پنجاب پر ایک صدیوں پرانا الزام

تاریخ کبھی صرف ماضی نہیں ہوتی، یہ حال پر پڑا ہوا وہ سایہ ہے جو قوموں کے فہم اور خودی کو یا تو روشن کرتا ہے یا گمراہ۔ پنجاب کے بارے میں ایک ایسا ہی سایہ صدیوں سے ڈالا جا رہا ہے، ایک گہرا، مصنوعی سایہ جس کے نیچے یہ الزام چھپا دیا گیا کہ پنجاب ہمیشہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتا آیا ہے کہ یہ دھرتی ان کے لیے دروازے کھول دیتی تھی، کہ یہاں کے لوگ غلامی پر راضی اور مزاحمت سے عاری تھے۔ مگر جو کوئی بھی پنجاب کی مٹی کی خوشبو اس کے خون کی تاریخ اس کے زخموں کی لکیریں اور اس کی مزاحمت کی سرگوشیاں سن سکتا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے۔

پنجاب وہ سرزمین ہے جس نے ہر حملہ آور کے سامنے سب سے پہلے اپنی تلوار اٹھائی۔ یہ خطہ تاریخ کی اس دھرتی کا پہلا قلعہ تھا جو ہر بیرونی یلغار کے سامنے سینہ سپر ہوا۔ سکندر اعظم جب یونان سے نکلا تو ترکی، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے شہروں کو باآسانی روندتا ہوا آگے بڑھا۔ کسی نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ مگر جب وہ پنجاب پہنچا تو یہاں کی فضا میں وہ خاموشی نہ تھی جو باقی زمینوں میں تھی۔ جہلم کے کنارے راجہ پورس نے اس کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ پنجاب کی دھرتی نے پہلی بار سکندر کے گھوڑے کو گرا دیا، اور زہریلے تیر سے زخمی ہونے والا سکندر واپس جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ یہاں سے پنجاب کی مزاحمت کا سفر شروع ہوا اور آج تک ختم نہیں ہوا۔

پھر جب محمود غزنوی کی فوجیں ملتان کی طرف بڑھنے لگیں، تو انہیں راجہ انند پال کی سرزمین سے گزرنے کی ضرورت تھی۔ انند پال نے انکار کیا وہ ایک پنجابی راجہ تھا، جس نے اس لشکر کو گزرنے نہ دیا جو اپنے نام کے ساتھ اسلام کا پرچم مگر دل میں ملک گیری کی ہوس لیے ہوئے تھا۔ محمود غزنوی نے حملہ کیا، جنگ لڑی اور اگرچہ جیت گیا، مگر اس کے بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ پنجاب کبھی کسی کے آگے جھکنے والا نہیں۔ محمود ملتان پہنچا تو وہاں کے عرب حاکم ابو داؤد نے خراج دے کر صلح کر لی، مگر پنجاب کے راجے نے خراج نہیں دیا، خون دیا۔

غزنوی کے بعد بھی یہ زمین سکون سے نہ بیٹھی سات صدیوں تک پٹھانوں اور سادات کے زیرِ تسلط رہنے کے باوجود پنجابی عوام کی روح میں بغاوت کی چنگاری بجھی نہیں۔ جسرت کھوکھر، سلطان سارنگ، اور گکھڑ جوان جیسے کرداروں نے تاریخ کے اندھیرے میں وہ روشنی جلائی جس نے آنے والے عہدوں کے لیے راستہ روشن کیا اور پھر ادینہ بیگ ارائیں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ثابت کیا کہ پنجاب کی خودی زندہ ہے، کہ یہ قوم دوبارہ اٹھ سکتی ہے۔

اگر شمال، جنوب اور مشرق میں رہنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں اور انگریزوں کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے، تو یہ حملہ آور پنجاب تک پہنچ ہی نہ پاتے۔ مگر جب باقی خطے شکست کھا چکے، تو ان کا آخری دفاعی مورچہ ہمیشہ پنجاب ہی رہا۔ پھر بھی الزام اسی پر لگا کہ یہ خطہ حملہ آوروں کا ساتھی تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب وہ آخری قلعہ تھا جو سب کے بعد گرتا تھا۔

انگریزوں کے عہد میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی۔ ہندوستان کا ہر صوبہ ایک ایک جنگ میں زیر ہو گیا، مگر پنجاب دس بڑی اور دو چھوٹی جنگوں کے بعد شکست کھا سکا۔ مُدکی، فیروز شاہ، بدووال، علی وال، سعداللہ پور، ملتان، رسول نگر، سبھراوں، گجرات اور چیلیانوالا یہ وہ میدان ہیں جہاں پنجابی سپاہیوں نے انگریز فوج کو ہلا کر رکھ دیا۔ چیلیانوالا کی جنگ تو برصغیر کی سب سے خونریز جنگ مانی جاتی ہے، جس میں ہزاروں پنجابیوں نے اپنی جان قربان کی۔

مگر پنجاب کی مزاحمت صرف تلوار تک محدود نہیں رہی۔ جب انگریز نے اپنی طاقت کے زعم میں خود کو ناقابلِ شکست سمجھا، تب پنجاب نے فکری، سیاسی اور عوامی تحریکوں کے ذریعے اسے للکارا۔ دُلا بھٹی نے اکبر کے خلاف بغاوت کی، حضرت مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے سامنے کلمۂ حق کہا، رائے احمد خان کھرل نے جھنگ کے میدانوں میں انگریز کو للکارا۔
پھر وہ وقت آیا جب کوکا لہر، پگڑی سنبھال جٹا، بھرتی بند تحریک، غدر پارٹی، ناں مل ورتن، نوجوان بھارت سبھا، انڈین سوشلسٹ ریپبلکن آرمی، تحریکِ حریتِ کشمیر، ریشمی رومال تحریک، اینٹی رولٹ ایکٹ تحریک، تحریکِ ہجرت، نیلی پوش، خاکسار، مجلس احرار، کیرتی کسان پارٹی سب نے ایک ہی صدا لگائی آزادی یہ تمام تحریکیں اسی سرزمین سے اٹھیں ۔

آزاد ہند فوج کے دونوں جرنیل جنرل شاہنواز اور جنرل موہن سنگھ پنجابی تھے۔ اس فوج کے اسی فیصد سپاہی پنجاب کے بیٹے تھے۔ وہی پنجاب جس پر ہمیشہ وفاداری کا الزام لگایا گیا، دراصل آزادی کی سب سے بڑی قربان گاہ تھا۔

انگریزوں کے ظلم کا سب سے زیادہ نشانہ بھی یہی خطہ بنا۔ جلیانوالا باغ کے قتلِ عام نے زمین کو خون سے رنگ دیا۔ مارشل لا سب سے پہلے یہاں لگا، فضائی بمباریاں بھی پنجاب کے شہروں پر ہوئیں، کالے پانی کی سب سے زیادہ سزائیں پنجابیوں کو ملیں، اور آزادی کی جدوجہد میں سب سے زیادہ پھانسیاں بھی اسی خطے کے حصے میں آئیں۔ بھگت سنگھ، راج گرو، ادھم سنگھ، نظام لوہار، ملنگی، جگا سب اسی دھرتی کے سپوت تھے۔ ادھم سنگھ نے تو جلیانوالا باغ کے قصائی جنرل ڈائر کا پیچھا لندن تک کیا اور اسے وہیں جا کر موت کے گھاٹ اتارا۔

پنجاب کے خلاف یہ الزام کہ اس نے ہمیشہ حملہ آوروں کا ساتھ دیا، تاریخ کی بدترین بددیانتیوں میں سے ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مقامی برادریوں کے وہ لوگ جو مسلمانوں میں شامل ہوئے، ان میں سے اکثر وہ تھے جو حملہ آوروں کے ساتھ آئے یا بعد میں بلائے گئے تاکہ سول اور فوجی انتظامیہ میں خدمات انجام دیں۔ ان کی اولاد نے خود کو مقامی ظاہر کیا اور پنجاب کے اصل باشندوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ ہر حملہ آور کو ہیرو بنا دیا گیا چاہے وہ سکندر ہو، چنگیز ہو، تیمور ہو، بابر ہو یا احمد شاہ ابدالی۔

احمد شاہ ابدالی کا تذکرہ تو ہماری درسی کتب میں ہیرو کے طور پر کیا جاتا ہے، حالانکہ نادر شاہ کے قتل کے بعد جب ایران پر حملہ کیا گیا تو وہاں نہ مرہٹے تھے، نہ سکھ، نہ ہندو وہ مکمل مسلم آبادی کا علاقہ تھا۔ ابدالی نے مذہب کے نام پر نہیں، دولت اور طاقت کے لیے خون بہایا مگر ہم نے اسے ہیرو بنا دیا۔ یہی پنجاب کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سب سے بڑی مثال ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پنجاب وہ سرزمین ہے جس نے کبھی غلامی قبول نہیں کی اس نے ہر حملہ آور کا سامنا کیا، ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، اور ہر طاقت کو للکارا۔ اگر پنجاب نے مزاحمت نہ کی ہوتی، تو برصغیر کی تاریخ صرف فتوحات کی داستان ہوتی آزادی کی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے