صدیوں کی صدا: دربار سے ایوان تک گوجری کی آٹھ صدیوں بعد واپسی

قدیم ترین بولیوں میں سے ایک، گوجری زبان صدیوں کی دھول اُڑاتے ہوئے آج دوبارہ تاریخ کے روشن صفحے پر جا پہنچی ہے۔ یہ زبان کبھی سلطنتوں کے درباروں میں سنبھلی، جادوئی الفاظ کی مانند ماحول میں گھلتی، حکمرانوں کے ہونٹوں سے دلوں تک پہنچتی، اور کبھی کوہساروں میں لوک گیتوں اور محافل میں زندہ رہی۔ وہ لمحے جب گوجری دربار کی زبان تھی، آج بس ایک یادگار ہیں، لیکن ان یادوں کی خوشبو آج بھی گوجروں کی زبان میں موجود ہے۔ ہر لفظ میں صدیوں کی صدا بسی ہوئی ہے۔

گوجری کی یہ واپسی محض ایک لسانی کامیابی نہیں، بلکہ صدیوں کی جلاوطنی اور صبر کی کہانی ہے۔ تقریباً آٹھ سو سال پہلے، جب ترک و فارسی حملہ آور آئے، گوجری زبان نے دربار کی شان سے محروم ہو کر اپنی اصل محبت یعنی عوام کے دلوں میں پناہ لی۔ وہ لمحے جب دربار کے دروازے گوجری کے لیے بند ہوئے، زبان نے صبر کیا، چھپی چھپی محفلوں، کھیتوں، وادیوں، پہاڑوں اور گھروں میں زندہ رہی۔ آج، جب خیبر پختونخوا اسمبلی نے اسے پارلیمانی زبان کے طور پر تسلیم کیا، تو یہ تاریخی انصاف کا لمحہ تھا، ایک صدیوں پر محیط صبر کی فتح۔

گوجروں نے ہندوستان کے طول و عرض میں کم وبیش آٹھ سو سال حکومت کی اور انہی کی سرکاری سرپرستی میں گوجری زبان کو پورے دکن، یعنی جنوبی ہند، علی الخصوص گجرات میں کلیدی مقام حاصل تھا۔ اس زبان کی ادبی حیثیت سترہویں صدی تک مسلم رہی۔ جب دکن میں اردو کے نئے مراکز ابھرے، تو اہل علم و ادب نے قدرتی طور پر گوجری ادب کی روایت کو اپنایا۔ 1572ء میں مغل بادشاہ اکبر کے حملے کے بعد گوجری کو زوال ہوا، اور دکن یعنی حیدرآباد وغیرہ کو منتقل ہونے والوں نے عربی و فارسی کے زیراثر مختلف زبان کو فروغ دیا، مگر ہمالیہ کی طرف ہجرت کرنے والے گجر اپنی زبان کی اصل شکل میں قائم رہے، اور مغل سلطنت کے زیر سایہ اسی کی ترقی اردو کے روپ میں ہوئی۔ سلطنتیں چھین لیں، پر زبان نے دلوں میں تاج رکھا۔

قدیم ہندوستان میں گجر سلطنتوں کے دور میں، گوجری دربار کی زبان تھی۔ دہلی، ہریانہ اور دکن کے در و دیوار اس کے الفاظ کی مٹھاس سے گونجتے تھے۔ ہریانوی، راجستھانی، میواتی اور جدید اردو و ہندی نے گوجری کے الفاظ اور لہجے اپنائے۔ دکن میں یہ دکنی کہلائی، دہلی میں ریختہ بنی، اور فارسی و عربی کے سنگم سے اردو کے روپ میں ڈھلی۔ پروفیسر ایمے ریٹس کے مطابق، دکن میں پہنچنے والی گوجری دہلی کے گجروں کی زبان تھی، جو بعد میں مسلم درباروں کے زیرِ اثر نئی ساختوں میں ڈھل گئی۔ یوں گوجری کے دو دھارے وجود میں آئے: ایک اردو کی صورت میں مشرقی تہذیب کا آئینہ اور دوسرا اپنی اصلیت میں برقرار رہ کر گجر قوم کی شناخت کا استعارہ بنا۔

تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ گوجری زبان نے ہر صدی میں اپنی اہمیت برقرار رکھی۔ پنڈت کلہن کی تصنیف "راج ترنگنی” میں "گجر بھومی” کا ذکر ملتا ہے، جہاں شنکر ورمن نے حملہ کیا اور لکھن پال نے صلح کے طور پر ٹیکسلا دے دیا۔ انگریز مؤرخ مسٹر اسٹین نے بھی اس خطے کی گجر حکمرانی کی تصدیق کی۔ آج کے گجرات، گجرانوالہ، گجر خان اور کھاریاں اسی تاریخی گجر بھومی کے آثار ہیں۔ نویں صدی میں گوجر سلطنت ہمالیہ سے بلوچستان تک پھیلی، اور قدیم تصانیف میں "گرجارا دیشہ” یا "گجر دیش” کا ذکر آتا ہے۔ ہر پتھر، ہر وادی گواہ ہے

لیکن گیارہویں اور بارہویں صدی میں ترک و فارسی حملہ آور آئے، تو نہ صرف اس زبان کی مرکزیت متاثر ہوئی بلکہ گجر قوم کی سلطنت بھی بکھر گئی۔ مگر یہ زبان لبوں سے نہ چھنی گئی۔ زوال کے دنوں میں گجر قوم نے ہجرت اختیار کی اور اس کی زبان برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور میدانوں میں بکھر کر بھی قائم رہی۔ کشمیر، ہزارہ، چترال، گلگت بلتستان، بلوچستان، سندھ، افغانستان اور شمالی ہند ہر خطے نے اس زبان کو اپنی مٹی میں بسانا جاری رکھا۔ ہر صبر کا پھل، تاریخ کے ہونٹوں سے نکلتا ہے۔

موجودہ ہندوستان کی ریاستوں ہماچل پردیش، ہریانہ، پنجاب، اتراکھنڈ، راجستھان، گجرات، نیز دہلی اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں گوجری بولنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور وہاں یہ چھٹی سرکاری زبان ہے۔ پاکستان میں ہزارہ، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر میں بولی جاتی ہے۔ افغانستان، ایران، روس اور چین کے بعض علاقوں میں بھی رواج ہے۔ افغانستان میں گوجری پڑھائی جاتی ہے اور ایک ہفت روزہ بھی نکلتا ہے۔ پاکستان میں اب تک رسائل نہیں نکل سکے، مگر تحقیق اور تحریر جاری ہے۔ زبان زندہ، قوم زندہ، تاریخ زندہ۔

جدید دور میں گوجری زبان نے ایک نئی زندگی پائی۔ 27 اکتوبر 2025 کو خیبر پختونخوا اسمبلی نے اسے اپنی قواعد میں شامل کیا، جس سے یہ صوبائی اسمبلی کی چھٹی تسلیم شدہ زبان بن گئی۔ یوں، گوجری زبان جو تقریباً آٹھ سو سال قبل درباروں سے سرکاری حیثیت سے محروم ہوئی تھی، آج دوبارہ ایوان میں اپنا مقام پا رہی ہے۔ 800 سال کا انتظار، آج انصاف کا لمحہ۔

تاریخی دور میں گوجری شاعری کا صوفیانہ رنگ عروج پر تھا۔ حضرت امیر خسرو، شاہ میراں جی، شاہ باجن، برہان الدین جانم، خوب محمد چشتی اور امین گجراتی جیسے شعرا نے گوجری کو روحانی لطافت بخشی۔ ریاست جموں و کشمیر میں بولی جانے والی گوجری پر عربی و فارسی کا اثر نمایاں ہے، کیونکہ وہاں کے گوجر مسلمان اکثریت رکھتے تھے۔ اردو ادب میں بھی گوجری کا اثر واضح ہے۔ دکنی اردو کی بنیاد گوجری روایت پر رکھی گئی، جیسا کہ چوہدری اشرف گوجر کی تصنیف "اردو کی خالق: گوجری زبان” میں بیان کیا گیا۔ یوں گوجری صرف ایک بولی نہیں بلکہ اردو کی ماں اور برصغیر کی لسانی تہذیب کی بنیاد بن گئی۔

ماضی اور حال کا امتزاج ہمیشہ زبان کے لیے ایک آئینہ رہا ہے۔ گوجری کی تاریخ ایسے پہاڑ کی مانند ہے جس کی چوٹی پر کبھی تاج اور دربار تھے، اور وادیاں اس کی پناہ گاہیں، چھپی محفلیں اور لوک گیت ہیں۔ زوال کے بادل چھائے تو یہ زبان جھیل کی طرح خاموش اور گہری ہو گئی، اور آج جب ایوانوں میں اس کا مقام ملا تو یہ آسمان کی طرح روشن اور بلند نظر آتی ہے۔ ہر حرف، ہر نکتہ، ہر صدا گزرے صدیوں کی آزمائش اور آج کے عروج کا امتزاج ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ زبان وہ درخت ہے جو صبر اور وفاداری کے ساتھ جڑیں پکڑے تو طوفان بھی اسے ہلا نہیں سکتا۔

آج جب گوجری زبان کو صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی زبان کا درجہ ملا، تو خوشی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت بھی سامنے آئی۔ سردار شاہجہان یوسف، جو ممبر صوبائی اسمبلی ہیں، نے زبان کی منظوری کے لیے جمع کرائی گئی فہرست میں اپنا حق پیش کیا، لیکن اسپیکر، جو خود کو "کسٹوڈین آف دی ہاؤس” کہتے ہیں، نے باقی سب کے نام شامل کیے مگر شاہجہان یوسف کا نام نظر انداز کیا۔ وہی اسپیکر جو اپنی کرسی پر بیٹھ کر غیر جانبداری کی ڈگری سنبھالتے ہیں، مگر دل و دماغ کی غیر جانبداری کو کہیں دفن کر بیٹھے ہیں۔ ایک نام لینا یا نہ لینا، بظاہر چھوٹا سا عمل، حقیقت میں فرق پیدا کرتا ہے,فرق زبان کی اہمیت، قوم کی پہچان اور ممبر کی محنت کے حق میں پڑتا ہے۔ یہ طنز آمیز واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رسمی غیر جانبداری کے پیچھے کبھی کبھار ذاتی تعصب کے بادل چھپے ہوتے ہیں۔

لب لباب یہ کہ گوجری زبان کی آٹھ سو سالہ جلاوطنی اور پھر ایوانوں میں واپسی ایک تاریخی سفر ہے، جو صدیوں پر محیط ثقافتی، لسانی اور سیاسی جدوجہد کا عکاس ہے۔ آج کے گجر اور زبان دوستوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس تاریخی فتح کو آگے بڑھائیں اور گوجری کو مستقبل کی نسلوں تک زندہ رکھیں۔ نئی نسل کے ہونٹ، پرانی صدا کی پہچان۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے