دنیا بھر میں سڑک حادثات انسانی زندگیوں کے ضیاع کی ایک بڑی وجہ بن چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں سہولتیں پیدا کی ہیں، وہیں کچھ خطرناک عادتیں بھی پیدا کر دی ہیں۔ ان میں سے ایک سب سے عام اور مہلک عادت ہے۔ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال۔ چاہے وہ کال ہو، میسج، سوشل میڈیا، یہ سب ڈرائیور کی توجہ کو تقسیم کرتے ہیں اور حادثے کے امکانات کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
ڈرائیونگ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہر لمحہ توجہ درکار ہوتی ہے۔ سڑک، ٹریفک، اشارے، پیدل چلنے والے افراد، اور دیگر گاڑیاں ان سب کا مشاہدہ ایک ساتھ ضروری ہوتا ہے۔جب ڈرائیور موبائل فون استعمال کرتا ہے تو اس کی نظریں چند سیکنڈ کے لیے سڑک سے ہٹ جاتی ہیں۔ یہ چند سیکنڈ بظاہر معمولی لگتے ہیں، مگر 80 یا 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی گاڑی کے لیے یہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ صرف پانچ سیکنڈ موبائل دیکھنے کا مطلب ہے کہ ڈرائیور تقریباً فٹبال کے میدان کے برابر فاصلہ بغیر دیکھے طے کر لیتا ہے۔اس دوران کوئی بچہ سڑک پار کر سکتا ہے، کوئی گاڑی اچانک بریک لگا سکتی ہے، یا کوئی موٹر سائیکل سامنے آ سکتا ہے۔
عالمی اور ملکی اعداد و شمار
عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 1.3 ملین لوگ سڑک حادثات میں جان کی بازی ہار دیتے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد ایسے حادثات کی ہوتی ہے جن کی وجہ توجہ کی کمی یا موبائل کا استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ٹریفک پولیس کی رپورٹس کے مطابق، شہری علاقوں میں ہونے والے حادثات میں سے تقریباً 25 سے 30 فیصد میں موبائل فون کے استعمال کو ایک بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔کراچی،لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں روزانہ درجنوں افراد اس غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔
ذہنی انتشار اور ردِعمل میں تاخیر
موبائل کے استعمال سے صرف آنکھیں ہی سڑک سے نہیں ہٹتیں، بلکہ دماغ بھی بٹ جاتا ہے۔جب ڈرائیور کال سنتا ہے یا میسج پڑھتا ہے، اس کا دماغ بیک وقت دو کام کرنے کی کوشش کرتا ہے،بات چیت کو سمجھنا اور گاڑی چلانا۔
تحقیقات کے مطابق، بات کرتے ہوئے ڈرائیور کا ردِعمل (reaction time) تقریباً 30 فیصد سست ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر عام حالت میں وہ اچانک بریک لگانے کے لیے ایک سیکنڈ لیتا ہے، تو موبائل پر بات کرتے ہوئے اسے ڈیڑھ سیکنڈ لگتے ہیں۔ یہ آدھا سیکنڈ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
قانونی پہلو
پاکستان کے بیشتر شہروں میں ٹریفک قوانین کے تحت ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال قابلِ سزا جرم ہے۔
لاہور اور کراچی میں بھی ٹریفک پولیس موبائل استعمال کرنے والے ڈرائیورز کو جرمانے، وارننگ، یا لائسنس کی معطلی کی سزا دے سکتی ہے۔
اگر موبائل کے استعمال کے باعث کوئی حادثہ پیش آ جائے تو یہ معاملہ غفلت سے جان یا مال کے نقصان کے زمرے میں آتا ہے، جو تعزیراتِ پاکستان کے تحت سنگین جرم ہے۔
محفوظ متبادل اور ذمہ داری
ٹیکنالوجی کا مقصد سہولت دینا ہے، خطرہ نہیں۔اگر آپ کو ڈرائیونگ کے دوران کسی ضروری کال یا میسج کا جواب دینا ہو تو چند سادہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔
گاڑی ایک طرف روک لیں۔
اگر ممکن ہو تو محفوظ جگہ پر گاڑی روک کر فون استعمال کریں۔
ہینڈز فری یا بلوٹوتھ استعمال کریں
مگر یاد رکھیں کہ یہ بھی مکمل محفوظ نہیں بات چیت دماغی توجہ کو کم کرتی ہے۔
نیویگیشن پہلے سیٹ کریں۔ راستہ طے کرنے سے قبل GPS یا نقشہ آن کریں تاکہ دورانِ سفر سکرین پر نظر نہ ڈالنی پڑے۔
نوٹیفکیشن بند کر دیں غیر ضروری ایپس یا میسجز کی آوازیں توجہ بٹاتی ہیں، انہیں خاموش کر دیں۔
سماجی رویہ اور آگاہی
ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے موبائل کا استعمال ایک معمول بن چکا ہے۔نوجوان ڈرائیور اکثر سیلفی لیتے ہیں یا ویڈیوز بناتے ہیں، جس سے وہ خود اور دوسروں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور ڈرائیونگ سینٹرز میں سڑک کے آداب اور محفوظ ڈرائیونگ کی تربیت کو فروغ دیا جائے۔ میڈیا مہمات، اشتہارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو مسلسل آگاہی دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال بظاہر معمولی عمل لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک مہلک غلطی ہے۔ چند لمحوں کی غفلت زندگی بھر کا پچھتاوا بن سکتی ہے۔ ایک کال یا میسج کبھی بھی اتنا اہم نہیں ہو سکتا کہ اس کے بدلے کسی کی جان چلی جائے۔
لہٰذا، اگر آپ اپنی اور دوسروں کی زندگی کی قدر کرتے ہیں تو جب بھی گاڑی چلائیں۔فون دور رکھیں، دھیان سڑک پر رکھیں۔