خوف اور خاموشی کو توڑتی ہوئی آواز: پشاور میں فن، محبت اور امن کا سفر

پشاور، جس کے گلی کوچے برسوں تک دھماکوں کی بازگشت سے لرزتے رہے آج پھر ساز و آواز، رقص و محبت کی خوشبو سے مہک اُٹھے۔ کل تک یہاں بارود کے دھوئیں میں زندگی سانس لیتی تھی، اور آج فضا میں رباب کی مٹھاس گھلی ہوئی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں مرنے والوں نے بھی زندگی کی بات کی جہاں دکھ کو ساز بنایا گیا، اور جہاں خوف کے خلاف ہنسی ایک بغاوت بن گئی۔ سن 2012ء تک خیبر پختونخوا کے باسیوں کے کانوں میں گولیوں کی آوازیں گونجتی تھیں، مگر اسی شور کے درمیان عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم فن، ثقافت اور محبت کے چراغ بجھنے نہیں دیں گے۔ دہشت گردی نے جب مسکراہٹیں چھین لیں تو فنکاروں نے درد کو گیت میں بدل دیا یہی پشاور کا کمال ہے۔

نشتر ہال میں اُيک شام جب پشتو سینما کی ملکہ یاسمین خان کی یاد میں محفل سجی، تو اسٹیج پر اس وقت کے صوبائی وزير اطلاعات میاں افتخار حسین کا لہجہ پشاور کی روح بن گیا۔ اُن کی آنکھوں میں تازہ قبروں کا درد اور زبان پر امن کا پیغام تھا۔ انہوں نے کہا میں ابھی بم دھماکے میں شہید دو بچوں کو دفنا کر آیا ہوں مگر یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دہشت گرد یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہماری خوشیاں چھین سکتے ہیں۔ میں اپنے اکلوتے شہيد بیٹے ميا راشد حسين کا خون معاف کر دوں گا آؤ وطن کو امن دو ورنہ ہم تمہارے دانت توڑ دیں گے، لیکن وطن تمہیں نہیں دیں گے۔ یہ وہ جملے تھے جن میں غم بھی تھا، غیرت بھی، اور ایک ایسی للکار جو پشاور کی مٹی سے اٹھتی ہے۔ دکھ کے سمندر میں بھی جب امید کی ناؤ تیرتی ہے، تو وہی فنکار قوم کا ضمیر بن جاتے ہیں۔

پھر 2013 میں پرویز خٹک کا دور آيا جب ثقافت کا محکمہ ایک فیصلے میں ختم ہوا اور اسے ٹورزم محکمے میں ضم کر دیا گیا پشاور کے ساز خاموش ہو گئے۔ نشتر ہال کی کھڑکیاں بند ہوئیں اور رباب کے تاروں پر گرد جم گئی۔ لگتا تھا جیسے اس شہر کی مسکراہٹ کسی نے چھین لی ہو۔ مگر فنکار مرے نہیں تھے وہ صرف تھک گئے تھے۔ بارہ سال تک خیبر کی وادیوں میں خاموشی کے کرب نے بسیرا کیا۔ شاید اس دور کے حاکموں کو ڈر تھا کہ گیت جب اٹھتے ہیں تو سوال بھی اٹھتے ہیں اور سوال ہر دور کے ظالم سے خطرناک ہوتے ہیں۔ فنکاروں کا جرم یہی تھا کہ وہ زندگی سے محبت کرتے تھے اور محبت ہمیشہ طاقت سے بڑی ہوتی ہے۔

پھر وقت نے کروٹ لی۔ خاموش فضا میں ایک نیا جذبہ بیدار ہوا۔ 2020 کے اواخر میں ايک مستانہ جوان حیات روغانی اور اُن کے مخلص ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ سازوں کو دوبارہ سانس دینی ہے۔ انہوں نے “مفکوره” کے نام سے وہ اداره شروع کیا جو محبت، امن اور ثقافت کے ملاپ کا استعارہ بن گيا۔ یہ محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک احساس ہے ایک احتجاج جو خوشبو میں بدل گیا۔ انہوں نے تھیٹر، موسیقی اور فکری نشستوں کے ذریعے اُس خواب کو دوبارہ زندہ کیا جو بارود نے دفن کر دیا تھا۔خاموشی کے بعد جب رباب نے پہلی بار تار چھيڑے تو ایسا لگا جیسے خیبر کی وادیاں دوبارہ زندہ ہو گئی ہوں۔

“مفکوره” نے ادب، سياست، موسیقی، مصوری، کلچر اور فکرو فلسفہ کو ایک چھت تلے جمع کر دیا۔ بچوں کے لیے “ګل بڼ” ګل بنڑ ریسالہ، نوجوانوں کے لیے “ګاتا” تھیٹر اور مصوری کے لیے “انځور ګیلری” تصوير گيلری یہ سب ایک روشن عزم کی علامت ہیں۔ یہاں بولی، رنگ، ساز اور سوچ سب ایک زبان بولتے ہیں امن کی زبان۔ مفکوره کے ہفتہ وار پروگراموں میں مکالمے ہوتے ہیں، سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور اس شہر کے نوجوان یہ سیکھتے ہیں کہ بندوق سے پہلے آواز آتی ہے، اور آواز جب سچی ہو تو گولیوں کو شکست دے دیتی ہے۔ جس قوم کے بچوں کے ہاتھ میں کتاب، برش اور رباب ہو وہ قوم کبھی دہشت گردی کی غلام نہیں بن سکتی۔

مفکوره کی موسیقی کی شاخ “اوم (OM)” Organic Musica دراصل فطرت سے جڑی روحانی نغمگی ہے۔ انسان نے جب پہلی بار ہوا کے شور، بارش کے قطروں، پتوں کی سرسراہٹ اور پرندوں کے چہکنے سے نغمہ سیکھا تو وہ Organic Musica تھی۔ یہی وہ احساس ہے جو آج مفکوره میں سانس لیتا ہے۔ “اوم” صرف ایک لفظ نہیں، ایک تجربہ ہے کائنات کے سکون کی صدا۔ سنسکرت میں “اوم” کو تخلیقِ کائنات کی پہلی آواز کہا گیا اور یہی آواز آج پشاور کے دل میں گونج رہی ہے۔ یوگا اور مراقبے کی طرح یہ موسیقی بھی انسان کو اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرتی ہے اور یہی اس کی اصل روحانیت ہے۔ جہاں مذہب خاموش ہو جائے، وہاں "اوم” کی صدا انسانیت کو جوڑتی ہے کیونکہ محبت سب سے بڑا عقیدہ ہے۔

اسلامی روایت میں صوفیا نے اسی Organic Musica کو “سماع” اور “قوالی” کے نام سے اپنایا۔ مولانا رومی نے کہا: ہم سب بانسری کی مانند ہیں جب تک خالی نہ ہوں نغمہ پیدا نہیں ہوتا۔ مفکوره میں یہ نغمے دل سے اٹھتے ہیں مشین سے نہیں۔ ڈاکٹر اے آر انور جیسے ماہرین جب لیکچر دیتے ہیں، رباب اور طبله بولتے ہیں تو فضا میں جو ارتعاش پھیلتا ہے وہ امن کا نغمہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح مصوری کے دنوں میں نوجوان جب رنگوں سے خواب بنتے ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے مقابلے میں رنگ زیادہ پائیدار ہوتے ہیں۔ گولی جسم کو زخمی کرتی ہے، مگر فن روح کو شفا دیتا ہے۔

26 اکتوبر 2025ء کی شام نشتر ہال میں مفکوره کی تقریب نے وہی پرانا جادو لوٹا دیا۔ تھیٹر، موسیقی، تصویری نمائش، بک اسٹال اور فوڈ کارنرز سب ایک تہذیبی عزم کی علامت بن گئے۔ فنکاروں، دانشوروں اور عام شہریوں کے چہروں پر امید کی مسکراہٹ تھی۔ "ژوند پرست” زندگی بینڈ کے سر جب فضا میں پھیلے تو پشاور نے محسوس کیا کہ بارود کے زخموں پر کسی نے محبت کا مرہم رکھ دیا ہے۔

مفکوره کے رفقا ڈاکٹر سمیع الدین ارمان، وگمه فیروز، ماهی خان، ڈاکٹر مهرب اور دیگر باصلاحیت نوجوان محض زبان، ثقافت اور معاشرے کے لیے مخلصانہ جذبے سے کام کرتے ہیں۔

اس تھیٹر میں حصہ لینے والے فنکاروں میں امجد ناراض، بریال یاسمین افغان، رڼا ځاځۍ، دانیال ویکٹر، پروفیسر ماہ رخ مومند، جمیلہ بی بی، ايلم خان (بچہ)، روُبا، مرام حیات خان (بچہ)، سبا خان، لونګین حیات خان (بچہ)، ڈاکٹر جان شیر خان، زرتشت یاسمین افغان، سنگین جانان، ماهی گل (خواجہ سرا)، نعیم مخلص شامل تھے۔ ان میں نعیم مخلص، سبا خان اور سنگین جانان ٹی وی، اسٹیج اور فلم کے معروف اداکار ہیں جبکہ باقی سب پچھلے ایک سال میں مفکوره کے تھیٹر کے لیے تربیت یافتہ نوجوان ہیں۔ نعیم مخلص “ګاتا” کے مستقل رکن ہیں۔

تصویری نمائش میں 32 فن پارے شامل تھے جو مفکوره کی انځور ګیلری میں پچھلے تین ماہ سے زیرِ تربیت نوجوان مصوروں کے تھے۔ ان میں دو کم عمر بہنیں بھی شامل تھیں (جن کی عمریں نو اور گیارہ سال ہیں) جو اپنے والد کے ساتھ سیکھنے آتی ہیں۔مصوروں کی فہرست یوں ہے: نیلم اقبال، عائشہ عثمان، حوریہ رحمان، مسکان اختر، عالیہ (بچی)، علینا (بچی)، محمد سعداللہ خان، ماجد اللہ، شایان تیمور۔ جس تھیٹر میں رباب، طبله اور کتاب اکٹھے ہوں وہاں بندوق ہمیشہ شکست کھاتی ہے۔ مفکوره کے نوجوان فنکار، مصور اور دانشور آج صرف فن کا مظاہره نہیں کر رہے بلکہ تاریخ لکھ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ قومیں بموں سے نہیں، مثبت فکر سے بنتی ہیں۔ وہ ہر ساز کے تار سے یہ پیغام دیتے ہیں کہ پشاور اب جنگ نہیں، امن کی پہچان ہے۔

پشاور کی دھرتی آج پھر گنگنا رہی ہے۔ اس کے زخموں سے نغمے پھوٹ رہے ہیں، اور اس کی مٹی امن کی خوشبو دے رہی ہے۔ جن ہاتھوں نے کبھی قبریں کھودیں اب وہی ہاتھ رباب کے تار چھیڑتے ہیں۔ دہشت گردی کے سائے میں جن بچوں نے آنکھیں کھولیں وہ آج تھیٹر کے اسٹیج پر زندگی کی تمثیل بنے کھڑے ہیں۔ شاید یہی محبت کی سب سے بڑی فتح ہے کہ بارود بھی آخرِکار گیت سننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ موسیقی، محبت اور امن یہ تین لفظ صرف الفاظ نہیں، ایک فلسفہ ہیں۔ اور جس قوم نے یہ فلسفہ سمجھ لیا، وہاں کبھی دہشت گردی نہیں جیت سکتی کیونکہ جب رباب بولتا ہے، تو بندوق خاموش ہو جاتی ہے۔ جب تھیٹر زندہ ہوتا ہے، تو خوف مر جاتا ہے اور جب محبت گاتی ہے، تو انسانیت امر ہو جاتی ہے۔ ہمیں ہر اُس شخص اور تنظیم کا ساتھ دینا چاہیے جو امن، محبت اور انسانیت کی بات کرتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے