لیں تو یقین کریں غریبوں کے احوال میں انقلاب آسکتا ہے بس نظم و ضبط اور ترجیحات کو بہتر انداز میں ڈیزائن کرنا لازم ہے۔

غربت محض روپیہ پیسے کی کمی کا نام نہیں، بلکہ یہ خوابوں کی موت، عزتِ نفس کے زخم اور امیدوں کے جنازے کا دوسرا نام بھی ہے۔ ایک غریب انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں کہ اس کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اس کے پاس سوچنے کو وقت نہیں۔ اس کی ساری توانائیاں بس اگلے کھانے، اگلے کرائے اور اگلے قرض کا بندوبست کرنے میں صرف ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، نئی مہارتیں سیکھنے یا منصوبہ بندی کرنے کے لیے نہ تو وقت نکال پاتا ہے، نہ ہی اس کی ذہنی حالت اس کی اجازت دیتی ہے۔ یوں غربت ایک ایسے منحوس چکر کو جنم دیتی ہے جہاں ایک نسل دوسری نسل کو غربت کی وراثت منتقل کرتی چلی جاتی ہے۔

غربت کے خلاف جنگ محض چند اداروں یا حکومتی اقدامات کا محتاج نہیں، بلکہ یہ ہماری اجتماعی انسانی ذمہ داری ہے۔ جس طرح ایک درخت کو پنپنے کے لیے سازگار مٹی، پانی اور دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ایک انسان کو ترقی کرنے کے لیے بنیادی سہولیات، تعلیم اور مواقع درکار ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم معاشرے کو ایسا نظام دیں جہاں ہر فرد کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا یکساں موقع ملے۔ ہمیں غریب کے لیے ترس کھانے کی بجائے، اس کے لیے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے مچھلی دے کر نہیں، بلکہ مچھلی پکڑنا سکھا کر اور ماہی گیری کے ذرائع فراہم کر کے اسے خود کفیل بنانا ہوگا۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ معاشرے جو غربت کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوئے، انہوں نے نہ صرف اقتصادی خوشحالی حاصل کی بلکہ دنیا پر راج بھی کیا۔ آج بھی اگر ہم چاہیں تو اپنے اردگرد موجود وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس مصیبت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے ایک ایسی عوامی بیداری کی جس میں ہر شہری، خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، یہ عہد کرے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق کسی نہ کسی غریب کی زندگی بہتر بنانے میں ضرور حصہ ڈالے گا۔ چاہے وہ کسی غریب بچے کی تعلیم کا خرچہ اٹھا کر ہو، کسی نوجوان کو ہنر سکھا کر ہو، یا کسی خاندان کو روزگار کے مواقع فراہم کر کے ہو۔ یاد رکھیے، ایک چنگاری سے ہلکی سی روشنی تو پھیل ہی سکتی ہے، پھر ہزاروں چنگاریاں مل کر تاریکیوں کا خاتمہ کیوں نہیں کر سکتیں؟

میں نے دل کی آنکھوں سے بار بار دیکھا ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں غریبوں کی کوئی باوقار سماجی زندگی بالکل نہیں ہوتی۔ غربت کی تکلیف دہ اثرات نے لوگوں کے چہروں سے رونق، دلوں سے سکون اور رویوں سے تہذیب بری طرح چھین لیا ہیں۔ غریب جانوروں کی طرح محنت کر کے نتیجے میں جو کچھ انہیں میسر آتا ہے اس میں بس ان کی سانسیں اوپر نیچے آ جا تو سکتی ہیں لیکن کوئی خوشحال اور باوقار زندگی قطعاً نہیں گزار سکتے۔

میں ہمیشہ دوستوں کے محفلوں میں یہ بات دہراتا رہتا ہوں کہ بچوں کی شادیاں، عید کے مواقع اور یونیورسیٹیز میں بچوں کو داخلہ ملنا بنیادی طور پر خوشی کے لمحات ہوتے ہیں لیکن غربت یہی مسرت انگیز لمحات آذیت میں بدلتی ہے اور یہ مواقع خاندان کے بڑوں کے لیے ٹھیک ٹھاک تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ سادہ سا فارمولا ہے کہ اگر دولت اور طاقت کے حامل طبقات مل کر اس کو عملی شکل دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خوشی اور آسودگی کی بہار پورے معاشرے میں اپنے رنگ بکھیر دیں وہ یہ کہ دولت، طاقت اور مواقع کو آزادانہ اور شفاف نظام کے تحت گردش دیا جائے۔

اس طرح چند طبقات کی عیاشی اور پورے سماج کی محرومی کو مزید برداشت نہ کیا جائے اس منحوس روش نے سماج کو بے تحاشہ نقصان سے دو چار کیا ہے بلکہ پورا سچ تو یہ ہے کہ سماج بالکل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اب ہے کہ کب یہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا اور ہم سب سوختہ جسموں، جلے ہوئے چیخوں اور تڑپتی روحوں میں بدل کر تحلیل ہو جائیں گے اور ہاں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ "تاجدار کائناتؐ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ اور شدید غربت کو کفر تک پہنچانے کا باعث بتایا ہے” (حدیث کا مفہوم)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے