ظہران ممدانی کی جیت: موجودہ عالمی نظام پر عوامی عدم اعتماد کا واضح مظہر

نیویارک، جسے دنیا کا سیاسی، معاشی اور ثقافتی مرکز کہا جاتا ہے، نے 4 نومبر 2025 کو ایک بار پھر تاریخ رقم کردی۔ ظہران ممدانی، جو ایک ایشیائی مسلمان (اثنا عشری شیعہ) ہے، جس کا خاندان امریکہ آنے سے قبل افریقہ میں آباد تھا، ایک 35 سالہ نوجوان ہے جو خود کو جمہوری سوشلسٹ کہتا ہے۔ وہ سماجی اصلاحات کا علمبردار سیاسی کارکن ہے اور سب سے بڑھ کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شدید ناقد اور مخالف ہے۔ اس کا نیویارک کے میئر کے طور پر منتخب ہونا محض ایک مقامی سیاسی واقعہ نہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر ایک نئی ذہنی تبدیلی کا اظہار ہے۔

ظہران ممدانی مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے سے بھی لاتعلق نہیں۔ وہ اسرائیل کا شدید مخالف ہے جبکہ غزہ کے مظلوموں کا زبردست حامی و ہمدرد ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کا ایک بیان کافی نمایاں ہوا تھا کہ "اگر میرے میئر شپ کے دوران نیتن یاہو نے نیویارک کا دورہ کیا تو میں اسے گرفتار کراؤں گا”۔ ظہران ممدانی کا انتخاب اس بات کی علامت ہے کہ بڑے شہروں کے باسی اب گہرائی سے یہ حقیقت سوچنے سمجھنے لگے ہیں کہ موجودہ عالمی نظام ٹھیک نہیں، جس میں طاقت اور سرمائے نے مرکزی حیثیت حاصل کرکے انصاف، احساس، احترام، عمومی خوشحالی اور بنیادی آزادیوں کا راستہ روکا ہے۔ عالمی ضمیر اب عالمی نظام میں بنیادی نوعیت کی فلاحی تبدیلیوں کی ضرورت شدت سے محسوس کررہا ہے۔

گلوبل ایلیٹ نے پوری دنیا میں عام انسانوں کو تقسیم کرنے کے لیے طرح طرح اور رنگ برنگ تعصبات اور نفرتوں کو پروان چڑھایا ہے۔ ظہران ممدانی کی فتح درحقیقت اس طرح کے تعصبات، تنگ نظریوں اور نفرت و حقارت کی ان تمام دیواروں کا گرنا ہے جو عالمی سطح پر مضبوط کی گئی تھیں۔

ایک مسلمان کا امریکہ جیسے ملک کے سب سے اہم اور بااثر شہر کا میئر بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کی سوچ میں ایک دوسرے کے لیے وسیع تر ہم آہنگی اور قبولیت کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہ صرف ایک شخص کی کامیابی نہیں بلکہ پوری انسانی برادری کی فتح ہے۔ دنیا بھر میں ریاستیں باہم دست و گریباں ہیں لیکن عوام ہر اہم موقع پر ایک دوسرے سے ہمدردی اور احترام پر مبنی سلوک کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

35 سالہ نوجوان ظہران ممدانی کی جیت اس بات کی غماز ہے کہ عالمی سیاست میں نئی نسل اب اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ نسل پرانی تعصبات سے پاک، عملی مسائل کے حل کے لیے پرجوش اور مثبت تبدیلی کا علمبردار ہے۔ نوجوان قیادت کا یہ عروج معاشرے میں تازہ خون اور نئی امیدیں پیدا کررہا ہے۔

ظہران ممدانی نے محفوظ، مفت اور پرآسائش ٹرانسپورٹ نظام کی فراہمی، سماجی تحفظ اور شراکت کا احساس پروان چڑھانے، آسمان سے باتیں کرتے کرایہ داری نظام کو منجمد کرنے اور عوام کے لیے سرکاری سہولیات اور مراعات میں اضافے جیسے خالصتاً عوامی مفاد سے جڑے مسائل کے حل کا عزم لے کر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی۔ اس نے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں اپنے ساتھ شامل کیا، گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے، اپنا پیغام روبرو لوگوں تک پہنچایا، بڑے پیمانے پر انہیں اپنا ہمنوا بنایا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک حیران کن کرشمہ دکھایا۔ یہ نیویارک شہر کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد انتخابی مہم تھی جس میں چالیس ہزار سے زائد نوجوانوں نے مل کر رضاکارانہ طور پر تقریباً دس لاکھ گھروں تک ظہران ممدانی کا پیغام پہنچایا۔

ظہران ممدانی کا تارک وطن ہونا اس حقیقت کو تقویت دیتا ہے کہ تارکین وطن کسی بھی معاشرے کا بوجھ نہیں بلکہ ان کی محنت، لگن اور صلاحیتیں انہیں قوم کی ترقی کا اہم ستون بنا سکتی ہیں۔ یہ انتخاب تارکین وطن کے لیے نہ صرف امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں ایک روشن پیغام ہے۔ ظہران ممدانی کے خاندان کا ایشیا سے افریقہ (یوگنڈا) منتقل ہونا اور وہاں سے ہوتا ہوا امریکہ جا پہنچنا خود عزم اور ہمت کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس خاندان کا یہ سفر ثابت کرتا ہے کہ سفر، ہجرت اور نقل مکانی سے آج بھی بے شمار مواقع اور امکانات وابستہ ہیں۔ "سفر وسیلہ ظفر” یہ وہ تاریخی سچائی ہے جو افراد اور خاندانوں دونوں کے لیے بے شمار فوائد رکھتی ہے۔ سفر اور ہجرت کوئی مصیبت نہیں بلکہ یہ ایک بہترین موقع ہے۔ ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے درمیان سفر نے اس خاندان کے ذہنی، اخلاقی اور جذباتی لچک اور استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکہ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا آئینی اصول، لبرل ازم پر زور، اور عوامی ترجیحات میں مذہب کی بجائے کارکردگی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تارکین وطن اور اقلیتی گروہوں کے افراد بھی قیادت کے اعلیٰ مناصب تک پہنچ جاتے ہیں۔ ظہران ممدانی سے پہلے بھی کئی مثالیں موجود ہیں، جیسے کیف الیسن، ایلہان عمر اور دیگر مسلمان سیاست دانوں کی انتخابی کامیابیاں اور مختلف مناصب پر فائز ہونا۔

اس کے برعکس، پاکستان جیسے ممالک میں سیاست ابھی تک برادریوں، ذاتی مفادات اور جذباتی وابستگیوں کے دائروں میں بری طرح مقید ہے، جہاں میرٹ اور قابلیت کو اکثر ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ امریکہ کا کثیرالثقافتی اور یونیورسل اقدار پر مبنی معاشرہ ہی وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جہاں ہر فرد کو صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کا یکساں موقع ملتا ہے۔

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم کے مرکزی نکات، جیسے نقل و حمل کی سہولیات میں بہتری، شراکت و معاونت کے اصول اور کرایہ داری نظام میں تبدیلی، اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ عوامی مسائل کے عملی حل چاہتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر اس نئے سیاسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے جو خالی نعروں اور وعدوں کے بجائے روزمرہ کی زندگی میں بہتری لانے پر مرکوز ہے۔

ظہران ممدانی کا کئی طاقتور شخصیات، لابیوں، میڈیا ہاؤسز بالخصوص نیویارک ٹائمز اور کئی بااثر سیاسی و کاروباری خاندانوں کی مخالفت کے باوجود کامیاب ہونا جمہوریت کی حقیقی روح کو زندہ کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عوام کی مرضی ہو تو کوئی بھی طاقت اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ یہ عام آدمی کی سیاسی طاقت کے اظہار کا دن تھا۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ میں اس قسم کے سیاسی شعور کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر عوام میں اپنی حمایت کی طاقت کا ادراک ہوتا ہے۔

ظہران ممدانی کی کامیابی عالمی نظام میں ایک توازن کی ضرورت کا اشارہ بھی ہے۔ دنیا اب یک رخی اور یک ثقافتی غلبے کے بجائے کثیرالثقافتی اور باہمی احترام پر مبنی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ انتخاب اس نئی عالمی سوچ کا نقطہ آغاز ہے جہاں اختلاف کو آپشن سمجھا جاتا ہے، مسئلہ نہیں۔

پوری مسلم دنیا، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے، یہ واقعہ ایک امید کی کرن ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ محنت، صلاحیت اور دیانتداری کی بنیاد پر کوئی بھی شخص کسی بھی عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ پیغام خود اعتمادی اور مثبت طرز عمل پر ابھارتا ہے۔ شدت پسندی، سخت گیری اور عدم برداشت کے بجائے اگر نوجوان نرمی، خندہ پیشانی، مستقل مزاجی، واضح سوچ، محنت، نظم و ضبط اور لگن سے کام لیں تو ہر میدان میں ان کی کامیابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

نیویارک ہمیشہ سے رواداری اور تنوع کا شہر رہا ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی صرف ساڑھے چھ فیصد ہے لیکن صلاحیت، جذبے اور بہترین کارکردگی کے سبب یہاں کے باسیوں نے ایک مسلمان بلکہ سوشلسٹ نوجوان کو میئر کے طور پر منتخب کیا، حالانکہ امریکی نفسیات کے لیے سوشلزم سخت نامانوس چیز ہے۔ ظہران ممدانی کے انتخاب نے نیویارک کی روادارانہ سوچ کو ایک نئی بلندی پر پہنچایا ہے۔ یہ شہر اب پوری دنیا کے لیے اس بات کی مثال بن گیا ہے کہ مختلف ثقافتی اور مذہبی پس منظر رکھنے والے افراد کیسے مل کر ایک بہتر مستقبل تعمیر کرسکتے ہیں۔

ظہران ممدانی کا انتخاب اس بات کا تقاضا کرتا معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کو تخریبی اور منفی مہم جوئی سے نکال کر تعمیری اور مثبت اقدامات کی طرف موڑا جائے۔ عوام اب خالی وعدوں، دعوؤں، شور اور تقریروں کے بجائے حقیقی تبدیلی اور بہتری چاہتی ہیں۔ ظہران ممدانی کا انتخاب اسی عوامی خواہش کی عکاسی کررہا ہے۔

ظہران ممدانی کے سامنے اس وقت بے پناہ چیلنجز موجود ہیں۔ نیویارک جیسے عظیم اور پیچیدہ شہر کی قیادت کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن ان چیلنجز کو ایک موقع کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ انتخاب کی طرح اگر وہ مسائل کے حل میں بھی کامیاب ہوئے تو یہ نہ صرف نیویارک بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ قائم ہوگا۔

ظہران ممدانی نوجوان ہے، پرجوش ہے، صحت مند اور توانا ہے، خوش مزاج ہے، ہنس مکھ اور نرم خو ہے، عام لوگوں کے مسائل اور احوال کا گہرا ادراک رکھتا ہے، اسے کھیل اور ادب سے دلچسسپی ہے، نوجوانوں کی ایک منظم اور ماہر ٹیم اسے دستیاب ہے، لوگوں کو ساتھ ملانے اور چلانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ان شاء اللہ وہ مسائل کے حل سے بھی دنیا کو ایک بہترین مثال پیش کردے گا جس طرح اس نے اپنی جیت سے دنیا کو حیران کردیا۔

ظہران ممدانی کا میئر بننا ایک ایسا واقعہ ہے جسے تاریخ میں تبدیلی کے ایک نئے باب کے آغاز کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ امید، محنت، صلاحیت اور مثبت سوچ سے کوئی بھی تبدیلی ممکن ہے۔ یہ صرف ایک شہر کی کہانی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی مشترکہ کامیابی ہے۔ آئیے، اس روشن مثال سے سبق لیتے ہوئے اپنے اپنے حلقوں اور ملکوں میں مثبت تبدیلی کے علمبردار بنیں۔

کل نیویارک کے علاقے کوئنز میں ظہران ممدانی کی انتخابی جیت کی خوشی میں ایک تاریخی ریلی منعقد ہوئی، جس میں مقررین نے شہروں کی اصل طاقت عمارتوں کی بجائے انسانوں کو قرار دیا۔ اس اجتماع میں تین بڑے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں یعنی ربی شیرون کلین بام (یہودی عالمہ)، ریورنڈ چارلس گالبریتھ (عیسائی پادری) اور امام خالد لطیف (مسلمان امام) نے مشترکہ طور پر انسانی وقار، معاشرتی انصاف اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ ریلی میں ظہران ممدانی کے انتخابی نعروں "فریز دی رینٹ” (رہائش کو بنیادی حق تسلیم کرنا) اور "نیو یارک از ناٹ فار سیل” (شہر میں بے تحاشہ کمرشلائزیشن کی نفی) کو خاص پذیرائی حاصل ہوئی۔

مذکورہ رہنماؤں نے اپنے خطابات میں مذہبی یکجہتی اور سماجی انصاف پر خاص زور دیا۔ ربی شیرون نے کہا کہ عبادت گاہیں الگ الگ ہوسکتی ہیں مگر انصاف اور انسانی شرف کا مقصد ہمارے درمیان مشترک ہے۔ ریورنڈ چارلس نے حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کو یاد کراتے ہوئے کہا کہ خوراک، رہائش اور امید سب انسانوں کا حق ہے۔ امام خالد لطیف نے قرآن کریم کی آیت (سورہ حجرات، آیت 13) پیش کرتے ہوئے کہا کہ اختلافات باہمی پہچان اور احترام کا ذریعہ ہیں، نہ کہ نفرت کا۔

یہ اجتماع مذہبی رواداری اور انسانی ہمدردی کی ایک زندہ مثال تھا، جس نے ثابت کیا کہ جب مختلف مذاہب کے لوگ احترام کے ساتھ اکٹھے ہوں گے تو سماج میں تحفظ، امید اور انصاف پروان چڑھ سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے