فن اور علم کی حقیقی معنویت اُس وقت اُجاگر ہوتی ہے جب وہ انسانی شخصیت اور مزاج کا اٹوٹ حصہ بن جائیں۔ جب کسی فرد کے گفتار، کردار اور روزمرہ کے اطوار میں بھی علم کی جھلک نمایاں ہونے لگے تو وہ ذات خود ایک جیتا جاگتا حوالہ بن جاتی ہے۔ اردو ادب کی دنیا میں پروفیسر ڈاکٹر سلمان علی ایک ایسی ہی علمی و تحقیقی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تحقیق پیشے سے پیشہ بڑھ کر اسلوب حیات ہے۔ ان کی تدریس ہو یا گفتگو، علمی مباحث ہوں یا نجی زندگی کے لمحات؛ ہر زاویے سے ایک منظم توازن اور فکری ضبط جھلکتا ہے۔
ڈاکٹر سلمان علی نے اپنے علمی سفر کا آغاز تخلیقی ادب سے کیا تھا۔ دورِ شباب میں وہ حلقۂ اربابِ ذوق، پشاور کی محفلوں میں اپنے افسانے پیش کیا کرتے تھے۔ ان نشستوں میں شریک بزرگانِ فن آج بھی ان کی کہانیوں کو محبت سے یاد کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایک پختہ فکر افسانہ نگار تھے۔ وقت کے ساتھ ان کا میلان تحقیق کی جانب بڑھتا گیا۔ یہی ارتقائی سفر انھیں اس مقام تک لے آیا جہاں ان کی شخصیت تحقیق کے پیکر میں ڈھل گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ آج بھی تخلیقی سطح پر فعال ہیں، تاہم ان کی محققانہ احتیاط تخلیقی مواد کو طویل عرصے تک ’’سرخ قلم‘‘ کی زد میں رکھتی ہے۔
ان کی ایک یادگار تصنیف ’’اے نشۂ ظہور‘‘ تقریباً ایک دہائی قبل شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نثر کی دلکشی اور اسلوب کی خوبصورتی کے اعتبار سے اردو ادب کے فنی کمال کی ایک درخشاں مثال ہے۔ اس کے بعد ان کا تحقیقی مقالہ، جو اب کتابی شکل میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد سے شائع ہوا ہے، ان کی علمی زندگی کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’’اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں میں خوارقِ عادات: تحقیق و تنقید‘‘۔
کتاب کا انتساب: ’’مہرِ نبوت پر منقش حفظِ مراتب کے نام‘‘ ایک فکری و روحانی اظہار ہے؛ جو اس نکتے کو واضح کرتا ہے؛ کہ علم و تحقیق کا منبع عقل و شعور ہونے کے علاوہ وحی، روایت اور عشقِ نبویؐ کی روشنی بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کے فوراً بعد آیتُ الکرسی کا حوالہ مصنف کے اس یقین کا مظہر ہے کہ علم کی حفاظت تبھی ممکن ہے جب وہ الہامی نور سے وابستہ رہے۔
کتاب کے آغاز میں پروفیسر ڈاکٹر اظہاراللہ اظہار کا مضمون ’’بہکاؤں کا ازالہ‘‘ شامل ہے، جو مقالے کے فکری پس منظر اور موضوع کی وسعت پر روشنی ڈالتا ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر سلمان علی کا پیش لفظ ’’اپنی بات‘‘ آتا ہے۔ اس حصے میں انھوں نے اپنے تحقیقی سفر، منہج اور نظریاتی بنیادوں کو کمالِ انکسار سے بیان کیا ہے۔ ان کی تحریر سے علم کی گہرائی جھلکتی ہے؛ اور اِسی کے ساتھ وہ تہذیبی شائستگی بھی نظر آتی ہے جو ایک سچے محقق کی پہچان ہوتی ہے۔
یہ کتاب کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر باب اپنی فکری بنت اور تحقیقی گہرائی میں ایک مکمل اکائی کا درجہ رکھتا ہے۔
پہلا باب: ’’اردو ادب اور خرقِ عادت واقعات (بنیادی مباحث)‘‘ کے عنوان سے، خودنوشت سوانح عمری کے فنی خدوخال، اس کی حدود اور فکری پس منظر کا اجمالی جائزہ لیتا ہے۔ مصنف نے لغات، قصصُ القرآن اور سرسید کے مقالات سے مثالیں دے کر یہ واضح کیا ہے کہ خرقِ عادت کا تصور کس طرح مذہبی متون سے ہوتا ہوا اردو ادب میں داخل ہوا۔
دوسرا باب: ’’خودنوشت سوانح عمریوں میں واقعاتِ اولیاء، فقرا و مزارات‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہاں مصنف نے اردو خودنوشتوں میں موجود روحانی اور کراماتی تجربات کو زیرِ بحث لایا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء سے منسوب یہ واقعات مختلف جہات اختیار کر چکے ہیں۔ مختلف خودنوشتوں سے اقتباسات شامل کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ وہی روایات ہیں ’’جنہیں روحانیت کا نام دیا جا رہا ہے، مگر درحقیقت یہ خیال کا ارتکاز ہیں، جو ایک فنی عمل ہے اور جس کا جی چاہے حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ اس باب میں مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان تمام کشف و کرامات کا روحانیت سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔
تیسرا باب: ’’خودنوشت سوانح عمریوں میں پر اسرار خواب‘‘ کے معنوی پہلوؤں کا کھوج لگاتا ہے۔ مصنف نے اردو خودنوشت نگاری میں مذکور خوابوں کو نفسیات، مذہب اور ادب کے دائروں میں یکجا کیا ہے۔ ڈاکٹر سلمان علی نے ان کا جائزہ سائنسی منہج اور دینی تفہیم دونوں سے لیا ہے۔ یہی توازن ان کی تحقیق کو ایک منفرد علمی کشش عطا کرتا ہے۔
چوتھا باب: ’’خودنوشت سوانح عمریوں میں محیِّرالعقول روایات‘‘ ان روایات کا جائزہ لیتا ہے جو عقل کی گرفت سے باہر معلوم ہوتی ہیں۔ مصنف نے انھیں قرآن و حدیث، منطق اور سائنسی تعبیرات کے تناظر میں دیکھا ہے اور ان کی معنوی حقیقت تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ ان کا اسلوب؛ عقیدت میں مبالغہ پیدا نہیں کرتا اور شک میں بھی نہیں الجھتا؛ بل کہ ایک متوازن، استدلالی اور فکری رویہ اختیار کرتا ہے۔
پانچواں باب: ’’خودنوشت سوانح عمریوں میں سنسنی خیز پیش گوئیاں‘‘ سے متعلق ہے۔ مصنف نے مختلف خودنوشتوں میں درج پیش گوئیوں کی نشان دہی کی ہے اور انھیں تاریخی اور سائنسی حقائق سے جوڑ کر پرکھا ہے۔مصنف اس باب پر بات کرتے ہوئے جن تحقیقی نتائج تک پہنچے ہیں وہ ان کے الفاظ میں: اس لیے اس باب میں جتنی بھی پیش گوئیوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے تو غور و فکر اور تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان پیش گوئیوں کے اثرات جو ہم نے قبول کیے ہیں وہ دراصل ہماری کوتاہ نگہی اور کم علمی کے سوا کچھ نہیں۔
چھٹا باب: ’’خودنوشت سوانح عمریوں میں مافوق الفطرت کردار (ارواح و جنات)‘‘ پر روشنی ڈالتا ہے۔ مصنف نے انسانی تجربے کے اس پہلو کو ادبی اور مذہبی روایتوں میں گہری جڑوں والا قرار دیا ہے۔ انھوں نے ان کرداروں کو محض ماورائی تاثر نہیں سمجھا، بل کہ یہ انسانی خوف، وجدان اور عقیدے کی علامتیں بھی ہیں۔ اس باب میں نفسیات، مذہب اور تخیل کے باہمی تعلق کو جس مہارت سے بیان کیا گیا ہے، وہ مصنف کے فکری اعتدال کی دلیل ہے۔اس باب کے آخر میں جو تحقیقی نتائج ڈاکٹر صاحب مستخرج کر چکے ہیں، انھی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
مختصر یہ کہ اس تمام مطالعے کے بعد جو اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ جنات و ارواح کے حوالے سے جو بے سروپا اور من گھڑت واقعات لوگوں نے مشہور کر رکھے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ زیادہ تر واقعات دراصل انھی چیزوں کے حوالے سے انسان کے ذہن میں موجود خوف اور ڈر کی وجہ سے سامنے آتے ہیں، دوسری بات یہ کہ اس طرح کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے عام طور پر مبالغے سے بھی کام لیا گیا ہے اور اکثر اوقات تو ہم بغیر سوچے سمجھے نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا لوگوں پر بھی جنات و ارواح کا لیبل لگا دیتے ہیں۔
ساتواں باب: ’’خودنوشت سوانح عمریوں میں متفرق حیرت انگیز واقعات‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس میں مختلف النوع غیر معمولی تجربات کو جمع کر کے ان کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے۔ کچھ واقعات تاریخی سیاق رکھتے ہیں، کچھ روحانی واردات کے قریب ہیں اور کچھ ادبی تاثرات پر مبنی ہیں۔ مصنف نے ان سب کو ایک مربوط تناظر میں دیکھا اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ ادب میں حیرت کا عنصر انسانی فہم سے کتنا قریب یا دور ہے۔
آٹھواں باب: ’’حاصلِ تحقیق اور نتائج‘‘ پوری کتاب کا فکری نچوڑ پیش کرتا ہے۔ مصنف نے یہاں تمام نکات کو مربوط انداز میں یکجا کیا ہے اور اس مطالعے سے اخذ ہونے والے نتائج کو پیش کیا ہے۔ اسے پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر سلمان علی نے صرف مواد اکٹھا کرنے کا کام نہیں کیا، بل کہ اردو تحقیق میں ایک نیا منہجِ فکر بھی متعارف کرایا ہے؛ ایک ایسا منہج جو روایت اور عقل، مذہب اور علم، تخیل اور تحقیق کے درمیان ایک متوازن رشتہ قائم کرتا ہے۔
کتاب کے اس تعارف کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ نظری مباحث کی تفہیم کے لیے عملی مطالعہ ناگزیر ہے۔ جیسا کہ میں اپنے شاگردوں سے ہمیشہ کہتا ہوں: ’’کسی بھی نظریے یا تحریک کو سمجھنے کے لیے اس سے جنم لینے والی تخلیقات کا مطالعہ اشد ضروری ہے۔‘‘ تنقیدی کتب پڑھنے سے کبھی کبھی ذہن میں ابہام پیدا ہوتے ہیں؛ لیکن جوں ہی ہم اس نظریے کے عملی مظاہر، یعنی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں، وہ تسامحات بڑی حد تک دور ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح، تحقیق کے اصولوں کی درست تفہیم تب ہی ممکن ہوتی ہے جب ہم ان کے عملی اطلاق کا مطالعہ کریں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر سلمان علی کی یہ کتاب اردو کے نئے محققین کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم تحقیقی سفر کے آغاز سے قبل اسے پڑھ لے، تو وہ تحقیقی منہج کو گہرائی سے سمجھ پائے گا اور اس فن کی روح سے بھی آشنا ہو جائے گا۔
’’اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں میں خوارقِ عادات: تحقیق و تنقید‘‘ دراصل ایک تحقیقی مقالہ ہے۔ یہ اردو تحقیق کے اُس رجحان کی نمائندہ تصنیف ہے جو علم کو زندگی اور تحقیق کو تجربے میں ڈھالنے کی دعوت دیتی ہے۔