گلوبل وارمنگ کا مقابلہ بذریعہ گرین وزڈم: اپنا طرز زندگی بدلنا پڑے گا

گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے گرین وزڈم یا سبز دانش ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس زمین کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ گرین وزڈم محض شجرکاری یا توانائی کے متبادل ذرائع تک محدود عمل نہیں، بلکہ یہ فطرت کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی کے لیے ایک جامع فلسفہ ہے۔

گرین وزڈم کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے معاشی، معاشرتی اور روزمرّہ کی زندگی میں ماحولیاتی شعور کو مرکزی حیثیت دیں۔ یہ حکمت عملی صرف کاربن کے اخراج میں کمی ہی نہیں، بلکہ پانی کے تحفظ، فضلے کے انتظام، حیاتیاتی تنوع کی حفاظت اور پائیدار زراعت جیسے اقدامات پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر، شہروں میں عمارتوں کو گرین بلڈنگ کے اصولوں پر تعمیر کرنا، شمسی اور ہوائی توانائی کو فروغ دینا، اور عوامی ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا، یہ سب گرین وزڈم کے عملی مظاہر ہیں۔

گرین وزڈم کی کامیابی صرف حکومتی پالیسیوں سے ممکن نہیں، بلکہ انفرادی ذمہ داری اور اجتماعی عمل پر منحصر ہے۔ ہر فرد کو اپنی روزمرہ کی عادات میں تبدیلی لانی ہوگی، جیسا کہ پلاسٹک کے استعمال میں کمی، پانی کے ضیاع سے گریز، اور توانائی کا محتاط استعمال۔ اس کے علاوہ، تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی قرار دینا ہوگا تاکہ نئی نسل میں بچپن ہی سے فطری وسائل کے تحفظ کا شعور پیدا ہو سکے۔ صنعتی شعبے کو بھی اپنے پیداواری عمل ماحول دوست بنانا ہوگا۔ مختصر یہ کہ گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی اب عالمی یکجہتی اور گرین وزڈم کے فلسفے کو اپنائے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں فطرت کو ایک تحفہ سمجھ کر اس کا تحفظ کرنا ہوگا، نہ کہ اسے استحصال کی چیز سمجھ کر تباہ کر دیں۔

ہماری زمین، جو کبھی سرسبز و شاداب تھی، آج تیزی سے بدلتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں، آلودگی اور قدرتی وسائل کے بے دردانہ استعمال کے باعث خطرے سے دوچار ہے۔ ایسے میں گرین وزڈم کا تصور ہمارے لیے رہنمائی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا فلسفہ ہے جو فطرت کے ساتھ ہم آہنگی، پائیداری اور ماحولیاتی ذمہ داری پر زور دیتا ہے۔

گرین وزڈم کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے وسیع تر فوائد پر غور کرنا ہوگا۔ یہ دانش ہمیں سکھاتی ہے کہ کیسے ہم اپنے روزمرہ کے معمولات میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لا کر بڑے مثبت اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ یہ ہمیں معاشی فوائد بھی فراہم کرتی ہے مثلاً توانائی کے پائیدار ذرائع اپنا کر نہ صرف ہم بجلی کے بلوں میں کمی لا سکتے ہیں، بلکہ ماحول کو صاف رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

صحت کے اعتبار سے بھی گرین وزڈم کے فوائد مسلمہ ہیں۔ صاف ہوا، خالص پانی اور نامیاتی غذاوں کا استعمال ہماری صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ دانش درحقیقت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم اپنے موجودہ طرز زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی زمین کو رہنے کے قابل بنائے رکھے۔

گرین وزڈم کے تصور کو عام کرنے کے لیے ہمیں جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی مضمون بنایا جائے، تو آنے والی نسل میں ماحول کے حوالے سے شعور پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ماحول سے متعلق غفلت کا رویہ صرف انفرادی یا عوامی نہیں بلکہ ادارہ جاتی بھی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کسی بھی سطح پہ ہماری ترجیح نہیں۔

گرین وزڈم کے تصور اور رجحان کو عام کرنے میں مساجد و مدارس کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ ان دو مقامات کو عوام روزانہ کے حساب سے رجوع کرتے ہیں۔ عوام نہ صرف علماء کا احترام کرتی ہے بلکہ ان کی رہنمائی کو اہمیت بھی دیتی ہے، یہاں ماحولیاتی شعور اور احساس ذمہ داری خاص موضوع ہونا چاہیے۔ اس طرح ملک بھر میں نماز جمعہ کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جہاں عام لوگ خاص توجہ سے علماء کے خطابات سنتے ہیں جبکہ مدارس میں سکولوں اور کالجوں کی طرح لاکھوں کی تعداد میں طلباء زیر تعلیم ہوتے ہیں محکمہ تعلیم کے وساطت سے ایسے طریقوں کا اجراء ممکن ہے جن سے نہ طلباء کے ماحولیاتی شعور میں اضافہ ممکن ہے بلکہ انہیں شجر کاری اور صفائی مہمات میں بھی متحرک کرنا ممکن اور مفید ہے۔

میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی اس مقصد کے حصول میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا مہمات، معلوماتی ویڈیوز، اور آن لائن کورسز کے ذریعے عوام تک پہنچنا آج کے دور میں زیادہ آسان ہے اور یہ پلیٹ فارم زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

مقامی سطح پر کمیونٹی پرگرامز، ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کر کے لوگوں کو براہ راست شامل کیا جا سکتا ہے۔ عملی نمونے جیسے شہروں میں گرین زونز کا قیام، پارکس اور باغات کی توسیع لوگوں کو فطرت کے قریب لانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کارپوریٹ سیکٹر کی شمولیت کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ کاروباری اداروں کو ماحول دوست پالیسیاں اپنانے پر راغب کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی اس سلسلے میں اہم قدم ہو سکتا ہے۔

گرین وزڈم کوئی عارضی رجحان نہیں، بلکہ بقا کی ضرورت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ ترقی اور تحفظ کے درمیان توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہر شہری، خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو، اس عالمی مقصد میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسے پلاسٹک کے استعمال میں کمی، پانی کے تحفظ، توانائی کے بچاؤ اور درخت لگانے جیسے کام، مل کر بڑی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

آج کی تیز تر ترقی اور گرین وزڈم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا موجودہ دور کا ایک اہم ترین چیلنج ہے لیکن چند اصولوں پر عمل کرنے سے اس چیلنج پر قابو پانا ممکن ہے!

پہلا اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم "پائیدار ترقی” کے نئے ماڈل کو اپنائیں، جس میں معاشی ترقی کا اندازہ محض جی ڈی پی کی شرح سے نہ لگائے بلکہ ماحولیاتی صحت و سلامتی اور معاشرتی بہبود کو بھی اس کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم ایسے شہر تعمیر کر سکتے ہیں جو توانائی کے لحاظ سے خود کفیل ہوں، عمارتیں ہوا اور سورج سے توانائی حاصل کریں، اور نقل و حمل کے ایسے ذرائع استعمال ہوں جو ماحول دوست ہوں۔ یہ طریقہ کار نہ صرف ترقی کی رفتار برقرار رکھے گا بلکہ قدرت کے ساتھ ہمارے تعلق کو بھی بہتر بنائے گا۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ ہم سرکلر اکانومی کے طریقوں کو اپنائیں، جہاں ہر شے کو دوبارہ استعمال میں لانے کی صلاحیت کو ترقی کا معیار بنایا جائے۔ ہماری موجودہ "لینیئر معیشت” خطرناک ہے کہ "استعمال کرو، پھینک دو” کے اصول پر کام کرتی ہے، جبکہ سرکلر اکانومی میں فضلے کو نئی مصنوعات میں تبدیل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف قدرتی وسائل کا تحفظ ممکن ہوگا، بلکہ نئی صنعتیں اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے، جس سے معاشی ترقی کو نئی راہیں مل سکیں گی۔

تیسرا اصول”سبز جدت” کو فروغ دینے کی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی اور ایجادات کو ایسے حل تیار کرنے کے لیے استعمال کریں جو دونوں مقاصد پورے کر سکیں۔ مثال کے طور پر، مصنوعی ذہانت کے ذریعے توانائی کے استعمال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کو زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے، اور ایگری ٹیک کے ذریعے کم پانی میں زیادہ فصل اگائی جا سکتی ہے۔ یہ جدتیں نہ صرف ترقی کو تیز کریں گی بلکہ ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کو بھی کم کریں گی۔

چوتھا اصول "اجتماعی کوششوں” کی اہمیت سے متعلق ہے۔ حکومت، نجی شعبہ اور عوام سب مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن قائم ہو۔ حکومتیں ماحول دوست پالیسیاں بنا سکتی ہیں، کاروباری ادارے پائیدار طریقے اپنا سکتے ہیں، اور عوام اپنی روزمرہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی مگر مؤثر تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ تعلیمی ادارے نئی نسل کو اس فلسفے سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ یہ ساری اجتماعی کوششیں ہی درحقیقت تیز تر ترقی اور گرین وزڈم کے درمیان پائیدار ہم آہنگی پیدا کر سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے