آج سے کچھ عرصہ قبل ایک تفریحی دورے پر سجاد علی کے ساتھ سملی ڈیم اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر ایک جگہ پانی پینے کے لیے رکے۔ شدت کی پیاس میں ٹھنڈا پانی پینے سے کافی راحت محسوس ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنی مخلوق پر کتنی زیادہ نعمتیں نازل فرمائی ہیں۔
ہم نے پانی پیا اور چند لمحوں کے لیے گرد و پیش کے خوبصورت مناظر کا مشاہدہ کرنے لگے۔ محسوس ہوا کہ فطرت ہی حقیقی حسن اور سکون کا منبع ہے۔ اس کے بعد ہم موٹر بائیک پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ اسی اثناء میں سجاد علی کو یکایک کوئی خیال آیا اور وہ دوبارہ پانی کی جانب بڑھا، حالانکہ ابھی اس نے ڈھائی گلاس انڈیل دیے تھے اور بظاہر پانی کی جانب جانے کی کوئی وجہ ہمیں نظر نہیں آرہی تھی۔
دراصل سجاد کو لگا تھا کہ موٹر بائیک کا انجن گرم ہوا ہے، اس لیے ٹھنڈے پانی سے اس کی "پیاس” بجھانے کی کوشش کی گئی۔ ایسا کرتے ہی انجن میں پیٹرول اور پانی مکس ہونے سے بائیک فوری طور پر بند ہوگئی اور کسی صورت سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی۔
ہم نے کافی ہاتھ پاؤں مارے لیکن بائیک نے سٹارٹ نہ ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ سجاد علی نے سٹارٹ کرنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا، جس سے ہماری پریشانی میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا۔ ہم دونوں موٹر بائیک کے تکنیکی مسائل سے نابلد تھے اور اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ پیش آمدہ مسئلے پر کیسے قابو پائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا، اچانک وہاں ایک نوجوان موٹر بائیک پر آکر رکا اور فوری ہمارے پاس آیا۔ پوچھا کہ کیا ہوا؟ ہم نے مسئلے کے بارے میں بتایا۔ اس نے کہا "پریشان نہ ہو، میں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں”۔ اس بات سے ہماری جان میں جان آئی اور پریشانی دور ہونے میں مدد ملی۔
مذکورہ نوجوان نے ماہرانہ انداز میں موٹر بائیک کا معائنہ کیا اور کہا کہ انجن میں پانی اور پیٹرول مکس ہوگیا ہے، جس سے بائیک بند ہوگئی ہے۔ موزوں اوزار نہ ہونے کی وجہ سے پرزے کھولنے میں بھی اسے سخت محنت کرنی پڑی۔ نوجوان نے پندرہ بیس منٹ میں پانی نکال کر موٹر بائیک کو سٹارٹ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ آئندہ گرم انجن پر پانی ڈالنے کی غلطی نہ کریں۔
مذکورہ نوجوان ایک خوش اخلاق، ہنس مکھ، ماہر اور مہربان انسان تھا۔ وہ ایک باصلاحیت اور انسانی ہمدردی سے مالا مال فرد تھا۔ وہ ہمیں چھوڑ کر اپنے کام میں لگ سکتا تھا لیکن اس کے اخلاق اور احساس نے یہ گوارا نہیں کیا۔ اس نے ٹھان لی تھی کہ مسئلہ حل کر کے ہی جاؤں گا، اور واقعی اس نے حل کر کے ہی چھوڑا۔ اگرچہ وہ ہمارے لیے اجنبی تھا لیکن بائیک ٹھیک کرنے میں ایسا لگ رہا تھا کہ گویا یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔ نوجوان کے اس بہترین اخلاق، احساس اور مدد نے ہمیں دل سے متاثر کیا اور ہم نے دل ہی دل میں اسے بے شمار دعاؤں سے نوازا۔ اس کے ساتھ چند منٹ کے لیے بعد میں بات چیت بھی کی۔
نوجوان نے اپنے بارے میں ہمیں بتایا کہ "میرا نام گل شیر ہے اور مانسہرہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ سنہ 1998 میں پیدا ہوا ہوں۔ پرائمری پاس ہوں اور اب یہاں کام کاج کے سلسلے میں مقیم ہوں۔ دس سال قبل شادی کی ہے اور تین بچوں کا باپ ہوں۔” اس نے بتایا کہ "اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا ہوں، والدہ کی وفات کے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کر لی، سوتیلے بہن بھائی ہیں لیکن میں یہاں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔” ہم نے اس کا بے تحاشا شکریہ ادا کیا اور رخصت ہوئے لیکن نوجوان نے آدھے گھنٹے کے دوران اپنی خدمت، اخلاق، تعاون، مسکراہٹوں اور صلاحیت کے سبب ہمارے دلوں میں گھر کر لیا۔ وہ تادیر ہمارے دل، زبان اور دعاؤں میں موجود رہے گا۔
انسان دوستی اور تعاون انسانی معاشرے کی دو اہم ترین خوبیاں ہیں جو ایک زیادہ محفوظ اور خوشحال دنیا تشکیل دینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ جب ان خوبیوں کو ارادی طور پر اپنایا جاتا ہے اور ان کی روح پر کما حقہ عمل کیا جاتا ہے تو ان میں مصائب کو دور کرنے، مسائل حل کرنے، سماجی فلاح و بہبود کو فروغ دینے نیز افراد اور اقوام کے درمیان مطلوبہ ہم آہنگی، خلوص، محبت اور مہربانی کے سلوک کو پروان چڑھانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
گل شیر جیسے لوگ ہمارے معاشرے کی اصل طاقت ہیں۔ اس کی صلاحیت، احساس، مسکراہٹ اور خوش اخلاقی سے نہ صرف ہماری بائیک درست ہوئی بلکہ ہمارے دلوں میں انسانوں کے بارے میں موجود شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے۔ اس نے ثابت کیا کہ ہمدردی اور خلوص پر مبنی سلوک کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوتا۔ ایک پرائمری پاس شخص نے اپنے اخلاق اور ہنر سے جو سبق سکھایا، وہ بڑے بڑے ڈگری ہولڈرز کے لیے مشعل راہ ہے۔
ایسی دنیا میں جہاں اکثر و بیشتر مقامات پر تقسیم و تفریق، خود غرضی اور نفسا نفسی چھائی ہوئی ہے، یاد رکھیں کہ ان اصولوں میں پوشیدہ اہمیت اور افادیت ہمارے اجتماعی مستقبل کو بہتر انداز میں بدلنے کے حوالے سے گہرے اثرات رکھتی ہے۔ انسان دوستی اور انسانی ہمدردی پوری انسانیت کی مشترکہ پہچان ہے۔ یہ رویہ اس صحت مند سوچ کو ابھارتا ہے کہ ہر فرد عزت، سہولت، حفاظت اور مصائب سے پاک زندگی گزارنے کے مواقع کا مستحق ہے۔
انسان دوستی پر مبنی سوچ دوسروں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیتی ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسان دوستی ہم سے ضرورت مندوں کے لیے مطلوبہ ہمدردی، خلوص اور عملی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، چاہے مصیبت زدہ کسی بھی رنگ، نسل، زبان یا عقیدے سے تعلق رکھتا ہو۔
اسی طرح باہمی تعاون وہ ٹھوس بنیاد ہے جس پر بہتری کے لیے موثر انسانی کوششیں استوار ہوتی ہیں۔ تعاون کا جذبہ یہ امر یقینی بناتا ہے کہ مل کر کام کرنے سے ہم اکیلے کام کرنے سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ تعاون کا آفاقی جذبہ مختلف حدود سے ماورا ہوتا ہے اور پیچیدہ عالمی اور مقامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مختلف افراد اور گروہوں کو متحد کرتا ہے۔ اس میں وسائل، علم اور مہارت کا اشتراک شامل ہے، ساتھ ہی مشترکہ بھلائی کو فروغ دینے والے اقدامات کے لیے تعاون کرنا ایک اہم فریضہ قرار پاتا ہے۔
آج کے اس مادہ پرست دور میں جہاں ہر شخص اپنی ذات میں مصروف ہو چکا ہے، گل شیر جیسے نوجوان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسانی تعلق اور ہمدردی اب بھی زندہ ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات درحقیقت معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو مضبوط بناتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسے مواقع ڈھونڈیں جہاں ہم کسی کی مدد کر سکیں، کسی کے مایوس چہرے پر مسکراہٹ بکھیر سکیں، اور کسی کا دل اطمینان سے بھر سکیں، کیونکہ یہی وہ انمول خزانہ ہے جو ہمیں حقیقی خوشی عطا کرتا ہے۔
خلوص اور باہمی تعاون کا جذبہ ہم کو اس قابل بناتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو جمع کر سکیں اور ان سے پیش آمدہ مسائل کا مقابلہ کریں۔ انسانی ہمدردی اور تعاون دونوں کے لیے سوچ میں صحت مندانہ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، جو سطحی مفاد سے آگے بڑھ کر دیرپا اجتماعی بہبود کو یقینی بنائے۔ یہ سوچ وہ ہمدردی، افہام و تفہیم، مسائل کے خاتمے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کی روح کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ یہ اصول صرف بڑے اقدامات تک محدود نہیں، بلکہ ان میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا تھا، کو دور کرنے کے لیے مہربانی، حوصلہ افزائی اور تعاون کے چھوٹے چھوٹے عمل بھی خاص افادیت رکھتے ہیں۔
سماج میں وسیع پیمانے پر انسانی ہمدردی اور تعاون کا حصول ایک مفید اور مقدس طرز عمل ہے، لیکن مختلف وجوہات سے اس کو برقرار رکھنا ایک صبر آزما کام ہے۔ طرح طرح کے اختلافات، سیاسی تنازعات، ثقافتی رکاوٹیں اور محدود ذاتی یا گروہی مفادات کا حصول اکثر ان اقدار کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے ایک مضبوط سیاسی قیادت، وسیع سماجی یکجہتی اور انسانوں کے درمیان اٹھنے والی دیواروں کے بجائے پل بننے کے عزم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر ہمدردی، مربوط مکالمے اور باہمی احترام کی سوچ کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے، جہاں متنوع نقطہ ہائے نظر کی قدر کی جاتی ہو۔