ہم کیسے لوگ ہیں۔
ہم پڑھے لکھے ہیں یا جاہل ہیں۔
ہم کتنا سوچتے ہیں اور کتنا دماغ استعمال کرتے ہیں۔
ہم انتہائی چالاک اور عیار ہیں
یاہم بے حد احمق اور وقوف ہیں ۔
ہم کتنے ٹیکنیکل خیالات کے حامل ہیں۔
ہم کون لوگ ہیں ؟
ہم وہ لوگ ہیں —
ہمیں جب گھبراہٹ ہوتی ہے تو ہم سیون اَپ کو بطور دوا استعمال کرتے ہیں، نمک ڈال کر۔
ہم نوٹ نہیں تڑواتے کہ اگر نوٹ کھلوا لیا تو جلدی خرچ ہو جائے گا۔
ہمارے ہاں گھی کے ڈبے سے انعام کی کار تو نکل آتی ہے، لیکن خالص گھی نہیں نکلتا۔
ہم رمضان میں روزے رکھتے ہیں، لیکن درجات کے بجائے مہنگائی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔
ہم ایسے لوگ ہیں جو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اس وجہ سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہم سے مشورہ کیوں نہیں کیا،
اور جب ہم سے مشورہ کیا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں، “ جیسے تمہاری مرضی۔”
ہم وہ لوگ ہیں جب کوئی چیز صاف کرنی ہو تو گندہ کپڑا مانگتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو کال کاٹ کر دوبارہ کرتے ہیں تاکہ آواز صاف آئے۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں فون پر بتانا پڑتا ہے کہ، “بھائی، واٹس ایپ پر میسج چیک کر لو۔”
ہم وہ لوگ ہیں کہ ادھار واپس لینے کے لیے دلیل دینی پڑتی ہے کہ پیسے کس لیے چاہییں۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں ہسپتال، تھانے، کچہری یا کسی بھی سرکاری دفتر میں جانے سے پہلے واقفیت تلاش کرنی پڑتی ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں کہ گھر میں میت کو چھوڑ کر آنے والوں کے لیے روٹی پکانے لگ جاتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تو چائے کے ذائقے سے پوری لڑکی جج کرتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو فری چیز کے لیے دو گھنٹے لائن میں لگ جاتے ہیں، مگر ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر فلسفی بنتے ہیں لیکن چلتی گاڑی سے بوتلیں اور کوڑا سڑک پر پھینکتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو رشوت کو “چائے پانی” اور چوری کو “سمارٹ ورک” سمجھتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو بارش بہت پسند کرتے ہیں، مگر سڑک پر پانی دیکھ کر حکومت کو کوسنے لگتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو اگر کوئی قطار میں کھڑا رہنے کو کہے تو فوراً کہتے ہیں، “تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں؟”
ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کی غلطی پر کہتے ہیں، “یہ ابھی چھوٹا ہے”،
اور دوسروں کے بچوں کی شرارت پر کہتے ہیں، “یہ تو بدتمیز ہے۔”
ہم وہ لوگ ہیں جو اسپتال میں ڈاکٹر سے کم اور رشتہ داروں سے زیادہ مشورہ کرتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو اگر کسی سے سچ سن لیں تو فوراً کہتے ہیں، “یہ میرا دشمن ہے۔”
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں کسی کی خوشی دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے فوراً شک ہوتا ہے کہ اس نے کچھ غلط کیا ہوگا۔
وہ لوگ ہیں جو رشتہ داروں کو صرف اس وقت گلے لگاتے ہیں جب ان کے پاس پیسہ آ جائے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو تصویر میں کھانا پوسٹ کرتے ہیں تاکہ دنیا جانے کہ ہم بھوکے نہیں ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو جہاز میں بیٹھتے ہی دعا مانگتے ہیں، اور زمین پر اترتے ہی پھر فرعون بن جاتے ھیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو خوابوں میں دنیا فتح کرتے ہیں اور صبح الارم سے ہار جاتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو مسجد میں چوری کے ڈر سے جوتیاں چھپا کر رکھتے ہیں۔
وہ لوگ ہیں جو گھر میں فالتو لائٹیں بند نہیں کرتے لیکن وہ بل دیکھ کر واپڈا کو گالیاں نکالتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو اللہ پر بھروسہ بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی تعویذ بھی رکھ لیتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ہر سچ کو سازش اور ہر جھوٹ کو نظریہ سمجھتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ہر کام “اللہ بہتر کرے گا” کہہ کر خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو باہر ملک جا کر قانون کے پابند بن جاتے ہیں،
اور وطن واپس آ کر پھر وہی پرانے انسان۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے مسائل کی نہیں، صرف دوسروں کی غلطیوں کی فکر ہوتی ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ایک پیسے کی بے ایمانی کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے،
لیکن ہمیں حکمران ایماندار چاہیے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو ہر غلطی پر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں،
ہر برائی کا ذمہ دار نظام کو سمجھتے ہیں،
اور ہر اچھے موقع پر خود کو عقلِ کُل قرار دیتے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں —
جو ہنستے بھی ہیں، روتے بھی ہیں،
طنز بھی کرتے ہیں، مگر بدلتے نہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ صرف ہم نے جنت میں جانا ہے،
اور باقی سب نے جہنم میں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو کبھی قوم نہیں بن سکتے ہمیشہ ہجوم رہیں گے
بقول حضرت علامہ اقبال
عید آزاداں شِکُوہِ ملک ودیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مومنیں