زندگی کی شاہراہ پر اپنے سفر کا دلچسپ تذکرہ

2 فروری 1981ء کو میری زندگی کی سحر کا آغاز ہوا۔ میرا تعلق ضلع دیر کے علاقے میدان کے گاؤں کمبڑ سے ہے۔ یہاں پر ساڑھے تین صدیوں سے آباد خانوادہ سادات کے ایک ذیلی شاخ "ترمذی” کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ ہمارے جد امجد سید علی ترمذی ہیں جو "پیر بابا” کے نام سے معروف اور بونیر میں مدفون ہیں۔ اپنے دور کے بہت بڑے بزرگ اور عالم با عمل گزرے ہیں۔ "کے پی کے” کے شمالی اضلاع میں دعوت دین، اصلاح معاشرہ، تزکیہ نفس اور رد بدعات و خرافات میں ان کا بڑا اور موثر کردار رہا ہے۔ ان کی زندگی شریعت و طریقت کے معروف اصولوں کے حسین امتزاج تھی۔

ہمارا خاندان گوں دولتمند نہیں البتہ شرافت، قناعت، وجاہت، سفید پوشی، نیک خلقی اور سماجی توقیر کی دولت سے مالامال ضرور ہے۔ میرے والد مرحوم قاری سید قریش جان اسی گاؤں میں 1949ء کو پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے سنجیدہ اور نفیس اطوار کے مالک تھے۔ انہوں نے ضلعی ہیڈکوارٹر تیمرگرہ، مردان، پشاور اور لاہور کے مختلف علمی اداروں سے حصول علم کے مختلف مدارج طے کیے۔ آخری فراغت لاہور کے جامعہ اشرفیہ سے پائی۔ اسی دوران مفکر اسلام، مفسر قرآن اور داعی انقلاب اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ سے متعارف ہوئے اور باضابطہ ان کے ہفتہ وار دروس قرآن و حدیث میں شریک ہونے لگے۔ کچھ عرصے کے بعد جماعت اسلامی سے بطور رفیق وابستہ ہوگئے۔ کہتے تھے "مولانا محترم دیر کے پسماندہ علاقے سے تعلق کے سبب میرے ساتھ بے حد شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے تھے”۔ کہتے تھے "انہوں نے (مولانا مودودی رح) نے کئی مرتبہ مجھے اپنے قریب بلایا، پاس بٹھایا اور مجھ سے میرے حالات معلوم کیے”۔

والد صاحب مرحوم حافظ قرآن، عالم دین اور شعبہ درس و تدریس سے منسلک تھے۔ وہ ایک سنجیدہ، بامقصد، منظم، بااصول، دیانتدارانہ اور نفاست سے آراستہ زندگی کے حامل انسان تھے۔ ان کی زندگی نظم و ضبط، ٹھہراؤ اور اعلیٰ سماجی و اخلاقی اقدار کا بہترین نمونہ تھی۔ میں نے زندگی بھر ان کو غیر ضروری باتیں، بے وقت کھاتے پیتے اور بے جا معاملات کرتے نہیں دیکھا۔ وہ پوری زندگی دینی، علمی، اصلاحی، تعمیری، سماجی اور تحریکی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہیں۔

وہ صبح ڈیوٹی (سکول ٹیچر تھے) پر جانے سے پہلے اس قدر تیار ہو کر نکلتے کہ گویا عید الاضحی کی صبح ہے۔ وہ ایک بے ضرر انسان، ایک خیرخواہ رشتہ دار، ایک ذمہ دار شہری، تعلیم و تربیت کے فروغ میں ہمہ تن مصروف عمل ایک شفیق استاد، فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقت بے تاب اور آمادہ سیاسی ورکر، سماجی و اخلاقی نظم وضبط کے متمنی اور دینی تعلیمات اور اصولوں سے محبت کرنے والے باشعور تحریکی کارکن تھے۔

محلے کی مسجد میں مقیم ایک افغان طالب علم نے والد صاحب سے حفظ قرآن کی خواہش کا اظہار کیا تو نہایت خوشی سے آمادہ ہوئے، باقاعدہ آغاز ہوا، روزانہ تین مرتبہ وقت دینے لگے اور یوں نو ماہ کے قلیل عرصے میں اس کو حفظ قرآن مکمل کرایا حالانکہ اس وقت وہ خود صحت کے مختلف مسائل سے دوچار تھے۔ وہ کسی بھی معاملے میں جب مخاطب کے ہاں دلچسپی پاتے تو ہر طرح کے تعاون پر آمادہ ہوتے۔ 16 مارچ 2009ء کو بوقت عصر اپنے ریٹائرمنٹ سے ٹھیک دو ماہ قبل مختصر علالت کے بعد پشاور کے شیرپاؤ ہسپتال میں مہلت زندگی مکمل ہونے پر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

جہاں تک میری ذات کا حوالہ ہے تو میں ایک نرم خو، سادہ مزاج، پرامید، ہنس مکھ، بے غرض، لکھنے پڑھنے کے شوق سے سرشار اور ٹھنڈے میٹھے جذبات کا حامل "نوجوان” ہوں۔ میں بجا طور سمجھتا ہوں کہ اگر انسان اپنے اندر موجود نرم اور لطیف احساسات منجمد نہ ہونے دیں تو بے شمار تلخیاں، سختیاں، دشمنیاں، نفرتیں، کدورتیں، مایوسیاں، دشواریاں اور بدمزگیاں خود بخود دم توڑ دے گی اور انسانوں کو سکون اور خوشی سے زندگی بسر کرنے کا موقع میسر آئے گا۔

دنیا میں ہر انسان دوسرے کے لیے تسلی کا سامان ہے یا پھر تشویش کا باعث یہ معاملہ ہر فرد کا اپنا رویہ اور کردار طے کرتا ہے۔ مجھے بے شمار مقامات پہ مختلف حالات میں نوع بہ نوع لوگوں کے ساتھ طویل عرصے تک رہنے کے مواقع میسر آئے ہیں لیکن کبھی ایسے "حال احوال” سے نہیں گزرا جس نے کسی ناقابل برداشت صدمے سے دو چار کیا ہو اور کبھی ایسے حالات کا سامنا بھی نہیں ہوا کہ کسی وجہ سے بالکل ٹوٹ گیا ہوں۔ نرم ہوں، نارمل ہوں اور کافی حد تک لچکدار بھی اس لیے اکثر ناگوار باتوں پر اپنی برداشت ذرہ بڑھا کر تو خیریت سے گزر جاتا ہوں باقی اللہ تعالیٰ سب سے بڑا محافظ ہے اور سب سے بڑا سہارا و کار ساز بھی۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ انسان کے پاس سب سے اہم ہتھیار ہے۔ یہ اللہ ہی کی مہربانی ہے جس نے دنیا میں بے شمار اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ کے باوجود زندگی کی گاڑی، شاہراہِ حیات پر آگے بڑھانے کا اطمینان بخش موقع عنایت کو، عنایت کیا ہے۔

جہاں تک تعلیمی سفر کا معاملہ ہے تو وہ اپنے علاقے میدان سے شروع ہوا اور اسلام آباد پر جا کر ختم۔ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول لعل قلعہ میدان سے 2000ء میں میٹرک کیا، میٹرک کے بعد پشاور کے ایک دینی مدرسے میں داخل ہوا وہاں سے چار سالہ کورس (درجہ خاصہ) مکمل کرنے پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلے کا موقع میسر آیا اور وہاں سے صحافت میں گریجویشن کی ڈگری لی اور اس کے ساتھ ہی عملی زندگی میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے چالیس سال گزر گئے البتہ یہ قطعاً دوسری بات ہے کہ اتنا لمبا عرصہ گزرتے ہوئے محسوس بالکل نہیں ہوا۔ یہ زندگی کا خاصہ ہے کہ یہ خود کو محسوس نہیں کراتی۔ جلدی اور چھپکے سے گزر جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانی وجود میں کچھ معنوی خوبیاں ایسی رکھی ہیں کہ اگر کوئی ان کو دریافت کریں اور بوقت ضرورت کام میں لائیں تو زندگی اچھی بھلی بن سکتی ہے۔ میں زندگی کے مسائل اور معاملات کو سادہ اور فطری انداز میں دیکھ رہا ہوں اور یہ انداز مجھے کسی ایسی پیچیدگی کی طرف نہیں جانے دیتا جو پریشانی میں مبتلا کر دیں۔ میں جب بھی کسی سے ملتا ہوں تو اغراض پہ نہیں بلکہ نیک جذبات اور اجتماعی اقدار و مفاد کے تحت ملتا ہوں۔ ملنے کا یہ اسلوب باہمی تعلقات کے لیے ایک متوازن اور مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ خلوص اور ہمدردی اگر دلوں میں جگہ پکڑ لیں تو باہمی تعلقات کو وہ لطف اور شیرینی میسر آتی ہیں جن کا تصور بھی انسان نہیں کر سکتا۔

میں زندگی کو ایک سادہ اور فطری عمل سمجھتا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ نرم خوئی، خلوص، ہمدردی اور لچک جیسی خوبیاں بیشتر دشواریوں کا حل ہیں۔ میں ہر انسان کے اندر موجود خیر پر یقین رکھتا ہوں، یہی میری پرامیدی اور مثبت سوچ کی بنیاد ہے۔ میرے نزدیک، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ سب سے بڑا سہارا ہے، اور یہی وہ ہتھیار ہے جس نے زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ کے باوجود مجھے محفوظ اور مطمئن رکھا ہے۔

جہاں تک عمومی رجحان کا معاملہ ہے اس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ میں بچپن سے ہی صحافیانہ ذہن اور صوفیانہ مزاج رکھتا ہوں۔ برمحل سوال کرنا میری فطرت ہے اور معقول جواب پانا میرے لیے باعث مسرت۔ اس لیے سوال جواب میرے محفلوں کا خاصہ ہے۔ دادی نانی سے، دوست و احباب سے، علماء و اساتذہ سے، بزرگ اور دانشور حضرات سے بہ کثرت دلچسپ اور سنجیدہ سوالات کرنا اور جوابات کیلیے ہمہ تن گوش ہونا میری پرانی عادت ہے مثلاً میں اپنی دادی اماں سے اس طرح کے سوالات پوچھتا کہ ہمیں کس نے پیدا کیا ہے؟ کیوں پیدا کیا ہے؟ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ ہم جو عبادات بجا لاتے ہیں اس کا مقصد کیا ہے؟ خیر و شر کے تصورات کی حقیقت کیا ہے؟ انسانوں کے باہمی رشتے کیسے وجود میں آئے ہیں؟ باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ زمین پر کون سی چیز پہلے پیدا کر دی گئی ہے؟ حقوق ملکیت کی حقیقت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ اور وہ مجھے شفقت اور محبت سے سمجھانے کی مقدور بھر کوشش کرتی۔ سوالات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے میرے سوالات ذیادہ تر فطرت، سیاست، ثقافت، آدب، معاشرت، شریعت، معیشت، قانون، اخلاقیات، تاریخ، موت و حیات، فلسفہ اور انسانی جذبات و احساسات سے متعلق سنجیدہ مسائل پر مشتمل، مگر دلچسپ پیرائے میں سر اٹھاتے ہیں۔

صحافی ایسے فکر و نظر کا حامل طبقہ ہے کہ وہ واقعات، شخصیات اور حالات کے پیچھے چھپے محرکات پر بھی دماغ کھپاتا ہے اور صرف "حال احوال” کا تذکرہ کر کے خاموش نہیں ہوتا بلکہ پس پردہ اسباب کا تجزیہ بھی ضروری سمجھتا ہے تاہم میں نے اپنے صحافیانہ رجحانات کا رخ فطرت، معاشرت، شریعت، باہمی معاونت اور عالمگیر موافقت کی جانب موڑا ہے اور انہیں میدان کار میں اپنے قلم اور دماغ کو مسلسل حرکت میں رکھتا ہوں اور ایسی باتوں اور حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتا ہوں جو انسانوں کے درمیان، موافقت اور معاونت کے حوالے سے مددگار ثابت ہوں۔ سوشل میڈیا پر "گردش” کے مستقل عنوان سے لکھتا ہوں۔ اس تحریری سلسلے کے عنوانات اور مواد دونوں میرے انہیں رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔

میں نے زندگی میں چند کام لازم پکڑے ہیں اور نتیجاً ایک مطمین زندگی گزار رہا ہوں۔ عبادت، مطالعہ، نرم خوئی، واک، تعمیری سرگرمیاں، ڈسپلن، دعا، مشاورت، خاموشی، ہر طرح کی بے جا مداخلت سے گریز، لاحاصل مشاغل سے مکمل اجتناب وغیرہ۔ یقین کریں مندرجہ بالا اعمال نے میری زندگی کو آسان اور بہتر بنانے میں کافی مدد کی ہیں۔ انسان اگر اپنے آپ اور اپنے گرد و پیش کو درست طور پر بروقت پہچانے تو یہ اس کے حق میں بہت ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔ زندگی بنانے اور بگاڑنے والے دونوں طرح کے رویوں میں انسان کا اپنا ارادہ اور رجحان ذمہ دار اسباب ہیں۔ ہر بندہ اگر اپنے الفاظ اور جذبات پر موقع بہ موقع غور کرتا رہے تو اس پر اچھی طرح واضح ہوگا کہ بہت سارے معاملات اور تعلقات کے بنانے یا بگاڑے میں اس کے اپنے "آپ” کو کتنا بڑا عمل دخل حاصل ہے۔

میری سیاسی سوچ جماعت اسلامی پاکستان کی حمایت پر مبنی ہے۔ میں جماعت اسلامی کو خیر، اصلاح اور انسانی خدمت کی ایک عظیم تحریک سمجھتا ہوں۔ جماعت اسلامی پاکستان میں ایک مستحکم اور تعمیری سیاسی قوت ہے جو کہ اسلامی اصولوں، عوام کی بھلائی اور انصاف پر مبنی ایک منظم نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ یہ جماعت نہ صرف شفافیت، دیانتداری اور اعلیٰ انسانی اخلاقیات کی علمبردار ہے، بلکہ معاشرے کے تمام شعبوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے عملی اقدامات پیش کرتی ہے، نوجوانوں کے لیے مفت آئی ٹی کورسز کا پروگرام بنو قابل اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ہے۔ جماعت اسلامی کا وژن ہر شہر کو پُرامن اور ہر غریب کو خوشحال بنانے کا ہے۔ اگر عام لوگ ایک مستحکم، ترقی یافتہ اور اسلامی اقدار پر مبنی پاکستان کے متمنی ہیں، تو اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی کی حمایت کر کے اس تعمیری سفر کا باقاعدہ حصہ بنیں۔

نادرا پاکستان کا ایک اہم قومی ادارہ ہے جو کہ جدید ٹیکنالوجی اور ایک شفاف نظام کے ذریعے ملک میں شہریت کے ریکارڈ کو منظم کرنے کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ اس ادارے کی قومی ترقی، جدت طرازی اور استحکام میں خدمات بلاشبہ ناقابل فراموش ہیں۔ مجھے نادرا کے ساتھ اپنی وابستگی پر بے حد فخر محسوس ہو رہا ہے۔ تقریباً تیرہ سال پر محیط میری ملازمت کے دوران، میں نے نہ صرف ادارے کی مسلسل ترقی اور کامیابیوں کو قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کے پرخلوص اور ہم آہنگ ماحول نے مجھے ہمیشہ مثبت طور پر متاثر کیا ہے۔ میں اپنے اس سفر پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسے ادارے میں خدمات انجام دینے کا موقع دیا جو نہ صرف قومی سلامتی کی ضمانت ہے بلکہ یہاں کام کرنے کا تجربہ بھی انتہائی متنوع، اطمینان بخش اور پر سکون رہا ہے۔

میں جب بھی سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل امکانات اور خطرات دونوں سے خوب بھرا ہے۔ محیر العقول وسائل اور مواقع انسان کے دسترس میں آنے والے بلکہ کافی حد تک آ بھی گئے ہیں۔ گلوبلائزیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت کی وسعت اور جدت، تجارت اور کاروبار کا باقاعدہ عالمی سیاست میں بطور ایک طاقتور حربہ استعمال اور سب سے بڑھ کر مصنوعی ذہانت جس نے حضرت انسان کو محاورتاً نہیں بلکہ واقعتاً ایک نئے دور میں داخل کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا نت نئی جنگوں، تنازعات، پیچیدگیوں اور سنگین قسم کے مسائل اور امراض سے بھی دو چار ہونے والی ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جو کسی بھی کشمکش میں فریق یا شریک نہیں ہوگا زیادہ تر وہی نشانے پر آئے گا اور جو اس طرح کے تاریک منصوبے تخلیق کرنے اور تشکیل دینے والے ہیں وہ ہزار پردوں میں چھپے ہوں گے۔ اس لیے میرا مشورہ ہے لوگ خاص کر نوجوان لڑائی جھگڑوں، پرتشدد رویوں، جنسی بے راہ روی اور جذباتیت کا شکار ہونے سے خود کو بچا کر جدید سکلز سیکھنے، نئے مواقع سے بھرپور فایدہ اٹھانے، مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہونے، متحمل و متحرک رہنے اور زندگی کے لیے کسی بڑے اور تعمیری مقصد کا تعین کر کے اسے نئے سرے سے گزارنے کی شروعات کریں ان شاءاللہ ایمان، اطمینان، خوشی اور کامیابی آپ کے ہم قدم ہوں گی۔

کھانے پینے کے حوالے سے میرا ذوق کافی لچکدار ہے۔ خدا کی پیدا کردہ کسی بھی نعمت سے منہ نہیں موڑتا۔ مختلف اوقات میں مختلف غذاؤں کو پوری رغبت سے نوش جان کر رہا ہوں تاہم چند چیزوں کو زیادہ خوشی اور اطمینان سے ملاحظہ کرتا ہوں۔ مثلاً گوشت چاول، دودھ دہی، قہوہ اور سبز مرچ، بنڈی اور قیمہ ملا کریلا، بادام اور کاجو جبکہ فروٹ میں آم اور کیلا دسترخوان پر میرے مرغوب ترین اشیاء ہیں۔ یہ چیزیں جب بھی سامنے دیکھتا ہوں تو طبیعت ٹھیک ٹھاک ازراہ مسرت مچلتی ہے اور انگلیاں منہ اور دسترخوان کے درمیان مخصوص انداز سے گویا ناچنے لگتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی نعمتوں سے مناسب طور پر دیر تک لطف اندوز ہونے کا موقع عطا فرمائے۔

اس کے علاوہ میں ہر معاملے میں خیر تلاش کرتا ہوں جیسا کہ صوفیاء حضرات میں ہمیشہ سے یہ نقطہ نظر چلا آرہا ہے۔ میں حیران کن حد تک پر امید اور مثبت پرست ہوں۔ میں یقین رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ضمیر، روح، الہام، احساس، اخلاقی شعور اور وجدانی ادراک ایسے بلند جواہر سے آراستہ کیا ہے یہ سارے چیزیں مل کر انسان کو غلطی اور خرابی پر زیادہ دیر تک جم جانے سے روکتے ہیں جبکہ اس کے کردار اور شخصیت کو بلندی، خیر اور تعمیر سے ہم کنار بھی رکھتے ہیں۔

میرے نزدیک خیر کا امکان کبھی بھی اور کہیں بھی ختم نہیں ہوتا نہ ہی کبھی اصلاح و بہتری کا دروازہ کسی پر بند ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لیے اجتماعی نظام میں میرٹ، ٹیلینٹ، چیک اینڈ بیلنس، احتساب، احساس، ذمہ داری، انصاف، عمومی خیر خواہی اور انسان دوستی جیسے آفاقی اور بنیادی اقدار ضرور فٹ ہوں کیونکہ اس سے تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود کی منزل تک قوموں کا سفر تیز تر ہو جاتا ہے اور یوں طویل فاصلے سرعت سے طے ہو جاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے