لینن پارک کے پھول

آرام کرنے کے بعد اُٹھے تو عصر کا وقت اور بھوک زوروں پر تھی، کھانے کیلئے باہر کا قصد کیا، ہوسٹل میں زیادہ تر پاکستانی، افغانی و انڈین سٹوڈنٹ، تیسرے فلور پر دیگر قومیتوں کے سٹوڈنٹ بھی رہائش پذیر تھے یعنی ایک طرح مکس ہوسٹل تھا، کوریڈور میں کچھ افراد سے تعارف ہوا، ہوسٹل کا مین دروازہ کھول کر باہر نکلے، سامنے سڑک کے پار بہت بڑی بلڈنگ کی پیشانی پر رشین میں داستان لکھا نظر آیا، ہم اس طرف ہولئے، خوب لش پش عمارت، وسیع پارکنگ، ترتیب سے نشانات، معلوم ہوا کہ یہ شہر کا سب سے بڑا ڈسکو کلب ہے، جو اس وقت بند اور شام کے بعد کھلے گا.

واپس ہوسٹل کی طرف آئے، وہاں موجود افراد سے قریبی ریستوران کا پوچھا، انہوں نے کھانے کی پیشکش کی تو کہا "پھر کبھی ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے ابھی یہ علاقہ دیکھنا چاہتے ہیں.” ایک نے راستہ بتایا کہ ہوسٹل کی بائیں طرف لینن سٹریٹ پر چلتے جاؤ، بہت سارے ریسٹورنٹ ملیں گے.” ہم اس طرف ہولئے، سڑک کے دونوں اطراف اونچے، گھنے وسایہ دار درخت، سابقہ سوویت یونین کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہر سڑک پر ایسے مناظر وافـر ملتے ہیں، ہوسٹل کے ساتھ واقع چوک کراس کرکے آگے بڑھے، تھوڑا آگے دفاتر اور کمرشل عمارتیں از سامان ہرقسم، یہاں ایک چوراہا تھا، تھوڑا مزید آگے بڑھے تو لینن پارک کا بورڈ نظر آیا، پارک میں داخل ہوئے، دائیں طرف اوپن ایئر ڈسکو کا بورڈ نظر آیا، داخلہ فیس پچاس تنگے یعنی پاکستانی کرنسی میں تقریبا پچیس روپے، اس کے ساتھ نشانہ بازی سٹال، فی نشانہ قیمت بیس تنگے، نشانہ لگاؤ اور اپنی قسمت آزماؤ، اس کے بعد آئسکریم کے فریزر اور پاپ کارن والے، پارک کا رقبہ، لگ بھگ چار سے پانچ ایکڑ مربع شکل، عین وسط میں گول فوارہ نصب، گھنے اونچے درختوں میں گھرا ہوا، پیدل واک کیلئے بہترین ٹریک، بیٹھنے کیلئے لکڑی اور لوہے سے بنے بنچ، پارک بہت خوب صورت بنا ہوا، اس وقت زیادہ رونق نہیں تھی.

پارک سے گذرتے ہوئے دوسری طرف کے مین گیٹ سے باہر جا نکلے، عین سامنے سڑک کے پار آبائی میوزیم تھا، پارک کی بیرونی سڑک کے ساتھ دائیں بائیں پھولوں کے کیوسک یعنی سٹال ہی سٹال، یہاں رونق زیادہ تھی، نوٹ کیا کہ ہر سٹال پر لڑکیاں بطور سیلز گرل تھیں، گذرتے ہوئے سٹالوں کو دیکھا، پھولوں سے زیادہ پھول بیچنے والیاں خوب صورت تھیں، رشین لڑکیوں کی خوب صورتی دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، لڑکیاں سچ مچ کی پریاں ہی نظر آتی تھیں، نازک اندام، خوش گفتار، ہر کوئی آتے جاتے بلاوجہ مسکراہٹ کا تبادلہ کرتا، کسی کو گھور کر دیکھنا بہت معیوب سمجھا جاتا.

دو لڑکیاں پھول ہاتھ میں پکڑے سٹال کے باہر کھڑی آوازیں لگا رہی تھیں، چند ایک سے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، ہر سٹال اپنی بناوٹ میں خوب است تھا، تازہ پھول، کئی سٹال کے اندر نصب ایئر کنڈیشنر اس وقت بند تھے، یہ موسم گرما میں پھولوں کی تازگی اور مہک برقرار رکھنے کیلئے استعمال ہوتے تھے، سٹالوں کی طرف دیکھتے ہوئے میں اچانک کسی سے ٹکرایا اور بغیر دیکھے فورا "از وی نمسیا” یعنی آئی ایم سوری کا ورد کیا، ٹکرانے والی ایک سیلز گرل تھی جو میری طرح بغیر دھیان چل رہی تھی.

وہ رشین میں کچھ بولی جو میرے پلے بالکل نہ پڑا، یقینا یہی کہا ہوگا "اندھے ہو کیا؟ دیکھ کر نہیں چل سکتے؟” میں معذرت آمیز انداز میں دہرایا "از وی نمسیا، یا نووی ستودنت، یا نی زنایُو روسکی.” یعنی آئی ایم سوری، میں نیا سٹوڈنٹ ہوں، میں رشین زبان نہیں جانتا.” یہ سن کر وہ مسکرائی، دائیں ہاتھ کو ہوا میں بلند کرکے پیچھے کی طرف جھٹکا دیا کہ چلو کوئی بات نہیں اور ہاتھ میں پکڑا پھول مجھے پیش کر دیا، "ایتا دِلیا تِبیا، بز پلاتنو.” میں مسکرا کر شکریہ ادا کیا لیکن وہ بضد رہی اور بار بار "بزپلاتنو” بولتی رہی، میری ہچکچاہٹ پراس نے پھول میرے ہاتھ میں تھما کر میری مٹھی زور سے بند کر دی، اس کا دل رکھنے کیلئے مجھے قبول کرنا پڑا، بعد میں معلوم ہوا کہ بز پلاتنو کا مطلب مفت ہے.

میں نے ہمت جمع کرکے ایک ہاتھ پیٹ پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے لقمہ بنا کر اشارے سے اسے پوچھا کہ آس پاس کھانے کیلئے کوئی ریسٹورنٹ ہے، وہ ہنسی اور دائیں طرف جانے کا اشارہ کیا، میں اسے اشارے سے پوچھا کہ وہاں سے تمہارے کھانے کیلئے کچھ لیکر آؤں تو "سپی سیبا، سپی سیبا” یعنی شکریہ شکریہ کہنے لگی، آگے بڑھتے ملک یوسف معنی خیز انداز میں بولا "میرا تجربہ کہتا ہے کہ اس شہر میں تمہارا مستقبل روشن ہے.”

مطلوبہ جگہ پہنچے، سامنے انٹرنیشنل ایونیو نامی سڑک کے پار راحت اور دانا نامی دو بڑے سٹور، ان کے باہر بڑے رقبے پر اوپن ایئر شاشلک کباب وغیرہ کے سٹال نظر آئے، بائیں طرف بس سٹاپ تھا، سڑک کے اُس پار جانے کیلئے انڈر گراؤنڈ پیدل کراسنگ کو عبور کیا، یہاں کافی رونق تھی، کباب اور کلیجی کی خوشبو دماغ کو مست کر رہی تھی، ایک سٹال والی سے پوچھا "ایتا شُتو؟” یعنی یہ کیا ہے، اس نے بولا "سوی نینا” یعنی سور، میں سوری بول کر دوسرے سٹال پر گیا، دوسرے سٹال والی سے پوچھا، وہ بولی "میاسا” اب میری جانے بلا کہ یہ میاسا کیا ہے، مجھے سوچ میں دیکھ کر اس نے منہ سے بیل کی طرح لمبی آواز نکالی "ہوووووووووووووں” آس پاس سب لوگ ہنسنے لگے اور میری بھی ہنسی چھوٹ گئی، اندازہ ہوگیا کہ یہ بیل کا گوشت ہے اور کھا سکتے ہیں، اسے چار سیخوں کا آرڈر دیا اور ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے، اس نے ایک بڑی ٹرے بنا سنوار کر، ہمراہ سلاد، گھر کا بنا پنیـر اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے پیش کئے، گوشت تھوڑا کچا تھا لیکن بھوک مٹانے کیلئے بہت تھا، پنیر کا ذائقہ کچھ عجیب سا تھا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ گھوڑی کے دودھ کا بنا تھا، اسے پیسے دیئے، پہلے تو انکار کرتی رہی، زبردستی اسے پکڑائے تو سینے پر ہاتھ رکھ کر تقریبا رکوع کی حالت میں سپی سیبا، سپی سیبا کہنے لگی۔

ہم فارغ ہی تھے، سوچا گھوم پھر کر میلہ دیکھتے ہیں، راحت سٹور میں گھسے، پاکستان سے باہر کسی بڑے سٹور میں یہ پہلا داخلہ تھا، ہر چیز نفاست اور خوب صورتی کا مجموعہ، سیلز گرل یہاں بھی لڑکیاں، اوپر دوسری منزل پر وہ سامان بھی برائے فروخت تھا جو پاکستان میں ممنوع ہے، جو بھی اس دکان میں داخل ہوتا وہ فقط سیلز گرل کی خوب صورتی اور آواز سے متاثر ہو کر چند سکوں کی خریداری ضرور کرتا، گویا یہ بھی فروخت بڑھانے کا ایک ہُنر ہے، باہر نکلے اور ساتھ واقع دانا مارکیٹ میں گھس گئے، یہ راحت سٹور کی ہی کاپی تھی، لیکن یہاں الیکٹرانکس کا سامان زیادہ تھا، بعد میں ہم وی سی آر کی کیسٹ یہاں سے کاپی کروانے آتے تھے، یہ تب کسی یہودی کی ملکیت تھی، یہ بات مجھے بعد میں اس یہودی کی بیٹی نے بتائی جو موسم گرما میں ہمارے گروپ کی ممبر بنی تھی.

راستہ بھول جانے کے ڈر سے واپس اسی راستے ہو لئے، اس پھول والی کا سامنا ہوا تو ایک مرتبہ پھر سے اس کا شکریہ ادا کیا، پارک کے بیرونی آہنی جنگلے کے ساتھ چلتے طرف دوسری سمت میں واقع چوراہے پر پہنچے، دائیں طرف ٹیلی کام ہیڈ کوارٹرز، اور چوراہے کے پار سامنے کچھ سیلز گرلز آئسکریم والے فریزر زمین پر رکھ کر گاہکوں کے انتظار میں تھیں، وہاں سے بائیں مُڑ کر پیدل مارچ جاری رکھا، آہنی جنگلے کے اختتام پر دائیں مُڑے اور پھر سے لینن پارک کے مرکزی گیٹ پر پہنچ گئے، وہاں سے ہوسٹل کی طرف جانے والی سڑک پر ہو لئے.

ہوسٹل کے باہر ہمیں ڈاکٹر رانا قمر جاوید فیصل آبادی اور ڈاکٹر رضوان فرام سانگلہ ہل ملے، تب یہ سب لوگ اور جن کا ذکر بعد میں آئے گا سٹوڈنٹ تھے، قمر کے والد کی جدہ میں گولڈ شاپ تھی جبکہ رضوان کے والد ڈاکٹر، بعد از تعارف انہوں نے زور دیا "آپ ہمارے مہمان ہو، آج رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ.” ان کے اصرار پر دعوت قبول کرنا پڑی، قمر کا کمرہ پانچویں فلور پر تھا، روم نمبر 507، حتی الامکان بہت زیادہ تکلف کا مظاہرہ کیا تھا، پیٹ بھر کر کھایا، ہر نئے آنے والے سٹوڈنٹ کی طرح سینیئر کے آزمودہ تجربات سنے، ان سے گذارش کی "ہم کو کرنسی تبدیل کروانی ہے اور کھانے پینے کا سامان خریدنا ہے.” قمر بولا "کل ہم بھی زیلونی بازار یعنی سبزی مارکیٹ جا رہے ہیں، آپ بھی ہمراہ آ جائیں.” رات اپنے کمرے میں گذاری، نیند اب بھی آنکھوں سے ناواقف تھی.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے