آکسفیم کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال امریکا کے دس امیر ترین ارب پتی افراد کی مجموعی دولت میں 698 ارب ڈالر کا حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان میں ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک، ایمیزون کے بانی جیف بیزوس، اوریکل کے شریک بانی لیری ایلیسن، اور میٹا کے سربراہ مارک زکربرگ جیسی معروف شخصیات شامل ہیں۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں نافذ کی گئی پالیسیوں کے ممکنہ اثرات سے امریکا میں معاشی عدم مساوات خطرناک حد تک بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں کی حکومتوں کے دوران امیر اور غریب کے درمیان فرق میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے ایک اور تشویشناک پہلو کے مطابق، امریکا کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی کم آمدنی والے گھرانوں میں شمار کی جاتی ہے، جن کی سالانہ آمدنی قومی غربت کی لکیر کے دو گنا سے بھی کم ہے، یہ صورتحال ملک میں معاشی تقسیم کی گہری خلیج کو واضح کرتی ہے۔
دنیا بھر میں ہر طرف پھیلی ہوئی بے چینی، بحرانوں اور سماجی خرابیوں پر غور کیا جائے تو ایک بنیادی مسئلہ ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے اور وہ ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم۔ یہ محض ایک معاشی اصطلاح نہیں، بلکہ وہ بنیادی خرابی ہے جس سے معاشی، معاشرتی، سیاسی، ذہنی، جذباتی اور حتیٰ کہ ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
دولت بنیادی طور پر انسانی سماج کی سیرابی کا ذریعہ ہے کہ اسے انصاف، اعتدال، ادراک، محنت، مہارت اور استحقاق کی بنیاد پر تقسیم کر کے تمام افراد اور اقوام کو ترقی اور خوشحالی کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں لیکن اگر ان اصولوں کو نظر انداز کر کے غلط طریقوں سے اس کو تقسیم، حاصل اور استعمال کیا جائے تو یہ طرزِ عمل دنیا میں بے شمار مسائل اور بحرانوں کا سبب بنتا ہے کچھ لوگ اور طبقے محرومیوں کی وجہ سے خشک رہ جاتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے عیاشیوں میں ڈوب جاتے ہیں اور یوں پورے انسانی سماج کو درست طور پر دولت سے مستفید ہونے کا موقع میسر نہیں آتا۔
غربت اور امارت کے درمیان بڑھتا ہوا فرق محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں۔ یہ وہ دیوار ہے جو معاشرے کو دو متصادم حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جب دنیا کی نصف آبادی کے پاس دولت کا محض دو فیصد ہو، جبکہ صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس دنیا کی پینتالیس فیصد دولت جمع ہو، تو یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ عالمی معاشی نظام میں کوئی بہت بڑی اور بنیادی خرابی موجود ہے۔
معاشی ناانصافی کے اثرات محض بینک بیلنس تک محدود نہیں رہتے۔ یہ تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف تک رسائی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک امیر شخص کے لیے معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات حاصل کرنا آسان ہوتا ہے، جبکہ غریب کے لیے یہی سہولیات خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس طرح ناانصافی کی یہ شکلیں نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔
سیاست پر دولت کے غلبے نے جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو مجروح کیا ہے۔ دولت مند طبقہ سیاسی عمل کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے، جبکہ غریب کی آواز ہمیشہ دب کر رہ جاتی ہے۔ اس سے حکومتی پالیسیاں عوامی مفاد کے بجائے مخصوص طبقات کے مفادات کے گرد گھومنے لگتی ہیں۔
غربت اور محرومی نے دنیا بھر میں شدید عدم استحکام کو جنم دیا ہے۔ جب لوگوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، تو وہ انتہائی اقدامات پر اتر آتے ہیں۔ دہشت گردی، سنگین جرائم کا ارتکاب اور سماجی بدامنی کی اکثر و بیشتر جڑیں معاشی محرومی میں پیوست ہیں۔
ماحولیاتی بحران بھی اس ناانصافی سے الگ مسئلہ نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے صنعتی انقلاب کے بعد ماحول کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، لیکن اس کی قیمت پوری انسانیت کو چکانی پڑ رہی ہے۔ غریب ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے برے اثرات بھگت رہے ہیں، حالانکہ اس مسئلے کی پیدائش میں ان کا کردار سب سے کم ہوتا ہے۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے بنیادی انسانی قدروں کو بھی شدت سے مجروح کیا ہے۔ معاشرے میں ہمدردی، رواداری اور باہمی احترام کی جگہ مادہ پرستی، خود غرضی اور طبقاتی تفاخر نے لے لی ہے۔ انسانیت کی بنیادی اقدار اس مادی تقسیم کی نذر ہو رہی ہیں۔ انسان کی بطور انسان قدر و قیمت نہیں بلکہ مالی اور مادی اسباب اس امر کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ کون عزت کا مستحق ہے اور نظر انداز کرنے کا۔
مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک دراز، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے مسئلے کا حل پیچیدہ ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ منصفانہ معاشی پالیسیاں، ترقی کے مواقعوں کی مساوی تقسیم، سماجی تحفظ کے اقدامات، اور تعلیم و صحت تک یکساں رسائی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی سطح پر تجارتی انصاف،ضرورت پڑنے پر امداد کی دستیابی اور قرضوں کے منصفانہ نظام کی بھی ضرورت ہے۔
دنیا میں انصاف کا قیام محض قانونی ضابطوں کے نفاذ سے ممکن نہیں، بلکہ ایک ایسے جامع نظام کا متقاضی ہے جہاں ہر فرد کو بنیادی حقوق، مواقع اور عزت یکساں طور پر میسر ہوں۔ اس کی بنیاد اداروں کی شفافیت، آزاد عدلیہ کا قیام اور ایسے قوانین بنانے پر منحصر ہے جو طاقتور اور کمزور کے درمیان فرق مٹا کر یکساں تحفظ اور مواقع فراہم کریں۔
جب انصاف کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل پاتا ہے تو عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھتا ہے، سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور ہر شہری خود کو ریاست کا ایک قیمتی حصہ سمجھتا ہے۔ یہ اعتماد اور تحفظ ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر خوشحالی کی عمارت استوار ہوتی ہے، کیونکہ ایک منصفانہ نظام ہی کسی ملک میں سرمایہ کاری، جدت طرازی، سلامتی اور محنت و مہارت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتا ہے۔
خوشحالی کو دوام دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کی بنیاد معاشی انصاف پر نہ رکھی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت میں پیدا ہونے والی دولت صرف چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کے بجائے سماج کے تمام طبقات تک پہنچے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے یکساں مواقع بطورِ حقوق ہر شہری کے لیے تسلیم ہونے چاہئیں۔
پائیدار خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ترقی کا رخ اجتماعی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے متعین ہو، تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس کے ثمرات سے محروم نہ رہیں۔ ایسی معیشت جو استحصال، جبر اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر کھڑی ہو، وہ کبھی بھی حقیقی خوشحالی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ لہٰذا، خوشحالی اور انصاف دو الگ راستے نہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
انصاف اور خوشحالی کے اس مقدس رشتے کو پروان چڑھانے کے لیے بین الاقوامی تعاون اور یکجہتی ناگزیر ہے۔ ایک مربوط عالمی گاؤں میں کسی ایک خطے کی عدم مساوات یا بدحالی کا براہ راست اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑتا ہے۔ لہٰذا، عالمی اداروں، ممالک اور سول سوسائٹی کو مل کر ایسا عالمی ڈھانچہ وضع کرنا چائیے جو تجارت، معاونت، صحت اور سلامتی کے معاملات میں انصاف کو یقینی بنائیں۔
علم و ہنر کے تبادلے، ثقافتی ہم آہنگی اور مشترکہ انسانی قدروں کی پاسداری ہی وہ بنیادی ذریعہ ہے جو دنیا بھر میں امن اور خوشحالی کو مستقل بنیادوں پر استوار کر سکتا ہے۔ کیونکہ حقیقی خوشحالی تب آتی ہے جب دوسرے افراد اور اقوام کے دکھ درد میں شرکت ہو اور انصاف کا دائرہ کار صرف اپنی قوم تک محدود نہ رہے۔
دولت کی منصفانہ تقسیم محض معیشت کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق اور سماجی انصاف کا بنیادی تقاضا بھی ہے۔ جب تک ہم اس بنیادی مسئلے کو حل نہیں کریں گے، دنیا کے دیگر بحران حل ہوتے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک ایسے نظام کی تعمیر کریں جہاں ہر انسان کو عزت، تحفظ اور مواقع کی یکساں دستیابی یقینی ہو۔