اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخُر نہیں واللہ نہیں ہے
قائد اعظم محمد علی جناح کا قول ہے کہ:” گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے ، لیکن اگر سلطنت مِل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سےکسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال منتخب کروں گا "۔ (قائداعظم, کلیات اقبال، 1990,اقبال اکادمی لاہور)
اقبال کیا نہیں ہیں ! اقبال علامہ ہیں ،ڈاکٹر ہیں، شاعرِ مشرق ہیں ، مصّور پاکستان ہیں ، مفکرِ اسلام ہیں، عالم الدین ہیں ، صاحبِ فراست و نظر ہیں، ایک صوفی ہیں ،حکیم الامت ہیں ، ایک فلسفی ہیں، ادیب ہیں ، عاشق رسول ہیں، درویشِ بےگلیم ہیں ، واقفِ رموزِ خودی و بے خودی ہیں، صاحبِ بصیرت ہیں ،واقفِ رازِ درونِ میخانہ ہیں، ایک سیاستدان ہیں ۔
اقبال کیا نہیں ہیں ! کون کون سا پہلو بیان کروں اور کیا کیا کہوں اقبال کے ایک ایک شعر پر لوگوں نے کتابیں لکھیں یہاں تک کہ مطالعہ اقبال نے ایک الگ مضمون کی شکل اختیار کی ، تحقیقی اور سندی حوالوں سے اقبال پر جو کام ہوا اور ہو رہا ہے اردو ادب میں کسی اور پر نہیں ملتا اور اقبالیات ایک الگ شُعبہ قائم کیا گیا، غرض یہ کہ اردو ادب نے کسی اور شاعر و ادیب کو اتنے القابات اور خطابات سے نہیں نوازا ، جتنا کہ علامہ محمد اقبال کو نوازا گیا ہے ۔ ہر زبان اور ادب کے اندر بہت کم ایسی شخصیات پائی جاتی ہیں کہ جن کے اشعار اور گفتار ضرب الامثال کی حثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
اردو ادب میں علامہ اقبال کا شُمار اُن شخصیات میں سرِ فہرست رکھا جا سکتا ہے ۔ موٹیویشنل سپیکر اپنے سپیچ میں اقبال کے اشعار بطور مثال پیش کرتے ہیں ، کوئی مولوی ہو خطیب یا حضرتِ واعظ ہو اپنی تقاریر اور خطبوں میں اقبال کے اشعار سُناتے ہیں ، یہاں تک کہ جنازوں میں تدفین کے دوران مولانا حضرات کو وعظ و ترغیب کرتے ہوئے علامہ اقبال کے اشعار سُناتے ہوئے سُنا جا سکتا :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی”
"یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
کوئی سیاستدان ہو تو وہ بھی اپنی سیاست چمکانے اور اپنی باتوں کو مضبوط ثابت کرنے کے لیے کلامِ اقبال کا سہارا لیتے ہیں ، اور سکولوں اور کالجوں میں تو علامہ اقبال نصاب کا حصّہ ہے ہی،اس لیے وہاں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ذکرِ اقبال نہ ہو ۔ یہاں تک کے جو بچے سکول نہیں جاتے وہ بھی اقبال کی شہرہ آفاق نظم "دُعا”
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ”
"زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
سے نابلد نہیں،بلکہ اکثر بچے تو یہ گنگناتے ہیں اور اقبال کے بارے میں تھوڑا بہت جانتےہیں۔
شاید کہ اردو ادب میں کسی کو اتنی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہو جتنی کہ علامہ اقبال کو حاصل ہے۔
اقبال ہمہ جہت اور صاحبِ اسلوب شاعر ہیں، ان کا اپنا ایک منفرد رنگ ہے ، ان کے مضامین آفاقی ہیں جن کے ذریعے انہوں نے دنیا تک اپنا پیغام پہنچایا۔ علامہ اقبال کے پاس کوئی خاص مقناطیسی قوت ہے۔
یہ میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ خوا وہ جتنا بھی بڑا شاعر کیوں نہ ہو اگر اقبال کے رنگ میں اشعار کہیں تو پھر وہ اشعار اُس کے ہوتے ہوئے بھی نہیں رہتے وہ پھر علامہ اقبال کے اشعار تصّور ہوتے ہیں اور ان کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں ، ایسے بہت سے اشعار ہیں کہ جو اقبال کے نہیں ہیں لیکن ان کی طرز تحریر ، رنگ ، ڈھنگ اور اسلوب کی وجہ سے اقبال کی مقناطیسی قوت نے اپنی طرف کھینچے ہیں۔
علامہ اقبال کے ساتھ میری ذاتی طور پر اُنسیت اور عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی نے غلطی سے بھی ان کا ذکر چھیڑا تو پھر میرے لیے وہ والی بات ہوجاتی ہے کہ ” ہم نے تیرا افسانہ کہ ڈالا ، تصویر دِکھا ڈالی ” جس طرح علامہ اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیشوا ، پیر و مرشد مانتے تھے ، میں اسی طرح وہ مقام اور درجہ اقبال کو دیتا ہوں
بقولِ اقبال
صحبتِ پیرِ رومی سے مجھ پہ ہوا ہے یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بہ جیب یک کلیم سر بہ کف.
علامہ اقبال اپنی شہرت اور مقبولیت کا راز اپنے والدین کی تربیت اور حضور اکرم سے عشق و محبت بتاتے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی ایک نظم میں ” والدہ مرحومہ کی یاد میں ” اپنی والدہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایہَ عزت ہوا
اور دوسری بات یہ کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والٖہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت رکھتے تھے۔ وہ محبت ان کے کلام میں جابجا نظر آتی ہے ،علامہ اقبال چاہتے تھے کہ سر زمینِ ہندوستان پر ایک ایسی تیز ہوا اور آندھی چلے کہ میرے مرنے کے بعد میری خاک ہندوستان سے حجازِ مقدس کے راستوں اور گلیوں تک لے جائے اور آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم تک آنے والوں کے پاؤں کے ذریعے میں آپ کے دربارِ پُر انوار تک پہنچ جاؤں۔
بقولِ اقبال :
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اُڑاکے مجھ کو غُبارِ رہ حجاز کرے
ایسا رنگ اور اتنی شوخی کسی اور کے ہاں نظر نہیں آتی
میری اُن سے لگاؤ کی وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے شعرأ اور لکھاریوں کو علامہ اقبال کی علمیت اور کمالِ فن کا اعتراف کرتے ہوئے سُنا ہے۔ ان پر نظمیں لکھی جا چکی ہیں اردو ادب میں تو بے شُمار ہیں لیکن یہاں تک کہ ہمارے پشتو شعرأ نے بھی اقبال کی شاعری اور ان کے فن و فکر اور عظمت کے حوالے سے نظمیں لکھی ہیں ، جن میں بابائے غزل امیر حمزہ شینواری ، غنی خان وغیرہ شامل ہیں۔
اردو ادب میں اقبال سے پہلے بھی بڑی بڑی شخصیات گزری ہیں جن کے علم و فن کا علامہ نے خود اعتراف کیا ہے ، لیکن ہر کسی کا اپنا رنگ ہے ۔
وہ فارسی کا ایک مقولہ ہے کہ” ھر گلِ را رنگ و بوئ دیگر است” یعنی ہر پھول کا رنگ بھی الگ ہوتا ہے اور اس کی خوشبو بھی الگ ہوتی ہے ۔ لیکن علامہ اقبال ہمہ جہت شخصیت ہے ، اگر عشق حقیقی کی بات کی جائے تو تصوف کا رنگ بھی اقبال کے اندر نمایاں ہے جس طرح کہ فرماتے ہیں ۔
"کھبی ا ے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں ”
"کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مرے جبینِ نیاز میں ”
اور اس کے علاوہ فلسفیانہ رنگ ، رومانوی رنگ اور دیگر پہلو بھی اقبال کے ہاں موجود ہیں۔