کرائے کی پہچان

ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جہاں انسان نے اپنی اصل کھو دی ہے اور اس کے بدلے میں کچھ لیبل، کچھ نعرے، اور کچھ بڑے بڑے نام خرید لیے ہیں۔ اب پہچان کردار سے نہیں، شناختی کارڈ سے ہوتی ہے۔ فخر اس بات پر نہیں کہ ہم نے کیا کیا، بلکہ اس بات پر ہے کہ ہم کہاں سے ہیں۔ گویا انفرادی وجود، سوچ، عمل اور اخلاق سب غیر ضروری ہو چکے ہیں — صرف قوم، قبیلہ اور مذہب کا حوالہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی خودی کا سودا کر دیتا ہے، اور اپنی روح کو اجتماعی نعرے کے کرائے پر اٹھا دیتا ہے۔

اقبال نے ایسے ہی انسان پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا:

"تو نام و نسب کا حجازی ہے، مگر من کا حجازی بن نہ سکا،

یہ شعر آج کے انسان کے باطن کا آئینہ ہے۔ ہم سب نام کے حجازی، زبانی مسلمان، ظاہری محبِ وطن اور اجتماعی غیرت کے پیکر ہیں — مگر اندر سے کھوکھلے۔ ہم نے اپنے ضمیر کو قومی نعرے کی دھول میں دفن کر دیا ہے۔ ہم اقبال کی اس "خودی” سے محروم ہیں جو قوموں کو عزت دیتی ہے، کیونکہ ہم نے اپنی اصل پہچان قوم، مذہب یا زبان کے حوالے کر دی ہے۔ ہم نے وہی کیا جو کمزور کرتے ہیں — اپنی کمزوری کو کسی بڑے نام کے سہارے چھپا لیا۔

اقبال نے کہا تھا:

"افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر،
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔”

لیکن ہم نے اس شعر کو الٹا سمجھا۔ ہم نے سمجھ لیا کہ ملت کے سہارے فرد کو پہچان ملتی ہے، حالانکہ اقبال کہہ رہے تھے کہ ملت فرد کے کردار سے بنتی ہے۔ ہم نے اپنی خودی کی طاقت کو اجتماعی ہجوم کے شور میں گم کر دیا۔ ہم اپنی ذمہ داری سے بھاگ کر قوم کے نام پر فخر کرنے لگے، جیسے ہم نے کچھ کمایا ہو۔ دراصل یہ فخر نہیں، کمزوری کی علامت ہے۔ یہ اعتراف ہے کہ ہم اپنی پہچان خود قائم نہیں کر سکتے۔

کافکا نے کہا تھا کہ انسان اپنی بیگانگی کو معاشرتی ڈھانچوں میں پناہ دے کر چھپاتا ہے۔ ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔ ہم مذہب کے نام پر فخر کرتے ہیں مگر اس کی روح سے غافل ہیں۔ ہم وطن کے نام پر جھومتے ہیں مگر اپنے کردار میں دیانت نہیں۔ ہم زبان اور روایت کی بات کرتے ہیں مگر اپنی فکر کی بنیاد دوسروں سے مانگتے ہیں۔ ہماری ساری شناختیں ادھار کی شناختیں ہیں۔ ہم کرائے کے ناموں، کرائے کے فخروں اور کرائے کے ایمان پر زندہ ہیں۔

نیطشے نے کہا تھا:

“Become who you are.”
یعنی "وہ بن جو تُو دراصل ہے۔”

مگر ہم نے وہ بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم وہ بن گئے جو ہمیں بتایا گیا۔ ہم نے اپنی ذات کو تقلید کے سانچے میں ڈھال دیا۔ ہم نے اپنی خودی کی بجائے اجتماعی ہجوم کی مرضی پر جینا سیکھا۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب ہم نے اپنی انسانی آزادی کھو دی۔

اقبال کی روح پکارتی ہے کہ "خودی” ہی انسان کی اصل ہے، وہ جو قوموں کو زندہ کرتی ہے۔ مگر ہم نے خودی کو چھوڑ کر قومیت کی مصنوعی عظمت کو اپنا لیا۔ ہم نے اپنے اندر کی سچائی کو بھلا دیا اور اپنی شناخت کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر رکھ دیا۔ اب ہم فخر کرتے ہیں اس بات پر کہ "ہم فلاں قوم سے ہیں”، مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہماری ذات نے اس قوم کو کیا دیا ہے۔

"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔”

یہ اقبال کا وہ خواب تھا جس میں انسان اپنی قسمت کا خالق بنتا ہے، مگر ہم نے اپنی رضا بھی قوم کے نام پر قربان کر دی۔ ہم خود سے نہیں جیتے، بلکہ قوم کے شور میں زندہ رہنے کی اداکاری کرتے ہیں۔

تاریخ ہمیشہ ان افراد کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے اپنی پہچان خود بنائی۔ قوموں کا وجود بھی انھی کے دم سے ہے۔ وہ جو اپنے اندر کے حجاز کو زندہ کرتے ہیں، وہی اصل وارث ہیں۔ باقی سب صرف نام کے حجازی، نعرے کے مجاہد، اور روایت کے غلام ہیں۔

ہمیں اب خود سے سوال کرنا ہوگا
کیا ہم واقعی زندہ قوم ہیں، یا صرف زندہ ہونے کا شور مچاتے ہیں؟
کیا ہم اپنی پہچان خود بناتے ہیں، یا کرائے پر لی ہوئی پہچانوں کے سہارے جی رہے ہیں؟
اگر جواب دوسرا ہے، تو یاد رکھو:
کرائے کی پہچان کبھی عزت نہیں دیتی۔
وہ صرف وقتی شور پیدا کرتی ہے — مگر خاموشی میں، وقت کے ساتھ، وہ مٹ جاتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے