ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کہاوت وقت کے ہر موڑ پر سچ ثابت ہوتی رہی ہے۔ کسی بھی عظیم شخصیت کی کامیابی میں ایک مضبوط اور باوقار وجود کا عکس ضرور جھلکتا ہے جو اس کے خوابوں کو سمت دیتا ہے۔ یہ عورت کبھی مشیر بنتی ہے، تو کبھی ہمسفر اور کبھی وہ آئینہ جس میں مرد اپنی حقیقت دیکھ پاتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کی خاموش حوصلہ افزائی اور محبت کی موجودگی ہوتی ہے جو اس کی رہنمائی کرتی ہے بلکہ ہر لمحے کے فیصلوں میں اس کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔ یہی حقیقت نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی کی زندگی میں بھی عیاں ہے جن کی کامیابی کے پیچھے رما دواجی کا غیرمعمولی اثر اور تعاون چھپا ہوا ہے۔ عورت کی طاقت صرف جسمانی و جمالیاتی نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ذہنی، تخلیقی اور جذباتی سہارا دینے میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔ رما دواجی نے اس کردار کو نہایت عمدگی سے نبھایا جہاں انہوں نے شوہر کے سیاسی سفر میں اہم حصہ لیا ہے اور فن، معاشرتی شعور کے ذریعے بھی دنیا کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ہر فرد کی زندگی میں ایسا سا اثر رکھنے والا انسان ہی اسے بلند مقام تک پہنچا سکتا ہے اور رما دواجی نے اس میں اپنی پوری طاقت صرف کی۔
رما دواجی، جو ادب کی طالبہ اور مطالعے کی شوقین ہیں اپنے نسوانی حسن کی وجہ سے بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ان کی گردن صراحی کی مانند لمبی اور خوشنما ہے، ان کی آنکھیں غزال کی طرح نرم اور گہری ہیں اور لب گلاب کی پنکھڑی کی طرح نرمی اور کشش سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ حسن محض ظاہری ہے یہ ایک ایسی فطری طاقت کا مظہر ہے جو دیکھنے والے کے دماغ اور خیال پر دیرپا اثر ڈالتی ہے۔ انہیں پہلی بار دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے شاعری اور مصوری کی دنیا کی سب سے حسین اپسرا حقیقت میں قدم رکھ گئی ہو۔ ان کا حسن اور تمکنت زھران ممدانی کے سیاسی سفر کی روشنی میں اور بھی زیادہ نمایاں ہو گئی جیسے تاریخی کردار اور جدید شبیہیں ایک کائناتی رنگ میں مدغم ہو گئی ہوں۔
نیویارک کے میئر ظہران ممدانی کی کامیابی نے امریکی سیاست میں ایک نیا باب کھولا ہے۔ وہ شہر کے پہلے مسلمان میئر اور ایک صدی میں سب سے کم عمر میئر بن کر ابھرے ہیں۔ یہ فتح محض انتخابی جیت ہے بلکہ اس کے علاو عملیاتی اور سماجی تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کامیابی کے دوران رما دواجی کی موجودگی نے انہیں بھرپور جذباتی سپورٹ فراہم کی ساتھ ہی انتخابی مہم کی بصری اور تخلیقی پہچان میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ظہران ممدانی نے فتح کے بعد اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ ان کے ہر لمحے کی طاقت اور استحکام کے پیچھے رما کا ہاتھ ہے۔
راما دواجی کی زندگی دمشق سے دبئی اور پھر نیویارک تک کے سفر کی ایک منفرد داستان ہے۔ وہ ہیوسٹن، ٹیکساس میں پیدا ہوئیں، اور شامی خاندان کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ سے ثقافتی اور تاریخی حوالے سے مضبوط رہا۔ ان کا بچپن دبئی میں گزرا، جہاں انہوں نے دوہرا ثقافتی پس منظر سیکھا، جو بعد میں ان کے فن کا محور بنا۔ رما نے قطر میں قائم ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں امریکہ کے رچمنڈ میں گریجویشن مکمل کی، جس کے بعد نیویارک کے اسکول آف ویژوئل آرٹس سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ یہ تعلیمی سفر ان کی فنکارانہ شناخت اور عالمی بصیرت کی بنیاد بنا۔
راما کے فن پارے اکثر سماجی اور سیاسی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں، جس میں فلسطینی عوام کے مسائل اور انسانی حقوق کے موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کی ایک مشہور پینٹنگ میں عربی عبارت "لن نغادر” شامل ہے جو القدس کے شیخ جراح محلے کے فلسطینی خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ ایک اور فن پارہ غزہ میں بھوک اور انسانی بحران پر روشنی ڈالتا ہے، جہاں انہوں نے عوام کو اس مسئلے کے ساتھ جڑے رہنے کی اپیل کی۔ انسٹاگرام پر ان کے لاکھوں فالوورز ہونے کے باوجود، رما کا مواد ذاتی یا سیاسی تشہیر کے بجائے فن اور معاشرتی شعور پر مرکوز رہتا ہے۔
راما دواجی اور ظہران ممدانی کی محبت کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ دونوں کی ملاقات سنہ 2021 میں ڈیٹنگ ایپ پر ہوئی اور مشترکہ اقدار و تخلیقی جذبے نے انہیں جلد قریب کر دیا۔ ان کی منگنی دبئی میں اہلِ خانہ کی موجودگی میں ہوئی جبکہ نکاح نیویارک میں سنہ 2025 کے آغاز میں ہوا۔ شادی کے بعد، یوگنڈا میں ممدانی کے آبائی وطن میں خاندانی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ رما نے اپنی فنکارانہ اور تخلیقی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے میڈیا کی چمک سے دور رہنے کو ترجیح دی، لیکن ان کے اثرات انتخابی مہم کی شناخت اور بصری مواد میں نمایاں رہے۔
راما دواجی کی مصوری میں مشرق و مغرب کے موضوعات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ ان کے فن میں عرب دنیا کی روایات، تاریخی مسائل اور عالمی انسانی حقوق کی عکاسی ہوتی ہے، جس سے فنکارانہ بلکہ سیاسی شعور بھی جھلکتا ہے۔ انہوں نے اپنے کام میں فلسطین، شام اور دیگر مشرق وسطیٰ کے مسائل کی بازگشت کی ہے، جبکہ امریکی سماجی و سیاسی حالات پر بھی اظہار رائے کیا ہے۔ یہ فن ان کی ذہنی وسعت، حساسیت اور معاشرتی شعور کی عکاسی کرتا ہے۔
یوں اب نیویارک کے شہری انہیں ایک میئر کی اہلیہ ہونے سے پہلے ایک مضبوط، باشعور اور فنکارانہ شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔ راما کی تخلیقی توانائی اور نظریات ظہران ممدانی کے سیاسی سفر میں معاون ثابت ہوئے ہیں اسی طرح انہیں نیویارک کی متنوع ثقافتی شناخت میں بھی نمایاں اضافہ کیا۔ ان کے فن کی خصوصیات میں سیاہ و سفید رنگ کی عکاسی، عرب دنیا کے مناظر اور تاریخی حوالہ جات شامل ہیں جو دیکھنے والے کو جذباتی اور فکری طور پر متاثر کرتے ہیں۔
راما دواجی نے سیاسی میدان میں پس پردہ رہتے ہوئے بھی شوہر کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے تخلیقی اقدامات میں مہم کے مواد کی بصری شناخت بولڈ رنگوں کا انتخاب اور گرافک ڈیزائن کی حکمت عملی شامل تھی جس نے ظہران ممدانی کی پہچان کو مضبوط کیا۔ اس کے باوجود وہ شخصی زندگی میں نجی اور خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں، جس سے ان کی شخصیت میں انفرادیت اور وقار جھلکتا ہے۔
راما دواجی کی زندگی اور فن ایک مکمل تصویر پیش کرتے ہیں جو نسوانی جمال، تخلیقی بصیرت اور سماجی شعور کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی موجودگی اور کردار ظہران ممدانی کی کامیابی کے ہر لمحے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ان کے فن میں انسانی حقوق، انصاف اور عالمی شعور کے پیغام کی بازگشت نمایاں ہے۔ یہ تعلق، محبت اور فن کی شراکت ایک مکمل ہم آہنگ تصویر پیش کرتا ہے، جو دیکھنے والے کے دل و دماغ پر دیرپا اثر ڈالتی ہے۔
ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو علم، حکمت اور سکون عطا فرمائے، ان کی محنت کو کامیابیوں میں بدل دے، ان کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرے اور ہر ظلم و ستم سے محفوظ رکھے۔ آمین۔