دسترخوان میں جو کشش اور مزہ ہے یہ شائد اور کہیں نہیں اور میرا یہ بھی خیال ہے کہ جو دسترخوان پہ سرخرو ہوا وہ زندگی کے ہر میدان میں سرخرو ہوگا۔ دسترخوان محض کپڑے یا فرنیچر کا ایک لمبا سا ٹکڑا ہی نہیں بلکہ خوشی و مسرت، توانائی و شناسائی، تہذیب و ثقافت اور محبت و خلوص کا ایک بہت بڑا منبع بھی ہے۔
انسانی زندگی اور اسلامی تہذیب میں جو اہمیت، وقعت اور کرامت دسترخوان کو حاصل ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ خوشی میں غمی میں، دن کو رات کو، مہمان بن کر یا میزبان بن کر، غریب ہو کوئی یا امیر ہو کوئی، ہر وقت، ہر موقع اور ہر حالت میں جو کام خاص اہتمام سے مغرب، مشرق، جنوب اور شمال میں انجام دیا جاتا ہے وہ دسترخوان سجانے کا ہے۔ اسی پہ عزت دی جاتی ہے، اسی پہ خدمت کی جاتی ہے، اسی پہ تہذیب و تمدن کا، شرافت و کرامت کا، خلوص اور خیر خواہی کا سب سے بہترین مظاہرہ ہوتا ہے۔
تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کمانے، حلال کھانے اور حلال کھلانے پر جتنا زور دیا ہے اور کھانے پینے کے معاملے میں جس نفاست، خلوص، توازن، محبت اور شکر گزاری کا اہتمام فرماتے وہ ہر مسلمان کی نظر میں ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کھانے کی کسی چیز میں عیب نکالا نہ ہی کسی چیز کو ناپسند ٹہرایا جو کچھ حاضر ہوتا تھا خوشی اور رغبت سے تناول فرماتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے۔
حدیث میں آیا ہے کہ "سلام پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ ان سے محبت بڑھتی ہے”۔ یہ ایک بالکل فطری اور قدرتی سی بات ہے کہ انسان جہاں جہاں بہت ہی خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے دسترخوان ان میں سے ایک اہم مقام ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت میں سب برابر ہیں نیک و بد، امیر و غریب، کالا و گورا، اعلیٰ و ادنی اور خوشحال و بدحال سب۔
دسترخوان ایک ضرورت بھی ہے اور ذریعہ مسرت بھی، اہم بھی ہے اور عزت و ثقافت کی علامت بھی، قربت اور حلاوت کا وسیلہ بھی ہے اور خدمت و سعادت کا سامان بھی، خیر و اخوت کے جذبات کو ابھارنے والا موقع بھی ہے اور خوشی کے اظہار کا لمحہ بھی۔ اتنی ساری خوبیوں کی بدولت دسترخوان ہمیشہ سے انسانی توجہ اور رغبت کا اہم مرکز ثابت ہوا ہے اس لیے جب بھی کوئی ایسا موقع سامنے آتا ہے کہ جس میں دسترخوان سجنے کا اہتمام ہو تو بندہ ارادی اور غیر ارادی دونوں طور پر اس جانب کھینچتا چلا جاتا ہے خواہ دور ہو یا نزدیک، خواہ آسان ہو یا مشکل، خواہ دوست نے بلایا ہو یا رشتہ دار نے، اس سلسلے میں کوئی بھی زیادہ تحقیق ضروری خیال نہیں کرتا۔ مختصر یہ کہ انسان اور دسترخوان کا باہمی تعلق بہت ہی قریبی اور جذباتی ہے اور اس کی اہمیت سے سرمو انکار ممکن نہیں۔
دسترخوان محض طعام گاہ نہیں بلکہ تہذیبوں کا زندہ آئینہ ہے۔ یہاں بیٹھ کر انسان نہ صرف لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ اس کے آداب، اس کی ترتیب، اس کی سجاوٹ اور اس پہ پیش کردہ برتنوں اور پکوانوں میں پوری ایک تہذیب سموئی ہوتی ہے۔ ہر خطے کا دسترخوان اس کی ثقافت، اس کے موسموں اور اس کے لوگوں کی نفسیات اور جذبات کا عکاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دسترخوان پر بیٹھے ہوئے انسان کی شخصیت کے نہاں خانے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
آج کے تیز رفتار اور انفرادی زندگی کے دور میں دسترخوان کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ جہاں خاندان کے افراد دن بھر میں صرف اسی موقع پر اکٹھے ہو پاتے ہیں۔ یہ وہ مقدس پل ہیں جب موبائل فون، ٹیبلیٹس اور لیپ ٹاپس سے دور ہو کر لوگ ایک دوسرے کو اطمینان سے دیکھتے اور سنتے ہیں، دل کی بات کہتے ہیں اور رشتوں میں تازہ خون دوڑاتے ہیں۔ جدید دور کا دسترخوان نہ صرف کھانے کی میز ہے بلکہ یہ رشتوں کی بحالی، خاندانی یگانگت اور جذباتی تسکین کا مرکز بھی ہے۔ عین اسی پیمانے کے مطابق مہینے میں ایک آدھ بار دوستوں کے درمیان بھی مل بیٹھنے کے مواقع ڈیزائن ہو۔
نفسیاتی اعتبار سے دسترخوان انسان کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی تمام تر مصروفیات، پریشانیوں اور ذمہ داریوں سے کچھ دیر کے لیے آزاد ہو کر ذہنی سکون محسوس کرتا ہے۔ سماجی اعتبار سے یہ وہ عظیم الشان ادارہ ہے جہاں امیر و غریب، بزرگ و جوان، عورت و مرد سب ایک ہی صف میں بیٹھ کر برابری اور اخوت کا سبق سیکھتے ہیں۔ یہیں سے معاشرے میں ہم آہنگی، رواداری اور باہمی احترام کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
دسترخوان کی روحانی تقدس اور اجتماعی برکات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ جب کئی افراد مل کر ایک ہی دسترخوان پر جمع ہوتے ہیں تو ان کے درمیان نہ صرف محبت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں بلکہ رب رحیم و کریم کی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں۔ حدیث مبارک میں آیا ہے کہ "جو شخص اللہ کے لیے کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تر و تازہ حالت میں جنت میں داخل فرمائے گا۔” اس طرح دسترخوان محض دنیاوی عادت ہی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
انسان اور دسترخوان کے اس درینہ تعلق کے پیش نظر آج ہمارے دو دوستوں برادرم عالم زیب اور برادرم شیخ وقار نے ہمارے اعزاز میں اس انداز سے دسترخوان سجایا اور ہمیں بلایا کہ جس میں خلوص، ذائقہ، نفاست، اہتمام اور محبت کا جذبہ لبالب بھرا ہوا تھا۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ دسترخوان پہ تکلف زیادہ ہے یا پھر خلوص۔ اس دعوت کی حلاوت و حرارت اور لطف و مسرت نے ہمارے دلوں، ذہنوں بلکہ روحوں تک کو آسودہ اور مطمئن کیا۔ اس موقع کو شاہد خان کے جذباتی قہقہوں، مہتاب گل کی لطیف شرارتوں، حاجی صاحب کے برمحل موشگافیوں، سفور عباسی کے دلچسپ مزاح اور شکیل احمد کاکا خیل کی خوبصورت باتوں نے ایک یادگار لمحہ بنا دیا۔
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ دونوں دوستوں کی زندگیوں اور خاندانوں میں اعلی ترین معیار اور مقدار والی برکت بھر دیں اور ان پر ہمیشہ اپنی رحمت کا سایہ دراز رکھے۔
"ویلڈن عالم ویلڈن وقار”۔۔ جیتے رہیں، شاد رہیں، آباد رہیں۔ ۔