نرسنگ کا پیشہ انسانیت کی تہہ دل سے خدمت کا سب سے نرم ملائم اور سورج کی طرح روشن چہرہ ہے۔ اس عظیم شعبے سے وابستہ افراد زندگی کے سب سے پیچیدہ اور نازک لمحات میں امید کا چراغ جلاتے ہیں۔ وہ اپنے لمس، دلآویز مسکراہٹ اور رحم دل، مہربان رویے سے مریض کے درد و دکھ کو کم کر دیتے ہیں۔ نرس کی موجودگی مریض کے لیے ماں و باپ کی طرح مضبوط حوصلہ، اپنی سگی بہن کی طرح قربت، بڑے بھائی کی طرح صبر، ہمت، برداشت اور جگری دوست کی طرح اطمینان بخشتی ہے۔ دک دک ہر دھڑکن پر نظر رکھنے، چھوٹا ہو یا بڑا ہر زخم پر مرہم رکھنے، اور ہر پریشانی کو منٹ میں سمجھنے کا ہنر اسی پیشے کی پہچان ہے۔ نرس نہ کہ صرف دوائیں دینے والی ہوتی ہے وہ بیمار و زخموں سے چور چور دلوں کو بھرپور حوصلہ اور زندگی کو ایک نیا انتہائی حسین مفہوم دیتی ہے۔ نرسنگ کا شعبہ محبت، ایثار، ہمدردی اور خدمت کا پیکر ہے جہاں انسانیت کی اصل روح سانس لیتی ہے۔ اسی لیے اسے اللہ تعالی کی عطا کردہ رحمتوں میں سے ایک رحمت اور شفقت کی علامت سمجھا جاتا ہے کیونکہ نرس کا ہر قدم زندگی کو بچانے، سکون دینے اور دکھوں کو کم کرنے کے جوش اور جذبے کے ساتھ عزم سے جڑا ہوتا ہے۔
جرمنی کے شہر ویورسیلن میں پیش آنے والا یہ ہولناک واقعہ اسی مقدس پیشے کے دامن پر ایک سیاہ دھبے کی مانند ہے۔ ایک مرد نرس نے دس معصوم مریضوں کی زندگیاں محض اپنے آرام کے لیے ختم کر ڈالیں۔ خبر کے مطابق اس نے پالی ایٹیو کیئر وارڈ میں زیرِ علاج بزرگ مریضوں کو سکون آور ادویات کی خطرناک مقدار دے کر ابدی خاموشی میں مبتلا کیا۔ ایسا المیہ طبّی دنیا کے وقار پر کاری ضرب ہے اور انسانی اقدار کی کمزوری کی دردناک جھلک پیش کرتا ہے۔ جہاں شفا دینے کا فریضہ ادا ہونا چاہیے تھا وہاں زندگی چھیننے کا وحشیانہ عمل ہوا۔ اس افسوسناک واقعے نے یہ احساس دلایا کہ جب پیشے کا اخلاقی توازن بگڑ جائے اور انسانی احساسات کمزور پڑ جائیں تو مقدس فریضہ جرم میں بدل جاتا ہے۔
یہ واقعہ اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ کام کے دباؤ کا اثر انسانی رویے پر گہرا ہوتا ہے۔ نرس نے اپنے فرائض کو انسانیت کی خدمت کے بجائے ذاتی سہولت کے تابع کر دیا۔ جب اداروں میں عملے پر اتنا بوجھ ڈال دیا جائے کہ ذہنی توازن متاثر ہو جائے تو نتائج ہمیشہ المناک ہوتے ہیں۔ صحت کے شعبے میں انسانی ہمدردی بنیادی حیثیت رکھتی ہے، مگر جب شفقت کے بجائے تھکن اور بے حسی غالب آ جائے تو حادثات جنم لیتے ہیں۔ ایسے واقعات اس ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں کہ پیشہ ور افراد کو مناسب آرام، سہولتیں اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں۔
صحت مند معاشرہ اسی وقت وجود میں آتا ہے جب کام کے اوقات اور انسانی صلاحیتوں کے درمیان توازن قائم رکھا جائے۔ طویل ڈیوٹیوں، کم عملے اور غیر متوازن نظام کے باعث طبی اہلکار ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ نرسنگ کا پیشہ شفقت، صبر اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے، مگر جب انسان خود تھکن اور اضطراب میں مبتلا ہو تو دوسروں کے درد کا احساس ماند پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنے عملے کے لیے ایسا ماحول فراہم کریں جہاں جسمانی آرام اور ذہنی سکون دونوں ممکن ہوں، تاکہ انسانیت کا وقار سلامت رہے۔
تفریح اور آرام انسانی زندگی کے لازمی عناصر ہیں۔ ہر پیشے کے فرد کو وقتاً فوقتاً فراغت، صحت مند مشغلے اور سکون کے لمحات درکار ہوتے ہیں۔ جرمنی کے اس واقعے نے واضح کیا کہ جب انسان کام کی مشین بن جائے تو احساسات مردہ ہو جاتے ہیں۔ اگر نرس کو مناسب چھٹی، خوشگوار دوستانہ ماحول اور نفسیاتی معاونت میسر آتی تو شاید اتنے لوگوں کی زندگیاں ضائع نہ ہوتیں۔ اداروں میں ایسی پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے جو انسانی توازن کو برقرار رکھ سکیں تاکہ تھکن، غصہ، نفرتیں اور ذہنی دباؤ کسی بھی سانحے کا پیش خیمہ نہ بنے۔
اخلاقی اور روحانی تربیت کسی بھی معاشرے کی بہترین بنیاد ہے۔ اگر دل میں خوفِ خدا، احترامِ انسانیت اور خدمتِ خلق کا جذبہ زندہ ہو تو انسان ظلم کے قریب کسی بھی صورت نہیں جاتا۔ نرس کا یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ اخلاقی شعور کی آبیاری بھی حد درجہ زیادہ ضروری ہے۔ ہسپتال محض علاج گاہ نہیں ہے جس میں بس علاج و معالجہ ہو یہ تو انسانیت کا امتحان گاہ بھی ہیں جہاں ہر مسکان اور ہر میھٹا لفظ مریض کے لیے امید صبح کی کرن بن سکتا ہے۔ تربیت کے نظام میں اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کو شامل کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اسی طرح مریضوں کی حفاظت ہر طبی ادارے کا اولین فرائض میں سے ہے۔ اگر حفاظتی نظام کمزور و خراب ہو تو چھوٹی سی غفلت بھی بڑی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ جرمنی کے اس اسپتال میں نگرانی کا موثر نظام ہوتا تو شاید نرس کے ہاتھوں اتنی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ ہر دوا، ہر انجیکشن اور ہر فیصلہ مکمل جانچ کے بعد ہونا چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی، نگرانی کے کیمرے، اور شفاف رپورٹنگ کے طریقے ایسے المیوں کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اداروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات کو لازمی بنانا چاہیے۔
یہ واقعہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ معاشرتی نظام میں توازن بگڑنے سے اخلاقی اقدار متاثر ہوتی ہیں۔ جب معاشی دباؤ، ادارہ جاتی بے حسی اور انسان کی داخلی کمزوری ایک دوسرے سے جڑ جائیں تو نتیجہ سفاکی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس نرس نے شاید ابتدا میں اپنی تھکن کم کرنے کے لیے غلط قدم اٹھایا مگر رفتہ رفتہ یہ خصلت سنگین جرائم میں بدل گئی۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ چھوٹی برائیوں کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کرنا دراصل بڑی بربادی کی بنیاد رکھنا ہے۔
معاشرے میں قانون کی بالادستی ضروری ہے تاکہ کوئی شخص خود کو جواب دہی سے بالاتر نہ سمجھے۔ جرمنی کی عدالت نے اس نرس کو عمر قید کی سزا دے کر انصاف کی ایک مضبوط مثال قائم کی ہے۔ تاہم اصل کامیابی تب ہوگی جب ایسے واقعات سرے سے وقوع پذیر ہی نہ ہوں۔ انصاف کا مقصد نہ کہ صرف سزا دینا ہوتا ہے بلکہ مستقبل میں برائی کی روک تھام کے لیے مثال قائم کرنا بھی ہے۔ قانون کے ساتھ ساتھ انسان کے ضمیر کو بھی بیدار کرنا لازمی ہے تاکہ خوفِ سزا سے پہلے احساسِ جواب دہی بیدار ہو۔
جرمنی کے اس واقعے نے عالمی سطح پر طبی اداروں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دنیا بھر کے ہسپتالوں میں عملے کے لیے کام کے بوجھ، اخلاقی تربیت اور حفاظتی نظام پر نئی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر اس طرح کے سنگین جرائم کو نہ روکا گیا تو ایسے حادثات دوبارہ جنم لیتے رہیں گے۔ ہر قوم کی ترقی کا دار و مدار انسانیت کے احترام پر ہے اور جب انسان ہی غیر محفوظ ہو جائے تو ترقی محض لفظ بن کر رہ جاتی ہے۔
اس طرح کے المناک رجحان سے یہ پیغام ابھرتا ہے کہ خدمتِ انسانیت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے احساس، تربیت، آرام اور انصاف چار ایسے ستون ہیں جن پر ایک محفوظ اور مہربان معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ نرس کے ہاتھوں یہ جان لیوا غفلت معاشرے کو متنبہ کرتی ہے کہ انسان جب خود سے اپنے ضمیر سے اور اپنے خالق سے کٹ جائے تو شفا دینے والے ہاتھ بھی زہر بن جاتے ہیں۔ معاشرے کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کو امانت سمجھے اور ہر ادارہ اپنی دیانت کو انسانیت کی خدمت میں وقف کر دے۔