جاپان: ایک صاف، شفاف اور ترقی یافتہ ملک جس سے پاکستان بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

جاپان جدید دنیا کا ایک ایسا عجیب ملک ہے جس نے تہذیب و ترقی کے حوالے سے اپنی ایک منفرد اور خوبصورت تاریخ رقم کی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں تباہی کے باوجود اس قوم نے اپنی لگن، محنت اور نظم و ضبط سے دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشرے کی تصویر پیش کی۔ آئیے جاپانی معاشرے کی بہترین اجتماعی خوبیوں اور کچھ مضر عیوب کا جائزہ سیکھنے سکھانے کے مقصد سے لیں، جن سے پاکستانی قوم بھی سبق حاصل کر سکتی ہے، لیکن سب سے پہلے جاپان کی تاریخ، جغرافیے اور سیاسی نظام پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔

جاپان کی تاریخ کو اس کے حکمران خاندانوں اور ادوار کے لحاظ سے جانا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں شکار اور جمع کرنے والے معاشرے سے لے کر چاول کی کاشت اور کلان میں منظم معاشرے کا سفر طے کیا۔ قرون وسطیٰ میں سامراج اور شوگن کے دور میں طاقت کا مرکز رہا۔ 1868 کو جاپان میں میجی دور کی بحالی سے ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد جاپان نے تیزی سے صنعتی ترقی کی اور ایک عالمی طاقت کے طور پر دنیا میں ابھرا۔ دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد سے، جاپان نے باقاعدہ جمہوری نظام اپنایا اور اپنی تعمیر نو کرتے ہوئے دنیا کی معاشی طاقتوں میں شامل ہو گیا۔

جاپان کا جغرافیہ اس کی تاریخ اور ثقافت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ ملک بحرالکاہل میں واقع ہزاروں جزیروں پر مشتمل ملک ہے جو کم و بیش 6,852 جزائر پر مشتمل ہے، جن میں سے سب سے بڑے ہونشو، ہوکائیدو، کیوشو اور شیکوکو ہیں۔ یہ علاقہ "رنگ آف فائر” میں واقع ہونے کی وجہ سے زلزلوں اور آتش فشاں سرگرمیوں کا شکار ہے۔ ملک کا زیادہ تر حصہ پہاڑی ہے، جس نے زراعت اور آبادی کے تقسیم کو متاثر کیا ہے۔ جاپان کا موسم معتدل ہے، لیکن شمال اور جنوب کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔

جاپان کا سیاسی نظام آئینی بادشاہت پر مبنی ہے، جہاں شہنشاہ ریاست کی علامت ہے، جبکہ حکومت کی باگ ڈور وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ حکومت کی تینوں شاخیں، یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں۔ مقننہ، جسے ڈائٹ کہا جاتا ہے، دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ جاپان کا آئین، جسے "امن آئین” بھی کہا جاتا ہے، دوسری عالمی جنگ کے بعد نافذ ہوا اور اس میں فوجی کارروائیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) طویل عرصے سے حکومت میں رہی ہے، جس نے ملک کی معاشی پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات کو مؤثر انداز میں تشکیل دیا ہے۔ آئیے اب جاپان کی چند بہترین خوبیوں اور علتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

پہلی سب سے نمایاں خوبی جاپانی معاشرے کا نظم و ضبط ہے۔ ٹرینوں کے وقت پر چلنے سے لے کر صفائی ستھرائی تک ہر معاملے میں یہ نظم و ضبط قابل رشک ہے۔ یہی نظم ان کی ترقی کی بنیاد بنا ہے۔ دوسری اہم ترین خوبی محنت اور لگن ہے۔ جاپانی اپنے کام کے ساتھ غیر معمولی وابستگی رکھتے ہیں اور ہر کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ تیسری ممتاز خوبی اجتماعیت کا مضبوط احساس ہے، جہاں انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔

ایک اور کمال کی خوبی مسلسل بہتری کا جذبہ ہے۔ جاپانی ہر کام، ہر عمل اور ہر صنعت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ پانچویں خصوصیت اعلیٰ تعلیم و تحقیق پر زور ہے۔ جاپان نے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق و ایجادات پر زبردست سرمایہ کاری کر کے قومی ترقی کے نئے راستے کھولے ہیں۔ ایک اور بنیادی خوبی صبر و تحمل کا مظاہرہ ہے، جو قدرتی آفات کے باوجود تعمیر نو کے ان کے عزم میں واضح نظر آتی ہے۔

ایک اور دلچسپ خصوصیت جاپان میں احترام اور آداب و رسوم کا اہتمام ہے۔ جاپانی اپنی ثقافتی روایات کو جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ دونوں دھارے جاپان میں متصادم نہیں بلکہ موافق ہیں۔ ایک امتیازی خوبی جو کچھ قدرتی اور ارادی ہے، وہ صاف ستھرا ماحول ہے، جہاں ہر شہری خود کو اپنے گرد و پیش کی صفائی ستھرائی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ ایک اور جوہری خوبی ایمانداری اور دیانتداری ہے، جہاں کھویا ہوا سامان واپس ملنے کے امکانات نوے فیصد تک ہوتے ہیں۔ ایک خوبی معیار پر سمجھوتہ نہ کرنا ہے، جس نے جاپانی مصنوعات کو دنیا بھر میں معیار کی علامت بنا دیا ہے۔ ہر انسانی معاشرے میں صرف خوبیاں نہیں ہوتیں، کچھ عیوب بھی پائے جاتے ہیں۔ جاپانی معاشرہ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود عیوب سے پاک نہیں ہے۔ آئیے کچھ عیوب کا بھی تذکرہ ہو۔

سب سے پہلا عیب وہاں کام کا بے تحاشا دباؤ اور زیادہ محنت ہے، جس کی وجہ سے ذہنی تناؤ اور خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ دوسرا عیب سماجی تنہائی ہے، جہاں لوگ کام میں اس قدر مگن ہیں کہ خاندانی اور سماجی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ تیسرا عیب مہنگائی اور آبادی کا بڑھاپا ہے، جہاں نوجوان نسل پر بوڑھوں کی دیکھ بھال کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چوتھا عیب روایتی سوچ میں جکڑا ہونا ہے، جہاں تخلیقی سوچ کو بعض اوقات روایات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ پانچواں عیب غیر ملکیوں کے لیے محدود مواقع ہیں، جس کی وجہ سے بین الثقافتی تبادلے محدود ہو رہے ہیں۔

پاکستانی قوم جاپانی تجربات سے متعدد قیمتی سبق حاصل کر سکتی ہے۔ سب سے پہلا سبق نظم و ضبط کی اہمیت ہے۔ ہم اگر چھوٹے چھوٹے معاملات میں نظم و ضبط قائم کر لیں تو بڑی ترقی ممکن ہے۔ دوسرا سبق محنت اور ایمانداری ہے۔ اگر ہم اپنے کام کے ساتھ دیانتداری سے جڑیں تو قومی ترقی یقینی ہے۔ تیسرا سبق اجتماعی مفاد کی بالادستی ہے۔ جب تک ہم "میں” کی بجائے "ہم” کو ترجیح نہیں دیں گے، تب تک ترقی ممکن نہیں ہے۔

چوتھا سبق تعلیم اور ہنر پر بھرپور توجہ ہے۔ جاپان نے معیاری تعلیم اور ہنر مندی پر سرمایہ کاری کر کے ترقی کی ہے۔ پانچواں سبق صفائی ستھرائی کا اہتمام اور ماحول کی حفاظت ہے۔ ہم اپنے شہروں کو صاف ستھرا رکھ کر بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتے ہیں۔ چھٹا سبق صبر و تحمل کا مظاہرہ ہے۔ مشکلات میں گھبرانے کے بجائے جاپانیوں کی طرح مستقل مزاجی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستانی قوم میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر ہم جاپانی قوم کی ان خوبیوں کو اپنائیں اور ان کے عیوب سے بچیں، تو ہم بھی ترقی اور خوشحالی کی نت نئی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی دینی اور ثقافتی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے نظم و ضبط، محنت اور اجتماعیت کا جذبہ اپنائیں۔ جاپان کی ترقی کا راز ان کی قومی یکجہتی اور مشترکہ مقصد میں پنہاں ہے، اور یہی سبق ہمارے لیے بھی قابل تقلید ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے