ایک استاد، 19 گریڈ کا ملازم، پرانی پھٹیچر موٹر سائیکل پر سکول جا رہا ہے، چہرے پر وقار اور خاموش فخر۔
اس کے سامنے سے دو چمکتی ہوئی لینڈ کروزرز گزرتی ہیں — ایک میں 17 گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر براجمان ہے، جسے پورا پروٹوکول میسر ہے، اور دوسری میں وہ خاتون بیٹھی ہے جو کل رات کسی تقریب میں اسٹیج پر ناچ رہی تھی۔
یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام۔ علم بیچنے والا عزت دار نہیں، مگر جسم یا اختیار بیچنے والا طاقتور ہے۔
۱۹ گریڈ کا پروفیسر 70 cc موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ علم کے چراغ روشن کرتے کرتے اس کی زندگی بیت گئی، اور انجام یہ ہوا کہ ایک ڈمپر کے نیچے آ کر شہید ہوگیا۔ افسوس اس نظام پر، جس میں علم بانٹنے والا استاد، جس کی جوانی قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں گزری، وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے بھی ایک پرانی موٹر سائیکل پر گزارتا ہے۔
یہ وہی ملک ہے جہاں 17 گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر دو کروڑ روپے کی لینڈ کروزر میں گھومتا ہے۔ چھ پولیس کمانڈوز اس کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں، اور وہ بڑے فخر سے عوام کے ٹھیلے، ریڑھیاں اور چھوٹی دکانیں الٹتا پھرتا ہے — جیسے اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ٹھیلے والے اور سبزی فروش ہوں۔
19 گریڈ کا پروفیسر، جس نے عمر بھر محنت سے قوم کے بچوں کو پڑھایا، چھ لاکھ کی پرانی مہران تک نہیں خرید سکتا۔ لیکن 14 گریڈ کا ایس ایچ او حیات آباد، ڈی ایچ اے اور کراچی کے بحریہ ٹاؤن میں دس دس کروڑ کے بنگلوں کا مالک ہوتا ہے۔
پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والا بارہ گریڈ کا پٹواری تیس تیس کروڑ کے اثاثے بنا لیتا ہے، سینکڑوں ایکڑ زمین کا مالک بن جاتا ہے، جبکہ وہ استاد، جس نے اسی پٹواری کے بچوں کو پڑھایا، اپنی پوری زندگی کرائے کے مکان میں گزارتا ہے۔
ہائی اسکول کا ہیڈ ماسٹر اپنی بیٹی کی شادی کے لیے قرض لیتا ہے، جبکہ پولیس کا ہیڈ کانسٹیبل اپنی بیٹی کے ولیمے میں پچاس لاکھ روپے اڑا دیتا ہے۔
یہ ہے ہمارے معاشرے کا دو طبقاتی نظام — جہاں عزت، آسائش اور طاقت کا معیار علم یا خدمت نہیں، بلکہ اختیار اور دولت ہے۔
اب ذرا سوچئے — ایک شخص جو محض بی اے کرنے کے بعد ایک مقابلے کا امتحان (CSS) پاس کر لیتا ہے، اسے آپ اسسٹنٹ کمشنر بنا دیتے ہیں۔
نہ کوئی ٹیکنیکل تعلیم، نہ میڈیکل، نہ انجینئرنگ، نہ کوئی خاص مہارت — بس جنرل نالج کے چند سوالوں کے درست جوابات اور ایک انٹرویو کے بعد اسے اتنے وسیع اختیارات دے دیے جاتے ہیں کہ وہ پورے ضلع پر حکمرانی کرنے لگتا ہے۔
اسے پروٹوکول دیا جاتا ہے، سرکاری رہائش، گاڑیاں، گارڈز، ڈرائیور، اور ایک ایسا رعب عطا کیا جاتا ہے کہ قوم کے اصل معمار — استاد، ڈاکٹر، انجینئر، محقق — سب اس کے سامنے خاموش کھڑے نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے:
جب عوام کے پیسوں سے عوامی خدمت کے لیے تنخواہیں دی جاتی ہیں تو پھر یہ اختیار اور پروٹوکول چند مخصوص طبقات تک کیوں محدود ہے؟
کیا ایک پروفیسر، جس نے اپنی عمر علم پھیلانے میں گزار دی، اس قابل نہیں کہ اسے بھی عزت و سہولت میسر ہو؟
کیا ایک استاد، جو نئی نسل کی بنیاد ڈالتا ہے، اس سے کم اہم ہے جس کا کام فائلوں پر دستخط کرنا اور چھاپے مارنا ہے؟
افسوس اور ظلم تو یہ ہے کہ جو بھی حکمران آتا ہے، جو بھی افسر کرسی پر بیٹھتا ہے، کسی کے اندر یہ ویژن، عقل یا ہمت نہیں ہوتی کہ اس بوسیدہ نظام کو بدلے، اس کی اصلاح کرے، یا اس میں موجود خامیوں کو دور کرے۔
سب آتے ہیں، لکیر کے فقیر بن کر، پرانے راستے پر چلتے ہیں، اور پھر چلے جاتے ہیں — جیسے ان کی ذمہ داری صرف وقت گزارنا ہو، نظام بدلنا نہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ سوچ سے خالی لوگوں سے بھرا پڑا ہے — جو صرف تماشائی ہیں، اور تماشہ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
جب تک یہ جہالت زدہ اور فرعونیت زدہ نظام نہیں بدلے گا، جب تک معاشرہ عزت اور مراعات کا معیار اختیار کے بجائے کردار کو نہیں بنائے گا، تب تک 19 گریڈ کا پروفیسر موٹر سائیکل پر جان دیتا رہے گا، اور 17 گریڈ کا افسر لینڈ کروزر میں عوام کے اوپر حکمرانی کرتا رہے گا اور طوائف ناچتی رہے گی۔