خواتین: عزم، عمل اور ترقی کی نئی داستان

ابتدائے آفرینش سے انسانی تاریخ نے عورت کی قربانی، ایثار اور کردار کی وہ گواہیاں محفوظ کی ہیں جنہوں نے تہذیب و تمدن کے سفر کو جِلا بخشی۔ عورت کا وجود نہ صرف گھر کی دیواروں تک محدود ہے بلکہ یہ وہ چراغ ہے جو نسلوں کے شعور کو منور کرتا ہے۔ زمانوں کے بدلنے کے ساتھ عورت کے کردار میں بھی نت نئی جہتیں پیدا ہوئیں، کبھی وہ ماں بن کر تربیت کا استعارہ بنی، کبھی معلمہ ہو کر علم کی روشنی پھیلائی، اور کبھی رہنما بن کر قوم کی سمت طے کی۔ تاہم معاشرتی رویوں نے طویل عرصے تک اسے مرد کے مساوی درجہ دینے سے گریز کیا۔ اس کے باوجود عورت نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ آج کے دور میں یہ سوال بے حد اہم ہے کہ کیا خواتین واقعی معاشرے کی ترقی میں مرد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہیں؟ جواب اس وقت اثبات میں بدلے گا جب عورت اپنی صلاحیت کو پہچان کر اس کا درست استعمال کرے گی، اور اپنی فکری و عملی آزادی کو معاشرتی فلاح کے لیے بروئے کار لائے گی۔

عورت کے سماجی شعور کی بیداری کسی بھی قوم کی فکری سمت کا تعین کرتی ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ، باشعور اور حالات سے باخبر ہو تو وہ محض اپنے گھر کو پورے معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط بناتی ہے۔ ایک ماں کی بصیرت نسل کی بنیاد رکھتی ہے، اس کی گفتگو میں تہذیب چھلکتی ہے اور اس کے فیصلوں سے ایک منظم معاشرہ جنم لیتا ہے۔ عورت اگر اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہو کر زندگی کے تقاضوں کو سمجھے تو وہ خود بخود ترقی کی راہوں پر گامزن ہوجاتی ہے۔ یہی سماجی شعور عورت کو معاشرتی جمود سے آزاد کرتا ہے۔ آج جب دنیا علم، ٹیکنالوجی اور معاشی طاقت کے دوڑ میں ہے، عورت کا پیچھے رہ جانا کسی قوم کے زوال کی دلیل ہے۔ وہ جب اپنے حصے کا کردار ادا کرے گی تو معاشرتی انصاف، اخلاقی توازن اور اقتصادی خوشحالی جیسے اہداف خود بخود پروان چڑھیں گے۔

ماضی کے اوراق بتاتے ہیں کہ جب بھی عورت نے اپنے وجود کو پہچانا، معاشرہ ایک نئی روشنی سے منور ہوا۔ فرانسیسی انقلاب ہو یا برصغیر کی تحریکِ آزادی، خواتین نے ہمیشہ علم، قربانی اور شعور کے ذریعے نئی فکری راہیں متعین کیں۔ ان کے شعور نے سیاسی بیداری کو جنم دیا اور ان کی جرات نے تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ عورت جب خود پر یقین کر لیتی ہے تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ یہی خوداعتمادی عورت کو اپنے فیصلوں کی مالک بناتی ہے۔ وہ اپنے نظریات اور خیالات کو سماج کی بھلائی کے لیے استعمال کرتی ہے، جس سے ترقی کا نیا باب کھلتا ہے۔ موجودہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر عورت اپنے اندر یہ احساس بیدار کرے کہ اس کا کردار قوم کے مستقبل کی تشکیل میں کلیدی ہے۔ اگر وہ اپنی قوتِ ارادی کو عملی شکل دے، تو کوئی دروازہ اس پر بند نہیں رہتا۔

سماجی اصلاح ہمیشہ ان ہاتھوں سے ممکن ہوتی ہے جو دل سے خلوص رکھتے ہیں اور عورت کی فطرت خلوص کا مظہر ہے۔ جب عورت اپنی سماجی ذمہ داری کو پہچانتی ہے تو وہ معاشرتی مسائل کے حل میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ غربت، ناخواندگی، ناانصافی اور سماجی ناہمواریوں کے خلاف وہ جب آواز بلند کرتی ہے تو معاشرہ بدلنے لگتا ہے۔ عورت کا نرم لہجہ اور مضبوط ارادہ معاشرتی اصلاح کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہی وہ کردار ہے جس کی بدولت خاندان میں محبت، محلے میں ہم آہنگی اور قوم میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ سماجی بہبود کے میدان میں عورت کی شمولیت معاشرتی توازن کی ضامن بنتی ہے۔ وہ نہ صرف مسئلہ اٹھاتی ہے اس کے حل کی راہیں بھی تلاش کرتی ہے۔ یہی اس کا اصل امتیاز ہے جو اسے محض مظلوم و بچاری نہیں بناتا ہے اس کو مصلح بناتا ہے۔

اقتصادی ترقی کا دار و مدار نہ ہی صرف صنعت یا تجارت پر ہے بلکہ ان ہاتھوں پر بھی ہے جو محنت سے نظامِ زندگی چلاتے ہیں۔ خواتین جب مالی طور پر بااختیار ہوتی ہیں تو وہ اپنی زندگی بہتر بناتی ہیں اس کے ساتھ وہ ملک کی معیشت میں بھی حصہ ڈالتی ہیں۔ گھر سے چھوٹا کاروبار ہو یا کسی بڑے تجارتی منصوبے کا انتظام عورت اپنی بصیرت سے اسے کامیاب بناتی ہے۔ مالی خودمختاری عورت کو باعزت زندگی جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ خوداعتمادی اس کے فیصلوں میں استحکام پیدا کرتی ہے، اور وہ دوسروں کی محتاج نہیں رہتی۔ ایک مالی طور پر مضبوط عورت اپنی نسل کے مستقبل کو بہتر بنا سکتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ عزت و وقار ہمیشہ خودکفالت سے جنم لیتے ہیں۔

اگر تاریخ کے درخشاں آئینے میں جھانکا جائے تو سب سے روشن مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت کی ہے۔ آپ نہ صرف قریش کی معزز خاتون تھیں بلکہ عرب کی کامیاب ترین تاجروں میں شمار ہوتی تھیں۔ آپ کے کاروبار کا دائرہ مکہ سے شام، یمن اور حبشہ تک پھیلا ہوا تھا۔ قافلے آپ کے نام سے پہچانے جاتے اور آپ کی دیانت و معاملہ فہمی عرب معاشرے میں ضرب المثل تھی۔ آپ نے اپنے کاروبار میں مردوں کی طرح سرگرم رہ کر یہ ثابت کیا کہ تجارت عقل و تجربے سے چلتی ہے، جنس سے نہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسولِ اکرم ﷺ کے ساتھ تجارتی شراکت کے دوران ایسی دیانت داری اور انصاف کا مظاہرہ کیا جس نے عرب کی معاشی سوچ بدل دی۔ آپ کا طرزِ تجارت خواتین کے لیے آج بھی رہنمائی کا سرچشمہ ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو کاروبار صرف نفع ہی نہیں دیتا ہے یہ خدمتِ خلق کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورت اگر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرے تو کسی بھی میدان میں کمال حاصل کرسکتی ہے۔ آپ نے مردوں کے غلبہ والے معاشرے میں کاروبار کر کے اس تصور کو توڑ دیا کہ عورت صرف گھر کی زینت ہے۔ آپ کی شخصیت نے یہ باور کرایا کہ دیانت، اعتماد اور تدبیر عورت کے لیے بھی وہی بنیاد ہیں جو کسی مرد تاجر کے لیے ہوتی ہیں۔ آپ کا طرزِ عمل نہ صرف معیشت کی مضبوطی کی علامت تھا یہ خواتین کے وقار کی بحالی کا نقطۂ آغاز بھی تھا۔ آپ نے اپنے وسائل کو خیر کے کاموں میں خرچ کر کے تجارت کو عبادت کا درجہ دیا۔ یہی وہ روح ہے جو ہر دور میں عورتوں کو اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔

بخدا آج کی عورت اگر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلے تو وہ مالی لحاظ سے خودکفیل ہوسکتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی مثال بن سکتی ہے۔ جدید دنیا میں مواقع کی کوئی کمی نہیں بس عزم کی ضرورت ہے۔ گھر بیٹھے آن لائن کاروبار، دستکاری، فیشن ڈیزائننگ، بیکنگ، تعلیم یا مشاورت یہ سب میدان ایسے ہیں جن میں عورت اپنی ذہانت سے مقام بنا سکتی ہے۔ جب وہ اپنے شوق کو ذریعۂ آمدن بناتی ہے تو زندگی میں وقار اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ خود کا کاروبار عورت کو وقت کی آزادی دیتا ہے اسے فیصلہ سازی کی قوت عطا کرتا ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ توازن قائم رکھ سکتی ہے۔ یہی آزادی دراصل اس کے وجود کا احترام ہے۔

مالی خواندگی عورت کے لیے وہ ہتھیار ہے جو اسے حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ ایک باشعور عورت اپنے وسائل کو منظم کرتی ہے سرمایہ کاری کے مواقع پہچانتی ہے اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرتی ہے۔ مالی سمجھ بوجھ عورت کو خود انحصاری کی راہ پر ڈالتی ہے۔ وہ اپنی ضروریات اور خواہشات میں توازن پیدا کرتی ہے۔ یہ تربیت اسے نہ صرف رقم سنبھالنے بلکہ فیصلے کرنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ جب عورت معاشی لحاظ سے مضبوط ہو تو وہ اپنے بچوں کے لیے بہتر تعلیمی اور سماجی ماحول فراہم کر سکتی ہے۔ یہی مالی خودمختاری عورت کو عزت کے ساتھ جینے کا احساس دلاتی ہے۔

خواتین کے لیے ذاتی کاروبار کی راہ محض کمائی کا ذریعہ ہے یہ اپنی شناخت قائم کرنے کا طریقہ ہے۔ ملازمت میں انسان دوسروں کے فیصلوں کا تابع رہتا ہے جبکہ کاروبار اسے قیادت کا احساس دیتا ہے۔ عورت جب اپنی محنت سے اپنا کاروبار کھڑا کرتی ہے تو اس کی خودی پروان چڑھتی ہے۔ وہ معاشی طور پر مضبوط ہوتی ہے، اس کے فیصلوں میں اعتماد آتا ہے اور وہ دوسروں کے لیے مثال بن جاتی ہے۔ گھر سے چھوٹے پیمانے پر شروع ہونے والا کاروبار ایک دن خاندان اور معاشرے کی زندگی بدل سکتا ہے۔ عورت کی تخلیقی قوت اور مستقل مزاجی اسے کامیابی کے عروج تک پہنچا سکتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج وقت کی ضرورت ہے کہ خواتین اپنے اندر کے خدیجہؓ کو پہچانیں۔ چاہے وہ کسی دیہات کی ہنرمند عورت ہو یا شہر کی تعلیم یافتہ لڑکی ہر ایک کے پاس صلاحیت ہے۔ اگر وہ خود پر یقین رکھے اور حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ لے، تو کوئی رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہیں رہتی۔ معاشرہ تبھی ترقی کرے گا جب عورت اور مرد دونوں برابر کے شریک ہوں گے۔ عورت کا ذاتی کاروبار اسے بااختیار بناتا ہے، اسے احترام دیتا ہے اور اسے زندگی کی دوڑ میں ہم قدم رکھتا ہے۔ لہٰذا خواتین کو چاہیے کہ وہ ملازمت کے بجائے اپنا ذاتی کاروبار شروع کریں، خواہ وہ گھر کے ایک کمرے سے ہو یا شہر کے کسی دفتر سے کیونکہ اصل کامیابی وہی ہے جو خود کی محنت سے حاصل ہو۔ یہی راستہ انہیں وقار، آزادی اور حقیقی خوشحالی کی منزل تک پہنچائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے