ننگے پاؤں درخت کو چھونا: فطرت سے جڑنے کا سائنسی راز

درخت زمین کے سب سے خوبصورت تحفے ہیں۔ یہ انسان کے لیے آکسیجن، سایہ، لکڑی، دوائیں، خوبصورتی اور سکون کا ذریعہ ہیں۔ فطرت کی ہر سانس میں درختوں کا وجود شامل ہے۔ جہاں درخت ہیں، وہاں زندگی ہے۔ جہاں درخت نہیں، وہاں سوکھی زمین، خشک فضا اور بے سکونی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین پر ہر زندہ جاندار کی بقا درختوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ انسان، پرندے، حیوانات سب انہی کی چھاؤں میں جیتے اور انہی سے توانائی لیتے ہیں۔ درخت صرف سبز پتے نہیں بلکہ زمین کے دل کی دھڑکن ہیں۔

جب آپ ننگے پاؤں زمین پر چل کر کسی درخت کو چھوتے ہیں تو آپ کا جسم ایک قدرتی برقی دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ زمین کی منفی آئنز (Negative Ions) آپ کے جسم کے اندر جمع مثبت زہریلے ذرات کو ختم کرتی ہیں۔ یہ عمل جسم سے سوزش کم کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن متوازن کرتا ہے۔ نیند بہتر بناتا ہے۔ ذہنی دباؤ کم کرتا ہے۔ اور انسان کو ایک گہرا سکون دیتا ہے۔ یہ وہی سکون ہے جس کی تلاش میں انسان شہروں، دواؤں اور مصنوعی علاجوں میں سرگرداں ہے۔

تحقیقات کے مطابق ننگے پاؤں زمین پر چلنے اور درخت کے ساتھ وقت گزارنے سے Cortisol کی سطح کم ہوتی ہے۔ یہ وہ ہارمون ہے جو دباؤ اور پریشانی کے وقت جسم میں بڑھتا ہے۔ درخت کے لمس سے دماغ میں Serotonin اور Dopamine پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وہ خوشی کے کیمیکل ہیں جو انسان کو مسرّت اور اطمینان دیتے ہیں۔ یعنی درخت کو گلے لگانا بھی ایک قدرتی اینٹی ڈپریشن ہے۔ اس کا اثر بالکل ویسا ہوتا ہے جیسے کوئی آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے: فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔

درخت کے قریب وقت گزارنا صرف روحانی سکون نہیں بلکہ طبی فائدہ بھی ہے۔ جاپان میں اس پر باقاعدہ تحقیق ہوئی جسے “Shinrin-Yoku” یا “Forest Bathing” کہا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ روزانہ بیس منٹ درختوں کے درمیان گزارتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے جسم میں مدافعتی خلیات (Natural Killer Cells) بڑھ جاتے ہیں۔ خون کی روانی بہتر ہوتی ہے۔ بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ اور سرطان جیسے امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ یہ سادہ مگر گہرا راز ہے کہ فطرت خود ایک مکمل دوا ہے۔

درختوں کے بغیر انسانی دماغ بھی بوجھل رہتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سبزہ زاروں اور درختوں کے بیچ رہتے ہیں ان کا دماغ زیادہ فعال، تخلیقی اور مثبت ہوتا ہے۔ وہ کم غصہ کرتے ہیں۔ ان کی یادداشت بہتر ہوتی ہے۔ اور ان کی زندگی میں شکرگزاری زیادہ ہوتی ہے۔ درخت فضا میں آکسیجن چھوڑتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ مگر اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ منفی توانائی، شور اور دباؤ بھی جذب کرتے ہیں۔

درخت سے جڑنے کا مطلب ہے اپنی اصل سے جڑنا۔ جب آپ اس کے تنے پر ہاتھ رکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے جیسے زمین آپ سے بات کر رہی ہو۔ اس لمحے آپ کی روح پرسکون ہوتی ہے۔ دل کی دھڑکن نرم پڑ جاتی ہے۔ دماغ کی رفتار سست اور متوازن ہو جاتی ہے۔ اور اندر ایک عجیب شکرگزاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے جدید سائنس “Mind-Body Synchronization” کہتی ہے۔ یعنی دل اور دماغ کے درمیان ہم آہنگی۔

انسان اور درخت کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ انسان نے جب پہلی بار پتھر سے آگ جلائی تو درخت نے اسے لکڑی دی۔ جب بارشوں نے زمین ڈھانپی تو درخت نے سایہ دیا۔ جب فضا آلودہ ہوئی تو درخت نے سانس دی۔ جب انسان نے مٹی کھودی تو درخت نے زخم بھرے۔ اور جب انسان نے تھکن محسوس کی تو درخت نے اسے سکون دیا۔ درخت انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کے محافظ ہیں۔

درخت انسان کے جسم کی برقی توانائی کو متوازن رکھتے ہیں۔ جب ہم جوتے، موصل قالین یا فرش پر رہتے ہیں تو یہ رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جسم میں اضافی الیکٹران جمع ہوتے ہیں جو ذہنی دباؤ، بے خوابی اور تھکن کا سبب بنتے ہیں۔ “Earthing” یا “Grounding” کا مقصد یہی ہے کہ انسان دوبارہ زمین سے جڑ جائے۔ ننگے پاؤں چلنا، درخت کو چھونا، یا گھاس پر بیٹھنا یہ سب جسمانی نظام کو ری سیٹ کرتے ہیں۔

درخت کے نیچے مراقبہ کرنے سے ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔ فطرت کے ماہرین کہتے ہیں کہ درختوں کے نیچے بیٹھنے والے افراد میں دماغی لہریں “Alpha Waves” کی شکل میں آتی ہیں۔ یہی لہریں انسان کو پرسکون، تخلیقی اور متوازن بناتی ہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جو دعا، ذکر یا خاموش عبادت میں پیدا ہوتی ہے۔ گویا فطرت خود ایک عبادت گاہ ہے۔

درخت صرف انسان کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ پوری زمین کے لیے نعمت ہیں۔ یہ زمین کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ فضائی آلودگی کم کرتے ہیں۔ بارشوں کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ زیرِ زمین پانی کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اور مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں۔ جہاں درخت کم ہوں وہاں بارشیں کم، فضا گرم، اور طوفان زیادہ ہوتے ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق، زمین کی تندرستی درختوں کے تناسب سے ناپی جاتی ہے۔

درخت لگانا صدقہ جاریہ بھی ہے اور انسانیت کی خدمت بھی۔ ہر وہ درخت جو آپ لگاتے ہیں، آنے والی نسلوں کو سانس، سایہ اور سکون دیتا ہے۔ ایک درخت درجنوں انسانوں کے لیے آکسیجن بناتا ہے۔ اگر ہر فرد سال میں صرف ایک درخت لگائے تو زمین کا درجہ حرارت چند درجے کم ہو سکتا ہے۔ یہی ماحولیاتی انقلاب کا پہلا قدم ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ درخت سے محبت صرف روحانیت نہیں بلکہ انسان کی جسمانی ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ جب آپ فطرت سے جڑتے ہیں تو جسم کا نظام بہتر ہوتا ہے۔ دل کی بیماریوں میں کمی آتی ہے۔ دماغ میں خوشی کے کیمیکل بڑھتے ہیں۔ سانس صاف رہتی ہے۔ خون کی روانی تیز ہوتی ہے۔ اور انسان زیادہ جوان، صحت مند اور مطمئن رہتا ہے۔

درخت انسان کے احساسات بھی محسوس کرتے ہیں۔ سائنسدانوں نے تجربات سے ثابت کیا کہ پودے موسیقی، آواز اور لمس پر ردِعمل دیتے ہیں۔ وہ بھی ارتعاش (Vibration) کے ذریعے انسان کی توانائی محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے جب آپ محبت سے درخت کو چھوتے ہیں تو وہ اپنی مثبت توانائی آپ کو واپس دیتا ہے۔ یہ تعلق خاموش مگر زندہ ہے۔

آج کے مصنوعی دور میں انسان نے فطرت سے فاصلہ بڑھا لیا ہے۔ ہم مشینوں میں قید ہیں، مصنوعی ہوا میں سانس لیتے ہیں، اور نیند کے لیے دوائیں لیتے ہیں۔ حالانکہ علاج صرف پندرہ منٹ فطرت کے پاس بیٹھنے میں ہے۔ اگر آپ روزانہ ننگے پاؤں کسی درخت کے نیچے بیٹھ جائیں تو آپ کا جسم، دماغ اور دل تینوں توازن میں آجائیں گے۔ یہی اصل سکون ہے۔

درخت سے محبت دراصل خود سے محبت ہے۔ کیونکہ فطرت سے جڑنا اپنے وجود سے جڑنا ہے۔ جو انسان فطرت سے محبت کرتا ہے، وہ انسانوں سے نفرت نہیں کر سکتا۔ وہ نرم دل، شکر گزار اور پُرامن ہوتا ہے۔ درخت اسے عاجزی سکھاتے ہیں۔ خاموشی میں بات کرنے کا ہنر دیتے ہیں۔ اور سکھاتے ہیں کہ زندگی بانٹنے کا نام ہے، لوٹنے کا نہیں۔

آخر میں یہی کہنا کافی ہے کہ درخت کو گلے لگائیے۔ اس سے بات کیجیے۔ ننگے پاؤں زمین پر چلئے۔ فطرت کے لمس کو محسوس کیجیے۔ کیونکہ یہ لمس آپ کی روح کو تازگی دیتا ہے۔ آپ کے بدن کو سکون دیتا ہے۔ اور زمین کو زندگی بخشتا ہے۔ درخت صرف زمین کے پودے نہیں بلکہ انسان کے دل کے مرہم ہیں۔ انسان جتنا فطرت کے قریب ہوگا اتنا صحت مند، پُرسکون اور خوشحال ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے