ہنری کسنجر: قیادت کا فلسفہ اور مصنوعی لیڈروں کا موجودہ دور

ہنری کسنجر مشہور امریکی سفارت کار، سیاستدان، مصنف اور سماجی مفکر تھے۔ آپ نے 1973ء سے 1977ء تک دو صدور رچرڈ نکسن اور جیرالڈ فورڈ کے ساتھ بطور وزیر خارجہ ایک ہنگامہ خیز دور میں کام کیا۔ 29 نومبر 2023 کو وہ پورے سو سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ پاکستان میں ان کی وجہ شہرت سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کو دی گئی ایک سنگین دھمکی ہے جس میں موصوف نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام سے باز آنے کا کہا تھا اور جب انہوں نے کوئی خاص اثر قبول نہیں کیا تو انہیں عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔

ہنری کسنجر بیسویں صدی کے ذہین ترین سفارت کار، ماہرِ سیاسیات اور استعماری ذہن کا مالک تھا جس کی سفارتی حکمت عملیوں نے عالمی سیاست کے دھارے بدل دیے۔ وہ ایک ایسا شاطر سفارت کار تھا جس نے مختلف واقعات کو پرکھنے، ان کی مخصوص تاویل کرنے اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں یکتا تھا۔ ان کا "حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی” کا نظریہ دراصل طاقت اور مفاد کے گرد گھومتا رہا اور اس میں اخلاقیات کو کوئی مقام حاصل نہ تھا۔

ویت نام میں امن مذاکرات ہوں یا چین سے تعلقات کی بحالی، سوویت یونین سے تناؤ میں کمی ہو یا مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر شٹل ڈپلومیسی حقیقت یہ ہے کہ ہنری کسنجر نے ہمیشہ امریکی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات میں اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور عملیت پسندی نے اسے ایک متنازعہ لیکن مؤثر شخصیت بنا دیا تھا، جن کے سبب آج بھی عالمی سفارت کاری پر ان کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔

ہنری کسنجر کی تیسری جنگ عظیم کے حوالے سے بھی ایک پیشن گوئی کو عالمی شہرت حاصل ہوگئی، ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ "آنے والی جنگ عظیم اس قدر بھیانک ہوگی کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس میں صرف ایک سپر پاور جیت سکتی ہے اور وہ ہم (امریکہ) ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین اس قدر جلدی میں ہے کہ یورپ کو ایک بڑی مملکت میں تبدیل کر دے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور اپنی بقاء کے لیے یورپ کو ایک متحدہ مملکت بننا پڑے گا۔ ان کی جلدبازی سے عیاں ہے کہ ان پر کیا قیامت آنے والی ہے۔ واہ، میں ان خوبصورت لمحات کا کب سے منتظر تھا”۔

ہنری کسنجر کی تیسری جنگ عظیم کے حوالے سے پیشنگوئی، چاہے جتنی بھی ہولناک لگے، درحقیقت عالمی طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات کی عکاس ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یورپی یونین کی یکجہتی درحقیقت آنے والے جغرافیائی سیاسی طوفانوں سے بچاؤ کا ایک اقدام ہے۔ یہ نقطہ نظر ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا پاکستان جیسے ممالک، جو عالمی طاقتوں کے درمیان ایک نازک مقام پر واقع ہیں، اس قسم کے ممکنہ عالمی تنازعات کے لیے تیار ہیں؟ پاک افغان حالیہ کشیدگی کو صرف علاقائی تناظر میں نہیں بلکہ اس کو بین الاقوامی سیاست سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہماری اپنی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی حکمت عملیوں پر نظرثانی کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ارے بات دور چلی گئی مجھے واپس موضوع کی طرف آنا چاہیے۔

ہنری کسنجر ایک حد درجہ ذہین لیڈر تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت زیادہ متنازعہ بھی رہیں۔ وہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کرتے تھے اور اقوام عالم کی خودمختاری کو کبھی خاطر میں نہ لاتے تھے تاہم، یہی وہ دور تھا جب انہوں نے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس کے اثرات آج بھی خطے کی سیاست میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہنری کسنجر پاکستانی عوام میں ایک ایسی شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں جو ایک طرف تو خوف اور دباؤ کا استعارہ ہے لیکن دوسری طرف وسیع تر بین الاقوامی حکمت عملی کا ایک ممتاز ماہر بھی۔

میں نے 2022 میں ہنری کسنجر کا ایک بیان پڑھا تھا، بہت دلچسپ لگا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ”سوشل میڈیا کے ذریعے ابھرنے والے لیڈروں میں قیادت اور بصیرت کا شدید فقدان ہوتا ہے۔ ان میں مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ اہلیت بالکل نہیں ہوتی”۔ یہ بیان سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ سوشل میڈیا مارکہ قسم کے سیاست دانوں میں واقعی اہلیت نہیں ہوتی اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے مصنوعی مقبولیت کا سہارا لے کر آگے آتے ہیں لیکن مسائل حل کرتے وقت ایسے لیڈرز ہمیشہ بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔

ہنری کسنجر کا سوشل میڈیا کے ذریعے ابھرنے والے لیڈروں پر تنقیدی بیان آج کے دور میں اور بھی زیادہ متعلقہ ہو چکا ہے۔ وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مصنوعی مقبولیت اور جذباتی نعروں نے گہری نظریاتی اور تجربہ کار قیادت کی جگہ لے لی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مسائل کے حل کے لیے تاریخی شعور، بین الاقوامی تعلقات کی گہری سمجھ بوجھ اور سفارتی مہارت درکار ہوتی ہے، جو اکثر "ٹویٹر لیڈروں” یا "فیس بک لیڈروں” میں مفقود ہوتی ہے۔ یہ تنقید پاکستان سمیت بہت سارے ممالک کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے، جہاں عوام کو مصنوعی اور حقیقی قیادت میں فرق کرنا سیکھنا ہوگا۔

غالباً جولائی 2022 میں ان کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آئی تھی جس کا نام "قیادت: عالمی حکمت عملی میں چھ مطالعات” ہے۔ مذکورہ کتاب کا کافی شہرہ رہا کیونکہ ایک تو یہ ایک دلچسپ موضوع یعنی "قیادت” پر لکھی گئی ہے جبکہ دوسرا سبب خود مصنف کی شخصیت ہے جو کہ ایک اہم منصب (امریکی وزیر خارجہ) پر فائز رہے ہیں اور اس حیثیت میں انہوں نے دنیا بھر کی اہم قیادتوں کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔

مذکورہ کتاب میں انہوں نے خصوصی طور پر چھ سابق عالمی رہنماؤں کا ذکر کیا ہے، جن کے ساتھ ہنری کسنجر کا سامنا اور گفتگو ہوتی رہی ہے اور جنہوں نے انتہائی کٹھن بحرانوں کا سامنا کیا تھا، مگر انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت اپنے ہاں پائی جانے والی ناامیدی، مسائل اور درپیش مشکلات کو دور کر کے حالات پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ہنری کسنجر نے مذکورہ کتاب میں تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح چھ غیر معمولی رہنماؤں نے اپنے اپنے ممالک اور دنیا کی جدید تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہیں۔

"قیادت: عالمی حکمت عملی میں چھ مطالعات” میں ہنری کسنجر چھ غیر معمولی لیڈروں کی زندگیوں کا ریاستی تناظر کی مخصوص حکمت عملیوں کے ذریعے تجزیہ کرتا ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ مجسم (قیادت کی خوبی سے آراستہ) ہیں۔

1. دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمن چانسلر کونراڈ اڈی ناؤر نے شکست خوردہ اور اخلاقی طور پر دیوالیہ جرمنی کو قوموں کی برادری میں باوقار پوزیشن پر واپس لایا جسے کسنجر نے "عاجزی کی حکمت عملی” کہا ہے۔

2. چارلس ڈی گال نے فرانس کو فاتح اتحادیوں کے ساتھ کھڑا کیا اور "مرضی کی حکمت عملی” کے ذریعے اس کی تاریخی عظمت کی تجدید کی ہے۔

3. سرد جنگ کے دوران، رچرڈ نکسن نے "توازن کی حکمت عملی” کے ذریعے آمریکہ کو جغرافیائی فائدہ پہنچایا۔

4. پچیس سال کی کشمکش کے بعد، مصر کے رہنما انور سادات نے مشرق وسطیٰ میں امن کا وژن ایک "مقابلہ کی حکمت عملی” کے ذریعے پیش کیا۔

5. مشکلات کے خلاف، Lee Kwan Yew نے "اتفاق کی حکمت عملی” کے ذریعے ایک پاور ہاؤس سٹی سٹیٹ، سنگاپور بنایا۔

6. مارگریٹ تھیچر، اگر چہ جب وہ اقتدار میں آئی تو برطانیہ کو "یورپ کا بیمار آدمی” کے نام سے جانا جاتا تھا، لیکن مارگریٹ تھیچر نے "یقین دلانے کی حکمت عملی” کے ذریعے اپنے ملک کے حوصلے اور بین الاقوامی مقام کی تجدید کی۔

"قیادت: عالمی حکمت عملی میں چھ مطالعات” کا مطالعہ بالعموم سب کے لیے اور بالخصوص ان نوجوانوں کے لیے جو سیاست اور بین الاقوامی معاملات سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں کے لیے ایک دلچسپ، اہم اور مفید مطالعہ ہے۔ ایسے مطالعات نوجوانوں کو لازم رکھنا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف عالمی امور میں عالمی قیادتوں کے کردار سے کما حقہ آگاہی پائے بلکہ مصنوعی اور حقیقی لیڈروں کے درمیان فرق دیکھنے کے قابل بھی ہو سکیں مزید برآں نااہل اور مصنوعی لیڈروں کے ہاتھوں بے وقوف بننے سے بھی بچ سکیں۔

ہنری کسنجر کی کتاب میں پیش کردہ چھ رہنماؤں کے انتخاب سے ان کی ذہنی تربیت اور سیاسی ترجیحات کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ یہ تمام رہنما نظریاتی اختلافات کے باوجود حقیقت پسندانہ سیاسیات کے علمبردار تھے۔ ان کی کہانیاں یہ سبق دیتی ہیں کہ حقیقی قیادت عوامی جذبات کی پیروی کرنے کا نام نہیں، بلکہ مشکل ترین حالات میں عملی حکمت عملی، صبر اور دوراندیشی سے ملک و قوم کو صحیح سمت میں لے جانے کا نام ہے۔ یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ کس طرح اڈی ناؤر کی عاجزی، چارلس ڈیگال کی مرضی، رچرڈ نکسن کے توازن، تھیچر کی ضد، اور سادات کی جرات نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے