اسلام آباد کے صحافی آج بھی ان ہی مسائل کا شکار ہیں جن کا ذکر برسوں پہلے احتجاجی بینروں پر ہوتا تھا تنخواہوں کی بندش، جبری برطرفیاں، اداروں کی مالی مشکلات اور سب سے بڑھ کر بے حسی۔ میڈیا ہاؤسز جنہیں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، وہ اپنے ہی کارکنوں کے استحصال میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
کئی سالوں سے آج تک درجنوں رپورٹرز، سب ایڈیٹرز، کیمرہ مین اور ٹیکنیکل اسٹاف یا تو بے روزگار ہو چکے ہیں یا واجبات کے انتظار میں دفتروں کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کئی صحافی ایسے بھی ہیں جنہوں نے گھریلو مشکلات کے باعث انتہائی قدم اٹھایا یہ وہ المیہ ہے جس پر سب بولتے ہیں مگر کوئی سنجیدگی سے غور نہیں کرتا۔
اسلام آباد کے صحافی تنظیموں نے اس دوران اپنا کردار ادا کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے سابق صدر مرحوم پرويز شوکت، موجوده صدر افضل بٹ، آر آئی یو جے کے صدر طارق ورک،آزاد گروپ کے صدر شکيل قرار، پشتون جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر قمر یوسفزئی، اور دیگر رہنماؤں نے ہمیشہ ورکنگ جرنلسٹس کے حق میں آواز بلند کی۔ ان کی کوششوں سے کئی صحافیوں کو جزوی ریلیف ملا، مگر اصل مسئلہ برقرار رہا مالکان کا رویہ اور ریاستی اداروں کی بے توجہی۔
میڈیا ہاؤسز میں بار بار مالی بحران کا بہانہ بنا کر درجنوں ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ تنخواہیں مہینوں رکیں اور جب احتجاج ہوئے تو بعض اداروں نے صحافيوں تک کو سڑک پر نکال دیا۔ اس دوران حکومتیں بدلتی رہیں مگر صورتحال وہی رہی وعدے کیے گئے، کمیٹیاں بنیں، مگر عملدرآمد نہ ہوا۔
حال ہی میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے اچانک داخل ہو کر صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی کی اورکیمرے ضبط کرلیے۔ یہ لمحہ آزادیٔ اظہار اور صحافتی تحفظ پر ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ تاہم اس کے بعد خوش آئند بات یہ تھی کہ تمام صحافتی تنظیمیں ایک صف میں آگئیں۔ ان کے مشترکہ مؤقف نے حکومت کو فوری ایکشن پر مجبور کیا یہی اتحاد ہی اصل طاقت ہے۔
صحافی خواتین کا کردار بھی اس جدوجہد میں نمایاں رہا۔ ڈاکٹر سعدیہ کمال، نیر علی اور درجنوں دیگر باہمت خواتین نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں سے یہ ثابت ہوا کہ صحافت نہ صرف خبر دینے کا بلکہ ہمت، استقلال اور اجتماعی شعور کا میدان ہے۔
2019 میں اُس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے پرويز شوکت کی سربراہی میں هماری ملاقات ہوئی۔ بات ہوئی کہ بند تنخواہیں جاری کی جائیں اور نکالے گئے کارکن واپس لیے جائیں۔ وزیر نے یقین دہانیاں کرائیں، مگر نتائج صفر رہے۔ یہ احساس اس وقت گہرا ہوا کہ صحافیوں کے مسائل پر سب ہمدردی تو کرتے ہیں، مگر عملی اقدامات کوئی نہیں کرتا۔
اسلام آباد میلوڈی مارکیٹ میں ایک موقع پر بول نیوز کے ایک اینکر سے صحافیوں کے بقایاجات کے بدلے شکيل قرار او ساتهيوں نے ڈی ایس این جی وین کی چابیاں حاصل کی گئیں، تاکہ اس کے بدلے میں ادائیگی ممکن ہو۔ بعد میں بطور ضمانت چيک جمع کرايا گيا، مگر یہ معاملہ بھی کاغذوں میں دب گیا۔ میرا مقصد کسی کی تضحیک نہیں ہے صرف یہ یاد دہانی ہے کہ جب ادارے انصاف نہ دیں تو مزدور خود راستہ تلاش کرتا ہے۔
اسلام آباد میں ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن، سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن اور پارلیمنٹ پریس گیلری کے اراکین بھی وقتاً فوقتاً صحافیوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کی اجتماعی کاوشیں بتاتی ہیں کہ اگر یہ سب تنظیمیں مستقل بنیادوں پر ایک پیج پر آجائیں، تو میڈیا مالکان کسی ورکر کو تنہا نہیں نکال سکیں گے۔
دوسری طرف، حکومت نے ماضی میں میڈیا ٹاؤن جیسے منصوبوں کے ذریعے صحافیوں کو زمینیں دے کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔ تاہم مستقبل میں ضروری ہے کہ ان اسکیموں کی تقسیم مکمل شفافیت سے ہو، تاکہ حقدار کو ہی حق ملے اور کسی طرح کی سیاسی یا مالی مداخلت نہ ہو۔
آج میڈیا انڈسٹری میں خوف، دباؤ اور مالی عدم تحفظ نے تخلیقی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ رپورٹر خبر لکھنے سے پہلے سوچتا ہے کہ کہیں مالک کو کوئی بات ناگوار نه گذرے اور ملازمت نہ چلی جائے، اینکر بولنے سے پہلے رائے کو تولتا ہے، اور کیمرہ مین شاٹ لیتے وقت اپنی سلامتی کا خیال رکھتا ہے۔ یہ وہ فضا ہے جو کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا مالکان، حکومت اور صحافتی تنظیمیں مشترکہ طور پر ایک ایسا میکانزم بنائیں جس سے کسی صحافی کی تنخواہ یا روزگار کو بلاوجہ متاثر نہ کیا جا سکے۔ ورکنگ جرنلسٹس کے لیے لیگل سیفٹی نیٹ اور میڈیا پروٹیکشن فنڈ جیسے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ تنظیموں کے درمیان مفاہمت اور رابطہ مضبوط کیا جائے۔ وقتی احتجاجوں سے زیادہ اہم ہے مستقل مزاحمت اور عملی حکمتِ عملی۔ اگر پریس کلب، پی ایف یو جے، آر آئی یو جے،اور پارلیمنٹ پریس گیلری متحد رہیں تو کوئی بھی میڈیا ہاؤس مزدور کا حق نہیں دبا سکے گا۔
اسلام آباد کے صحافی نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرتی شعور کے محافظ ہیں۔ ان کے قلم رک گئے تو جمہوریت کی زبان گونگی ہو جائے گی۔ یہی وقت ہے کہ حکومت، ادارے اور مالکان سب اس حقیقت کو سمجھیں کہ قلم کی حفاظت دراصل قوم کی حفاظت ہے۔