ادیب ، ادبا اپنی زندگی میں مختلف کتابوں پر تبصرے ، تقاریظ اور تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ ان تبصروں ، تقاریظ اور تنقیدی مضامین میں ان کا تنقیدی نقطہ نگاہ ، ان کا اسلوب اور ان کی زندگی کا تجربہ سامنے آتا ہے۔
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ تبصرے ، تقاریظ اور تنقیدی مضامین بکھرے پڑے رہتے ہیں۔ استاد محترم ناصر علی سید نے محققین کی آسانی کے لیے اپنی نئی کتاب "خیالِ خاطرِ احباب” میں اسی قسم کے مضامین کو جمع کیا ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ایک دستاویز ہے۔ "خیالِ خاطرِ احباب” میں مصنف کا تخلیقی اسلوب ، متوازن تنقید اور زندگی بھر کی ریاضت اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ مصنف سے ملاقات رکھتے ہیں۔ وہ اس کتاب میں اسی ملاقات کا احساس پائیں گے۔
جو لوگ مصنف سے ملاقات نہیں رکھتے ، وہ اس کتاب کے ذریعے سے مل جائیں گے۔ پھر جب کبھی ان سے ملیں گے تو پاس بیٹھے دوست سے کہیں گے : "میں اس شخص سے پہلے کہیں ملا ہوں” میں جو پیچھے بیٹھا ہوں گا ، کہوں گا : "جی! آپ نے ان کی کتاب "خیالِ خاطرِ احباب” پڑھی ہے”
ژوار