پاکستان میں آئین ہمیشہ نیم بیہوشی کے عالم میں زندہ مگر زخمی رہا ہے۔ کبھی اسے عوام کی اُمیدوں کا علم بنایا گیا، کبھی اشاروں پر موڑ دیا گیا۔ اب 27ویں مجوزہ آئینی ترمیم کی بازگشت ہے، اور ایک بار پھر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ "اصلاحات” قومی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ مگر سوال وہی پرانا ہے کہ ہم نے کب کوئی ترمیم صرف آئینی اصولوں کے لیے کی ہے؟ یہاں ہر ترمیم کے پیچھے ایک پسِ پردہ کہانی، ایک مخصوص ہدف، اور ایک فوری ضرورت چھپی ہوتی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد اداروں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔ جملہ بظاہر خوشنما ہے، مگر ہمارے ہاں توازن ہمیشہ ترازو کے دونوں پلڑوں سے نہیں، ایک طرف کے وزن سے طے ہوتا ہے۔ آئین کے اندر جس "توازن” کا ذکر ہے، دراصل وہ توازن پچھلے دروازے سے ہدایات کے ذریعے ایک پلڑے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
27ویں ترمیم کے تحت عدلیہ کے اندر ایک نئی وفاقی آئینی عدالت قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جسے "ادارہ جاتی ہم آہنگی” کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب انصاف کی بنیاد ہم آہنگی کے بجائے "مطابقت” پر رکھی جائے تو فیصلے آئین سے نہیں،اشاروں سے لکھے جاتے ہیں۔
دلچسپ تضاد یہ ہے کہ ابھی 26ویں ترمیم کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے، جس میں عدالتی خودمختاری پر بحث جاری ہے، اور اسی دوران نئی ترمیم کا مسودہ تیار ہو رہا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے عدالت فیصلہ سنانے سے پہلے ہی نیا قانون لکھ دیا جائے، تاکہ نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں اب قانون نہیں بنتے بلکہ خواہشات کو قانونی شکل دی جاتی ہے۔
ترمیم کا ایک اہم پہلو ججز کے تبادلوں سے متعلق ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب یہ تبادلے انتظامی بنیادوں پر ہوں گے۔ اگر انصاف دینے والا خود اس خدشے میں رہے کہ اس کے فیصلے کے بعد اُس کی نشست بدل دی جائے گی، تو وہاں قانون کمزور نہیں، انصاف بے بس ہو جاتا ہے۔ جب ججوں کے تبادلے “پالیسی کے مطابق” ہونے لگیں تو عدالت اور تھانے کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ پھر جس طرح ایک ایس ایچ او کو “غیر مناسب رویّے” پر ہٹایا جاتا ہے، ویسے ہی جج کو "غیر موافق فیصلے” پر تبدیل کرنا معمول بن جائیگا۔
پاکستان کی آئینی تاریخ گواہ ہے کہ ہر ترمیم نے طاقت کو نیچے نہیں، اوپر منتقل کیا ہے۔ کبھی شقیں بڑھا کر، کبھی گھٹا کر، کبھی منسوخ کر کے، کبھی بحال کر کے۔ اب بھی یہی خدشہ ہے کہ 27ویں ترمیم دراصل آئین میں نہیں، اختیار کی ترتیب میں تبدیلی ہے ایک بار پھر عوامی نمائندوں کے کندھوں سے ذمہ داری کسی اور سمت منتقل کرنے کی کوشش۔ بظاہر یہ آئینی صفائی ہے، مگر درحقیقت طاقت کے بہاؤ کو نئے راستے پر ڈالنے کی تدبیر۔
ہماری ریاستی تاریخ میں اصلاحات ہمیشہ اصولوں سے نہیں، شخصیات سے شروع ہوئی ہیں۔ قانون وہاں تک مؤثر رہتا ہے جہاں تک وہ کسی کے مفاد سے نہ ٹکرائے۔ آئین کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ کبھی نظریۂ ضرورت کے پردے میں لپیٹا گیا تو کبھی قومی سلامتی کے نام پر تہہ کر دیا گیا۔ اصل بگاڑ آئین میں نہیں، نیت میں ہے۔ اگر نیت خالص اقتدار کے تحفظ کی ہو تو کوئی ترمیم بھی جمہوریت نہیں، صرف جواز کی تلاش بن جاتی ہے۔
اگر یہ ترمیم واقعی قومی مفاد میں ہے تو اسے خفیہ کمروں میں نہیں، عوامی عدالت میں پیش کیا جائے۔ پارلیمان کے بند دروازے، کمیٹی رومز کی خاموشیاں، اور مسودوں کا خفیہ تبادلہ جمہوریت کا نہیں، مرکزیت کا مظہر ہیں۔ جمہوریت کا حسن اختلاف میں ہے، یکسانیت میں نہیں۔ جب ہر فیصلے پر اتفاقِ رائے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو دراصل اختلافی آوازوں کو دبایا جا رہا ہوتا ہے۔
پاکستان کے عوام اب آئین میں نئی سلائیاں نہیں، پرانی دراڑوں کی مرمت چاہتے ہیں۔ وہ انصاف چاہتے ہیں جو کسی فون کال، کسی فائل یا کسی چپ سادھے کمرے کا محتاج نہ ہو۔ وہ پارلیمان چاہتے ہیں جو قانون بنائے، مگر ضمیر کے مطابق، دباؤ کے تابع نہیں۔
یہ قوم آئین کو بار بار بدلنے والوں سے نہیں، اس پر عمل کرنے والوں سے امید رکھتی ہے۔
آئین کسی قوم کی صرف ایک کتاب نہیں ہوتا، بلکہ اس کی روح ہوتا ہے۔ روح پر جب بار بار جراحی کی جائے تو وہ کمزور پڑ جاتی ہے۔ 27ویں ترمیم اگر واقعی اصلاح ہے تو اسے قوم کے سامنے لائیں، عوامی مباحثے میں رکھیں، تاکہ ہر شہری کو یقین ہو کہ یہ ترمیم اس کے حق میں ہے، اس کے خلاف نہیں۔ ورنہ یہ بھی انہی درجنوں ترامیم میں شامل ہو جائے گی، جو آئین کی جیب میں تو لگیں، مگر ملک کے دل میں نہیں۔