گفتگو: انسانی شخصیت کا آئینہ

سفر نہ کسی جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کا عمل بھر ہے یہ دراصل ایک وہ آئینہ ہے جو ہمارے چھوٹے چھوٹے رویوں سے ہمارے اخلاق کی عکاسی کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں تعلیم یافتہ لوگ بھی سفر یا عام روٹین کے دوران گفتگو کے بنیادی آداب بھول جاتے ہیں۔ میرا معمول ہے کہ ہر سفر میں کتاب میری بہترین ساتھی ہوتی ہے۔ کسی مصنف کے خیالات کی گہرائیوں میں اتر کر میں وقت کو قیمتی بناتی ہوں اور سفر کی تھکن سے بھی بچی رہتی ہوں۔

حال ہی کا واقعہ ہے جب میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کر رہی تھی۔ ہاتھ میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کی ایک کتاب تھی۔ ذہن اس کے گہرے مضامین میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک پیچھے بیٹھے ایک خاندان کے شور نے میری توجہ بکھیر دی۔ بس کے چلتے ہی ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ قہقہے، فضول باتیں، فون پر چیخ چیخ کر گفتگو یہ سب ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دماغ پر بوجھ ڈال دیا گیا ہو۔ پورے سفر میں شور و غل جاری رہا، یہاں تک کہ ڈرائیور بھی تنگ آ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گھر پہنچتے ہی سر میں شدید درد اٹھا، دو پیناڈول اور ڈبل پونستان لینے کے باوجود سکون نصیب نہ ہوا۔

زبان انسان کی شخصیت کا خلاصہ ہے۔ یہ ہمارے خیالات کو لفظوں میں ڈھالتی ہے اور ہماری تربیت و تہذیب کی عکاسی کرتی ہے۔ شائستہ گفتگو انسان کو معاشرے میں عزت عطا کرتی ہے، جب کہ بے قابو زبان اس کے مقام کو گرا دیتی ہے۔ اسی لیے علما نے زبان کی حفاظت کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، کیونکہ زبان سے نکلا ہوا کلمہ واپس نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت ہمیں اس لیے عطا کی ہے کہ ہم محبت، احترام اور وقار کے ساتھ بات کریں، دوسروں کے سکون کو نہ چھینیں۔

گفتگو انسانی فطرت ہے، لیکن کتنا بہتر ہو اگر ہم دوسروں کے جذبات اور آرام کا خیال رکھیں۔ چند سادہ اصول ہیں: آواز کو معتدل رکھیں، خاص طور پر عوامی مقامات پر۔ ہوائی جہاز یا بس میں فون پر زیادہ بلند آواز میں بات کرنے سے گریز کریں۔ دوسروں کی توجہ اور یکسوئی کا احترام کریں، خصوصاً جب کوئی مطالعہ کر رہا ہو یا آرام میں ہو۔ بچوں کو شور مچانے سے روکنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ان کی تربیت کا حصہ بھی ہے۔

ہر گفتگو کا مقصد مثبت ہونا چاہیے۔ غیر ضروری باتوں سے گریز کریں، کیونکہ ایسی باتیں وقت ضائع کرنے کے ساتھ اختلافات بھی پیدا کرتی ہیں۔ اگر گفتگو علم کے فروغ، اصلاحِ معاشرہ یا نیکی کی ترغیب کے لیے ہو تو یہ عبادت بن جاتی ہے۔ جب کلام میں خلوص شامل ہو تو اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ کسی کی غلطی بیان کرتے وقت نرمی اور حکمت سے کام لینا چاہیے۔ اکثر لوگ تلخ لہجے میں دوسروں کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے سامنے والے میں ضد پیدا ہو جاتی ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے اچھی باتوں کی تعریف کریں، پھر محبت سے کمی کی طرف توجہ دلائیں۔ اس طرح بات زیادہ اثر رکھتی ہے۔

اگر کوئی آپ کی بات نہ سمجھ پائے تو صبر و تحمل کے ساتھ دوبارہ وضاحت کریں۔ بعض اوقات ہم ایک ہی انداز میں دہراتے رہتے ہیں، جبکہ ضرورت نئے پیرائے یا مثالوں کی ہوتی ہے۔ یہ انداز بات کو مؤثر بناتا ہے اور احترام بڑھاتا ہے۔ گفتگو میں سچائی کو بنیاد بنائیں۔ جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے بچنا ایمان کی علامت ہے۔ سچی بات اگرچہ تلخ لگے، مگر اس کے اثرات ہمیشہ مثبت ہوتے ہیں۔ جھوٹ وقتی فائدہ دے سکتا ہے، لیکن آخرکار عزت کھو دیتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے: سچ بولنا ہر حال میں بہتر ہے، چاہے وقتی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

اکثر ہم اپنی بات منوانے کے لیے بحث میں الجھ جاتے ہیں، جس سے تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ اگرچہ حق آپ کے ساتھ ہو، مگر لڑائی جھگڑے سے بہتر خاموشی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں جنت کے درمیان گھر کی ضمانت دیتا ہوں، بشرطیکہ تم جھگڑا چھوڑ دو، چاہے تم حق پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امن و سکون کا رویہ ہمیشہ زیادہ قیمتی ہے۔ گفتگو میں بناوٹ سے بچیں۔ بعض لوگ اپنی بات کو پرکشش بنانے کے لیے غیر ضروری لفظوں کا سہارا لیتے ہیں، جو الٹا اثر ڈالتا ہے۔ سادگی اور سچائی ہی دل تک پہنچتی ہے۔ بات کو ادھورا چھوڑ دینا یا الجھا کر پیش کرنا بھی مناسب نہیں ہے بات ہمیشہ صاف، بامعنی اور رواں ہونی چاہیے۔

کسی کی بات کاٹ دینا نہ صرف بے ادبی ہے یہ تعلقات میں دراڑ بھی ڈال دیتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بات توجہ سے سنی جائے۔ اگر آپ بیچ میں مداخلت کرتے ہیں تو گویا آپ اسے کم تر سمجھ رہے ہیں۔ صبر سے دوسروں کی بات سنیں، پھر مناسب موقع پر اپنی رائے پیش کریں۔ غیبت، چغلی اور اختلاف پیدا کرنے والی باتوں سے مکمل پرہیز کریں۔ یہ نہ صرف گناہ کبیرہ ہیں بلکہ معاشرتی امن کو بھی برباد کر دیتی ہیں۔ اگر کوئی آپ کے سامنے کسی کی برائی کرے تو بہتر ہے کہ بات کو روک دیں یا رخ بدل دیں۔ جو دوسروں کے عیب تلاش کرتا ہے، اللہ اس کے اپنے عیب ظاہر کر دیتا ہے۔

آج کے زمانے میں جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ عام ہو چکا ہے۔ کسی خبر کو آگے پہنچانے سے پہلے اس کی سچائی کی جانچ ضرور کریں۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے: اگر کوئی بدکار تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو۔ یہ اصول ہمیں غلط بیانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ کسی مرد کے سامنے عورت کے حسن کا تذکرہ کرنا فتنہ پیدا کر سکتا ہے، اس لیے شریعت نے اس سے روکا ہے، سوائے نکاح جیسے جائز مقصد کے۔ حیا اور عفت اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں، لہٰذا ہر بات میں حدود کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

کچھ لوگ اپنے گناہوں کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں، حالانکہ یہ رویہ گناہ کو دوگنا کر دیتا ہے۔ بہتر ہے کہ گناہ چھپایا جائے اور توبہ کی جائے، نہ کہ دوسروں کو بھی اس کی طرف مائل کیا جائے۔ کسی کا راز ظاہر کرنا خیانت کے برابر ہے۔ راز داری انسان کے اخلاق کا امتحان ہے۔ جو دوسروں کے بھید محفوظ رکھتا ہے، لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ البتہ اگر کوئی راز کسی کے لیے نقصان دہ ہو تو شریعت کی رہنمائی کے مطابق اسے مناسب انداز میں حل کرنا چاہیے۔

ہر موقعے کا ایک خاص انداز ہوتا ہے۔ خوشی کے وقت غم کی باتیں کرنا یا سنجیدہ محفل میں مذاق اڑانا بے ادبی ہے۔ گفتگو ہمیشہ وقت، مقام اور موقع کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہی دانشمندی اور تربیت کی علامت ہے۔ گفتگو کا ادب صرف بولنے میں ہے یہ سننے میں بھی پوشیدہ ہے۔ جب کوئی بات کر رہا ہو تو پوری توجہ سے سنیں، نظریں ادھر ادھر نہ دوڑائیں، اور بات کو احترام سے سنیں۔ یہ رویہ آپ کے اخلاق کو ظاہر کرتا ہے اور دوسروں کے دل میں آپ کے لیے عزت پیدا کرتا ہے۔

آدابِ گفتگو دراصل انسان کی شخصیت کو نکھارتے ہیں۔ اگر ہم زبان پر قابو پا لیں تو دنیا میں عزت اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ زبان ایک قیمتی عطیہ ہے، اسے درست استعمال کر کے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ سفر نہ صرف جسمانی حرکت ہے یہ اخلاق کا امتحان ہے۔ دوسروں کا خیال رکھنا اور نرم گفتگو اختیار کرنا ہی مہذب معاشرے کی علامت ہے۔ اپنی باتوں میں نرمی، احترام اور سچائی پیدا کریں تاکہ ہمارا ہر سفر خوشگوار اور پُرسکون بن جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے