زہران ممدانی: یوگنڈا سے نیویارک کی میئرشپ تک کا سفر

دنیا کی سیاست میں کبھی کبھار ایسے چہرے ابھرتے ہیں جو نہ صرف اپنی شخصیت سے، بلکہ اپنے نظریے اور عزم سے نئی راہیں متعین کرتے ہیں۔زہران کوامے ممدانی انہیں میں سے ایک ہیں۔وہ نوجوان سیاستدان جنہوں نے نیویارک جیسے بڑے اور پیچیدہ شہر میں ایک غیر روایتی راستہ اختیار کرتے ہوئے میئر کا عہدہ حاصل کیا۔

ان کی کہانی محض ایک سیاسی کامیابی نہیں،بلکہ ایک ماں کے خواب، ایک بیٹے کی جدوجہد اور ایک معاشرتی تبدیلی کی علامت ہے۔

ابتدائی زندگی اور پس منظر

زہران ممدانی 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان بلاشبہ علمی اور فنکارانہ وراثت رکھتا ہے۔ان کے والد، پروفیسر محمود ممدانی، دنیا کے معروف ماہرِ سیاست اور افریقہ میں نوآبادیاتی نظام کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں، جب کہ ان کی والدہ میرا نائر ایک عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں، جنہوں نے مون سون ویڈنگ، سلام بمبے! اور دی نیم سیک جیسی کلاسک فلمیں بنائیں۔

زہران کا بچپن مختلف ثقافتوں میں گزرا۔ وہ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے، مگر جب وہ سات برس کے تھے تو ان کا خاندان نیویارک منتقل ہو گیا۔

یہاں برونکس کے ایک متوسط طبقے کے علاقے میں ان کی پرورش ہوئی۔ایک ایسا محلہ جو رنگ، نسل، زبان اور ثقافتوں کی آمیزش کا آئینہ دار ہے۔ یہی تنوع زہران کے شعور اور نظریات کی بنیاد بنا۔

تعلیم اور ابتدائی کیریئر

زہران نے نیویارک کی یونیورسٹی سے افریکانا اسٹڈیز میں گریجویشن کیا۔ طالب علمی کے دنوں سے ہی وہ سماجی انصاف، مساوات اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے سرگرم رہے۔ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے فنونِ لطیفہ کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے ’مسٹر کارڈیمم‘ (Mr. Cardamom) کے نام سے بطور ریپر شہرت حاصل کی۔ان کے گانوں میں تارکینِ وطن، طبقاتی جدوجہد اور شناخت کے مسائل اجاگر ہوتے تھے۔ 2019 میں ان کا گانا نانی خاص طور پر مقبول ہوا،جس میں مشہور ادکارہ مدھور جعفری نے ایک بےباک نانی کا کردار نبھایا۔ زہران کے ایک ریپ گانے میں پاکستانی گلوکار علی سیٹھی نے بھی حصہ لیا۔
تاہم زہران کی اصل شناخت اُس وقت بنی جب انہوں نے فن سے آگے بڑھ کر عملی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔

سیاست میں قدم

تعلیم مکمل کرنے کے بعد زہران نے بطور فورکلوزر پریوینشن کونسلر کام کیا۔یعنی وہ غریب خاندانوں کو قرض کی وجہ سے گھروں سے بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتے تھے۔ اسی تجربے نے ان کے اندر عام انسانوں کی مشکلات کے لیے ہمدردی اور سیاسی شعور کو مزید گہرا کیا۔

2020 میں زہران نے نیویارک ریاستی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑا۔اُنہوں نے دس سال سے جیتنے والے ایک تجربہ کار امیدوار کو شکست دے کر تاریخ رقم کی۔وہ نیویارک کی ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد، اور تیسرے مسلمان رکن بنے۔

زہران نے خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے طور پر پیش کیا۔ یعنی ایسی سیاست جو دولت مند طبقے کے بجائے عام شہریوں کے مفاد کو مقدم رکھے۔ وہ رہائش، صحت، ٹرانسپورٹ اور خوراک کے شعبوں میں مساوات کے حامی ہیں۔ان کے نظریات برنی سینڈرز اور الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز جیسے ترقی پسند امریکی رہنماؤں سے متاثر ہیں۔

میئر کے انتخاب کی مہم

2024 میں زہران ممدانی نے نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب کا اعلان کیا۔ابتدا میں بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو یقین نہیں تھا کہ ایک نوجوان، غیر روایتی پس منظر رکھنے والا امیدوار اس دوڑ میں آگے بڑھ پائے گا۔ مگر زہران کی مہم نے شہر کے عام لوگوں کے دل جیت لیے۔

انہوں نے 40,000 سے زائد رضاکاروں کے ساتھ ایک تاریخی انتخابی مہم چلائی،جو 10 لاکھ سے زیادہ گھروں تک پہنچی۔ان کی مہم کے ویڈیوز، پوسٹرز اور تقاریر میں بالی وڈ کے رنگ،سوشلزم کا پیغام اور عوامی خوش مزاجی کا امتزاج دکھائی دیتا تھا۔

زہران کے حامیوں میں نوجوان، تارکینِ وطن، محنت کش طبقہ، اور ترقی پسند شہری بڑی تعداد میں شامل تھے۔ان کی مہم کئی زبانوں انگریزی، اردو، ہندی، بنگلہ اور ہسپانوی میں چلائی گئی۔ ان کا نعرہ تھا:

"سب کے لیے شہر، صرف امیروں کے لیے نہیں۔”

تنقید اور چیلنجز

ان کی مقبولیت کے باوجود، زہران کو کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ نیویارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ نے ان کے سوشلسٹ منصوبوں کو “مالی طور پر ناقابلِ عمل” قرار دیا، جب کہ کچھ گروہوں نے ان پر اسرائیل کو ’یہودی ریاست‘ تسلیم نہ کرنے کے بیان پر اعتراض کیا۔تاہم زہران نے واضح کیا کہ وہ یہود مخالف نہیں بلکہ ہر مذہب، نسل اور قوم کے لیے مساوات کے حامی ہیں۔

میئر کی حیثیت سے کامیابی

2025 کے میئر الیکشن میں زہران ممدانی نے حیران کن کامیابی حاصل کی۔ان کی جیت اس لیے غیر متوقع تھی کہ تین معتدل امیدواروں کے درمیان ووٹ تقسیم ہو گئے، جس کا فائدہ ترقی پسند ووٹوں کو متحد کرنے والے زہران کو ملا۔

ان کی کامیابی صرف ایک سیاسی جیت نہیں بلکہ ایک علامتی فتح تھی۔ایک تارکِ وطن خاندان کے بیٹے کی، جو یوگنڈا میں پیدا ہوا، برونکس کی گلیوں میں پلا، اور اب امریکہ کے سب سے بڑے شہر کی قیادت کر رہا ہے۔

میرا نائر اور ماں کا فخر

ان کی ماں، میرا نائر، جو خود عالمی فلمی دنیا میں ایک بڑا نام ہیں، ہمیشہ کہتی رہی ہیں کہ ’’میں اپنے بیٹے کو دولت نہیں، نظریہ دیتی ہوں۔‘‘

واقعی، زہران کی کامیابی ان کی تربیت کا عکس ہے۔جس طرح میرا نائر نے فلموں کے ذریعے سماج کے دکھ اور سچائی کو دکھایا، زہران نے سیاست کے ذریعے ان دکھوں کا حل تلاش کرنے کا عزم کیا۔

آج زہران ممدانی صرف نیویارک کے میئر نہیں، بلکہ ایک نئی نسل کی علامت ہیں۔ وہ نسل جو نسل، مذہب، رنگ یا شناخت سے بالاتر ہو کر انصاف اور مساوات کی بات کرتی ہے۔ان کی جیت یہ یاد دلاتی ہے کہ سیاست صرف طاقت کا کھیل نہیں، بلکہ کردار، اخلاق اور وژن کا امتحان بھی ہے۔

زہران ممدانی کی کہانی اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اگر خواب سچے ہوں، تو کمپالا سے برونکس اور برونکس سے نیویارک سٹی ہال تک کا فاصلہ بھی طے کیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے