پاکستان اور افغانستان کے حالیہ تصادم اور مذاکراتی کوششیں اس حلقۂ بحث کا مرکب ہیں جس میں جغرافیہ، سیاست اور تاریخ ایک دوسرے سے بری طرح الجھتے نظر آتے ہیں۔ دونوں فریقوں کی بیداری اور فہم اگر بروئے کار آ جائے تو خون ریزی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مذاکرات کی بگڑتی لہریں ظاہر کرتی ہیں کہ جذبات اور مفادات کی کشمکش ہی اصل رکاوٹ بنتی ہے، جس کے نتیجے میں عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ جہاں سرحدی تناؤ نے معاشی بندشیں اور تجارتی رکاوٹیں پیدا کی ہیں، وہیں سب سے زیادہ کمزور طبقے یعنی عورتیں اور بچے روزمرہ کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو کر زندگی کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ طبی سہولیات کے فقدان میں حاملہ خواتین کو خطرات لاحق ہیں اور بچوں کی پرورش و نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ اسکول بندش اور بے یقینی کے ماحول نے نسلِ نو کے مستقبل کو تاریک کر دیا ہے۔ یہ خسارہ محض اکائونٹنگ کی شکل میں نہیں بلکہ انسانی جان و مال اور تحفظ و ترقی کی قیمت پر پڑ رہا ہے۔
دونوں ممالک میں جامع اور مؤثر مذاکرات کا جو سلسلہ ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں چلا ہے اس کو خلوص کے ساتھ کامیابی کی جانب بڑھانا ضروری ہے۔ فائر بندی اور مانیٹرنگ کے وعدے اگرچہ خوش آئند ہیں، مگر زمین پر ان کے اثرات تبھی مثبت ہوں گے جب نگرانی شفاف، غیر جانبدار اور مستقل ہو ورنہ جھڑپیں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سیاسی زبان میں سختی اور عوامی بیانیہ میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے، جس سے خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے درکار معاشرتی ڈھانچا کمزور پڑ رہا ہے۔ ذہنی صدمے اور جنگی واقعات کے بعد بچوں میں خوف، گھبراہٹ اور تعلیمی پیچھڑاپن واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ آثار اگلی دہائیوں تک معاشرے کو متاثر کریں گے۔ خواتین کے حاملہ ہونے کی صورت میں ادویات، محفوظ ولادت اور نیوٹریشن کی کمی موت اور معذوری کے امکانات بڑھاتی ہے۔ نتیجتاً، طویل مدتی صحتی اور سماجی اثرات کی قیمت قومی ترقی کو مفلوج کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مانیٹرنگ کا نظام صرف سیاسی فریم ورک نہیں بلکہ انسانی تحفظ کا ضامن ہونا چاہیے۔
تاریخی اور سیاسی پس منظر میں قبائلی جذبات اور نظریاتی اختلافات نے امن مذاکرات کو پیچیدہ بنایا ہے۔ یہاں پر سچی کامیابی صرف اس وقت ممکن ہوگی جب لیڈرشپ مفادات سے بالاتر ہو کر انسانی ضیاع کی روک تھام کو اولین ترجیح دے۔ جنگی چنگاریاں جس تیزی سے عام شہری آبادی میں پھیلتی ہیں، اس کا سب سے زیادہ نشانہ خواتین اور بچے بنتے ہیں جن کے پاس نقل مکانی، خوراک اور حفاظتی پناہ گاہوں کا فقدان ہوتا ہے۔ معیاری صحت اور نفسیاتی مدد کی عدم دستیابی سے معاشرتی ڈھانچے بکھرنے لگتے ہیں اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماں کے غم اور بچے کے رونے کی آوازیں کسی بھی جنگی گماں سے کہیں زیادہ درد ناک ہوتی ہیں۔ یہ آوازیں سماجی انصاف کی ضرورت کی علامت ہیں۔ اس سب کے بیچ، مذاکراتی عمل میں خواتین کی نمائندگی بڑھانا ایک عملی ضرورت بن جاتی ہے تاکہ پالیسیاں زمین پر مؤثر انداز میں نافذ ہوں۔ بصیرت افروز اقدامات کے بغیر کاغذی معاہدے صرف سطحی سکوت فراہم کریں گے۔
اقتصادی نقصان، سرحدی رکاوٹیں اور تجارتی بندشیں غریب گھرانوں کی روایتی کمائی کے ذرائع بند کر دیتی ہیں۔ جب وسائل کم ہوں تو خواتین گھر کے اندر بھی حفاظت اور رزق کے لیے سنگین مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ بچوں کے تعلیمی امکانات کم ہو کر اُن کا مستقبل کمزور ہو جاتا ہے اور مزدور بننے کی عمر میں پہنچتے ہی وہ محض بقا کی جنگ میں الجھ جاتے ہیں۔ زخم جسم پر جلد بھر بھی جائیں تو نفسیاتی لکیریں نسلوں تک باقی رہتی ہیں۔ یادداشتیں، خوف اور عدم تحفظ نئی نسل کی شراکتِ زندگی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ خوراک کی قلت اور صحت کی ناقص سہولتیں قد آور بچوں کی جسمانی نشوونما روک دیتی ہیں، اس کا اثر قومی سطح پر انسانی سرمایہ کی کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے بحران میں خواتین عام طور پر گھریلو سپورٹ نیٹ ورک کی مکمل ذمہ داری اٹھاتی ہیں، جس سے ان کی ذاتی ترقی اور معاشی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا امن کی قیمت صرف بندوقیں خاموش کرانے میں نہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کے معیارِ زندگی کی بحالی میں پوشیدہ ہے۔
جنگی ماحول میں خواتین کو پابندیاں اور خطرات دوہری شکل میں ملتے ہیں وہ نہ صرف براہ راست جسمانی خطرات سے دوچار ہوتی ہیں بلکہ نقل مکانی، جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد جیسی صورتوں کا شکار بھی بنتی ہیں۔ بے گھر مادرِ خانہ کے لیے خوراک کی تلاش، بچوں کی دیکھ بھال اور بنیادی طبی امداد تک رسائی ایک پیچیدہ اور خطرناک سفر بن جاتی ہے۔ ایسے حالات میں اہم ادارے ہسپتال، سکول اور امدادی مراکز یا تو تباہ ہوتے ہیں یا محدود کام کرتے ہیں، جس سے مخصوص ضرورتیں لاحق خواتین پوری نہیں ہوتیں۔ جن خواتین نے رکاوٹوں کے باوجود اپنے خاندان کا سہارا بن کر کمیونٹی میں استحکام پیدا کیا ہوتا ہے، وہی سب سے زیادہ دھچکے کھاتی ہیں۔ اس نقصان کو توڑنے کے لیے فوری امداد ناگزیر ہے جس میں خواتین تک رسائی، حفاظتی پناہ اور صحت کی سہولیات شامل ہوں۔ امن کا حقیقی مطلب خواتین کے تحفظ اور وقار کی یقینی دہانی ہونا چاہیے۔
سماجی ڈھانچے ٹوٹنے سے خواتین کی روایتی کمیونٹی سپورٹ بھی مجروح ہوتی ہے۔ مشاورتی حلقے، بزرگوں کی ثالثی اور برادرانہ تعاون کا فقدان خاندانی بحران کو بڑھا دیتا ہے۔ جب مرد معاشی یا دفاعی محاذ پر مشغول ہوں تو خواتین کو سماجی ذمہ داریوں کا بار زیادہ برداشت کرنا پڑتا ہے، اس سے ان کے تعلیمی یا پیشہ ورانہ امکانات کمزور پڑتے ہیں۔ متبادل روزگار یا ہنر کی فراہمی کی کمی خواتین کو معاشی طور پر منحصر رکھتی ہے، جو طویل مدتی استحکام کے لیے خطرناک ہے۔ خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت اور معاشرتی شمولیت میں کمی سے گھریلو تشدد اور استحصال کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ بحالی کے منصوبوں میں خواتین پر مبنی اسکیمیں، مائیکروفنانس اور ہنر مندی کے مواقع شامل کرنا صرف انصاف کی بات نہیں بلکہ معاشی حکمتِ عملی بھی ہے۔ مضبوط خواتین مضبوط معاشرہ بناتی ہیں، اور یہی امن کی بنیاد کو تقویت دیتی ہیں۔
جنگی ضابطوں کی خلاف ورزی اور شفافیت کا فقدان تنازعات کو بڑھا دیتا ہے۔ جب سزائیں یا معاوضے منصفانہ طور پر نافذ نہیں ہوتے تو متاثرین میں تلخی اور عدم اعتماد جنم لیتا ہے۔ واضح ضابطۂ کار کی عدم موجودگی خواتین اور بچوں کے حقِ تحفظ کو کمزور کرتی ہے کیونکہ شکایات کا ازالہ مشکل یا ناممکن ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ثالثی اور نگرانی ایسے مواقع پیدا کر سکتی ہے جن سے شواہد جمع کیے جائیں، متاثرین کو انصاف ملے اور مستقبل میں خلاف ورزیوں کی روک تھام ممکن ہو۔ مگر یہ تبھی مؤثر ہوگا جب مقامی ادارے اور سماجی رہنما شفافیت اور شمولیت کے ساتھ شراکت کریں گے۔ مقامی سطح پر اعتماد سازی متاثرین کی بحالی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی ضمانتِ زندگی کے لیے۔ اسی لیے مقامی سماجی نیٹ ورکس اور بین الاقوامی مانیٹرنگ کا تال میل بہت ضروری ہے۔
سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ طاقت کے توازن سے زیادہ انسانیت کو مقدم رکھیں۔ اگر مفاد پرستی اور قوم پرستی نے دائرۂ عمل محدود کر دیا ہے تو خالص انسانی نقطۂ نظر اپنانا لازمی ہے تاکہ خواتین اور بچوں کے نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ دنیا کی توجہ اور مدد اس وقت مفید ثابت ہو سکتی ہے جب وہ مقامی حساسیت، ثقافتی حرمت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے امدادی منصوبے ترتیب دے۔ بیرونی مداخلتیں عموماً پیچیدگیاں بڑھا دیتی ہیں، مگر معاہدوں میں فعال ثالثی اور امدادی شراکت داریوں کے صحیح نقشہ سے نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی مناسبت سے مدبرانہ قیادت اور دانشورانہ مداخلت امن کی راہوں کو ہموار کرتی ہے۔ انسانی نقطۂ نظر کو فروغ دینے والے اقدامات۔جیسے خوراک، تعلیم، صحت اور نفسیاتی معاونت فوری اور طویل المدتی فوائد فراہم کریں گے۔
دونوں جانب کی قیادتوں کو اب فوری اور واضح پیغام دینا ہوگا کہ طویل المدتی نقصان کسی ایک فریق کی فتح کا ثبوت نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس، معاشرتی تباہی اور انسانی جانی و مالی خسارے دونوں کو کھا جائیں گے۔ خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے فوری پالیسیز اور ہنگامی فنڈز مختص کیے جائیں، بحالی کے دور میں انہیں خاص ترجیح دی جائے اور امدادی چینلز کو محفوظ بنایا جائے۔ امن کا سفر محض سفارتی بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات، شواہد پر مبنی ازالہ اور شمولیتی پالیسیاں لاگو کرنے سے طے پاتا ہے۔ اگر معاملات کے حل کے لیے اعلیٰ سطحی مذاکرات کامیاب ہوں تو اس کا حقیقی مؤثر معیاری پیمانہ عام شہریوں کی زندگی میں بہتری ہوگا، خاص طور پر اُن بچوں اور ماؤں کی جو سب سے زیادہ لاچار ہیں۔
بخدا بھائی چارہ اور انسانی ہمدردی ہی وہ اصل اثاثہ ہیں جو سرحدی تناؤ کے زخموں کو مندمل کر سکتے ہیں۔ دونوں قوموں کو چاہیے کہ اپنے مفاد کو وقتی فتوحات سے اوپر رکھ کر انسانی تباہی روکنے کا عملی مظاہرہ کریں۔ امن کا مزاج تبھی پائیدار ہوگا جب خواتین کی حفاظت، بچوں کی تعلیم اور صحت کو مرکزی ترجیح دی جائے گی اور اس کے لیے مانیٹرنگ، شفافیت اور بین الاقوامی تعاون یکساں طور پر کام کریں گے۔ تاریخی رشتے اور ثقافتی قربت کو بنیاد بنا کر مشترکہ ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں تاکہ نسل نو کی امیدیں دوبارہ روشن ہوں۔ یہ وقت عمل دکھانے کا ہے الفاظ کم، اقدام زیادہ تبھی ہم ایک پُرامن، محفوظ اور باوقار معاشرہ تخلیق کر سکیں گے جہاں عورتیں آرام سے چل سکیں اور بچے بے خوف ہو کر تعلیم حاصل کریں۔