جنگ: طاقت کا زہر، انسانیت کا زوال اور امید کی روشنی

طاقت کی ہوس ایک ایسا زہر ہے جو رگوں میں اترتے ہی عقل کی روشنی کو دھندلا دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جس میں گرفتار ہو کر بادشاہوں نے تاج کو اپنی عقل پر حاوی کر لیا، اور سپہ سالاروں نے تلوار کو انصاف سے بلند تر سمجھ لیا۔ ماضی کے روزگار خون سے لتھڑے ہوئے ہیں، اس کے باوجود ہر نسل یہی سمجھتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں جدید ہتھیاروں کی طاقت اخلاقیات سے بالاتر ہے۔ جب کوئی اقتدار کی بے لگام سواری پر سوار ہوتا ہے تو وہ اپنے قدموں تلے روندے ہوئے لاکھوں خوابوں کی چیٹ تک محسوس نہیں کر رہا ہے۔ کیا عجیب تضاد ہے کہ انسان اپنے ماضی کے خونچکاں اسباق کو بھول کر اسی راستے پر چل پڑتا ہے جس کے انجام سے وہ بخوبی واقف ہوں۔ سلطنتوں کے ملبے پر کھڑے ہو کر بھی وہ اپنی عمارت کو اٹھانے میں لگا رہتا ہے، گویا اس کی آنکھوں پر طلائی پردہ پڑا ہوا ہے جو اسے حقیقت کی طرف دیکھنے نہیں دیتا۔ کبھی نمرود کے غرور نے، تو کبھی فرعون کے تکبر نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا، مگر آج بھی کوئی نہیں سمجھتا کہ یہ راستہ کس کھائی پر جا نکلتا ہے۔

انسانی فطرت میں خیر اور شر کی لہریں ایک ساتھ بہتی ہیں اکثر شر کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے۔ یہ نہ کوئی تقدیر کا کھیل ہے یہ تو ایک ایسا انتخاب ہے جس پر انسان نے اپنی مرضی سے مہر ثبت کی۔ قدرت نے اسے دو چراغ دیے ہیں ایک علم کا، دوسرا ضمیر کا، اس نے علم کو تو ترقی دی، مگر ضمیر کو زنگ آلود ہونے دیا ہے۔ جب کوئی اپنے اندر کے شیطان کو پالتا ہے تو وہ رفتہ رفتہ اس کی رگوں میں سرایت کر جاتا ہے اور پھر اس کی ہر صلاحیت ایک تاریک مقصد کے تابع ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی عقل کو دوسروں کو زیر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اپنی قوت کو ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے بروئے کار لاتا ہے۔ کیا ہی افسوسناک ہے کہ انسان نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو تباہی کے ہتھیاروں میں ڈھال لیا، جبکہ وہ انہیں فلاح کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہے۔ اس کی ترقی کا رخ اگرچہ بلندی کی طرف ہے، مگر اس کے قدم گھٹنوں تک خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

گذشتہ صفحات پر جنگوں کے شعلے اس طرح بکھرے ہیں جیسے کسی تاریک رات میں آتش بازی کے چمکتے ذرے ذرے۔ ہر دور میں فاتحین نے اپنی تلواروں کی چمک کو یادگار بنا دیا، مگر امن کے لمحات کو کسی نے رقم کرنے کی زحمت نہ کی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی دریا کے خروش کو تو سنے، مگر اس کی پر سکون لہروں کی موسیقی سے بے خبر رہے۔ جنگوں کے قصے ہر زبان پر رقصاں ہیں، مگر افسوس صد افسوس امن کی داستانیں کتابوں کے گوشوں میں دب کر رہ گئی ہیں۔ جب کبھی انسان نے ہتھیار نیام میں ڈالی تو اس نے اپنی توانائیاں عمارتوں کو سنوارنے، علم کو پھیلانے اور روح کو جلا بخشنے میں صرف کیں، بخدا آج تاریخ نے ان لمحات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے۔ شاید امن کی چھاؤں میں بیٹھ کر لکھی گئی تحریریں اتنی پرجوش نہیں ہوتیں، لیکن انہی کے دم سے تہذیبوں کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں۔ جنگوں نے سلطنتیں بدلی ہیں، مگر امن نے انہیں زندہ رکھا۔

انسانی سماج ایک ایسے بکھرے ہوئے آئینے کی مانند ہے جس کے ٹکڑے ہر دور میں نئے سرے سے جوڑے جاتے ہیں، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی شگاف رہ ہی جاتا ہے۔ یہ تقسیم جغرافیائی تقسیم ہونے کے ساتھ ذہنوں کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہر گروہ اپنے عقیدے کو حتمی سچ سمجھتا ہے، اپنی روایت کو سب سے اعلیٰ قرار دیتا ہے اور اپنی قوم کو تقدیر کا امتیازی نشان سمجھتا ہے۔ یہی تو وہ بنیادیں ہیں جن پر جارحیت کے قلعے تعمیر ہوتے ہیں۔ جب کوئی اپنی برتری کے گن گاتا ہے تو دوسرے کی تذلیل خود بخود اس کا ہمزاد بن جاتی ہے۔ انسان نے اپنی بقا کے لیے جو اجتماعی نظام بنایا تھا وہی آج اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ وہ مخلوق جو ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تھیں، آج وہی اپنے ہی ہم جنسوں کو نیچا دکھانے پر تل جاتی ہے۔ اس تقسیم نے نفرت کی ایسی فصل اگائی ہے جس کی جڑیں روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہیں۔

جدید دنیا نے ترقی کی بلندیوں کو چھوا تو میں سمجھتی تھی کہ یہ روشنی سب کے لیے ہوگی، مگر آج ڈرون کی گنگناتی پرچھائیاں اور میزائل کے دھماکے انسانیت کے سینے پر سیاہ دھبے بن گئے ہیں۔ طاقت کا یہ کھیل اب کوئی شطرنج نہیں رہا جہاں چالوں کا حساب ہو یہ ایک بے ہنگام رقص ہے جس کی تھاپ پر پورا کرۂ ارض لرز رہا ہے۔ چھوٹے ملک اپنی بقا کی خاطر مہلک ہتھیاروں کے انبار لگا رہے ہیں جبکہ طاقتور قومیں اپنی فوجی برتری کے نشے میں سر شار ہو کر بین الاقوامی قوانین کو پامال کر رہی ہیں۔ نہ کہ یہ دوڑ کسی اقتصادی ترقی کی ہے یہ تو اپنے ہی ہمسایوں کو خوفزدہ کرنے کی ہے۔ جس ٹیکنالوجی کو فلاح کے لیے استعمال ہونا تھا، وہ اب تباہی کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ فضا میں تیرتے مصنوعی سیارے اب موسم کی خبریں معلوم کرنے سے زیادہ دشمن کی حرکات پر نظر رکھنے کے لیے بھی مستعمل ہیں۔ انسان نے اپنی عقل کو جوہری توانائی تک پہنچا دیا، مگر اس کا اولین استعمال بجلی گھروں کی بجائے ایٹم بم کے تجربات میں ہوا۔

سوڈان اور شام کے اجڑے ہوئے شہر، یمن کی بدحالی، غزہ کی مسمار عمارتوں کے نیچے دبے خاندان، افغانستان کی سوکھی زمینیں، اور یوکرین کے جنگل میں بدلے ہوئے کھیت یہ سب جنگ کے بعد کے وہ مناظر ہیں جو کسی فتح یا شکست سے بڑھ کر ہیں۔ یہ انسانی المیوں کی وہ داستانیں ہیں جو ماضی کے تختے پر خون کے بجائے آنسوؤں سے لکھی گئی ہیں۔ ہر گرتی ہوئی اینٹ کے نیچے کوئی خواب دب جاتا ہے، ہر اڑتے ہوئے دھویں کے ساتھ کسی کی سانسیں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ دنیا کے رہنما اعداد و شمار کے تخت پر بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں، مگر ان اعداد کے پیچھے چھپے چہرے ان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ جنگوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے، مگر ان کے زخم نسلوں تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ کھیتوں میں پھیلے بارودی سرنگوں کے نیچے دھماکہ خیز مواد دبا ہوتا ہے افسوس کہ کسانوں کی امیدیں بھی دفن ہوتی ہیں۔ عمارتیں، سڑکیں تباہ و برباد، ہسپتالوں کے ویران وارڈز، اسکولوں کے کھنڈر، اور عبادت گاہوں کے ملبے یہ سب خوں ریزی کے وہ تحفے ہیں جو آنے والی نسلوں کو ورثے میں ملتے ہیں۔

عالمی ادارے اُس بے چین سمندر پر تیرتی کشتیوں کی مانند ہیں جو طوفانوں کے درمیان راستہ تلاش کرتی ہیں۔ ان کی تشکیل کا مقصد انسانیت کو جنگ کے تاریک جنگل سے نکال کر ایک روشن میدان کی طرف لے جانا تھا مگر اب یہی ادارے سیاست کی بھینٹ چڑھ کر اپنی روح کھو بیٹھے ہیں۔ ان کی قراردادیں اب کاغذی شہاب ثاقب بن کر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہیں، جن کی روشنی زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر یہ ادارے اپنی اصل طاقت یعنی اجتماعی انسانی ضمیر کو جگا سکیں، تو وہ نہ صرف تنازعات کے شعلے بجھا سکتے ہیں وہ نفرت کی فصل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہیں صرف ممالک کے درمیان سفارتی پل بننے کے بجائے نوجوان نسل کے دلوں میں امن کی شمعیں روشن کرنی چاہئیں۔ تعلیمی منصوبوں، ثقافتی تبادلوں اور مشترکہ انسانی ورثے کی بازیابی کے ذریعے وہ ایک ایسی نسل تیار کر سکتے ہیں جو سرحدوں سے ماورا ہو کر سوچے۔ جب تک یہ ادارے طاقتور ممالک کے مفادات کے سائے سے باہر نہیں نکلتے تب تک ان کی آواز صرف کانفرنس رومز کی دیواروں تک ہی محدود رہے گی۔

غزہ کی ویرانی میں دبے ہوئے خوابوں کی دھول اُڑتی نظر آتی ہے، جہاں ہر گرتی ہوئی دیوار کے ساتھ کسی کے مستقبل کے ستون بھی زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ یہاں کی فضا میں بمباروں کی گرج کے علاوہ کسی بچے کے قہقہے کی گونج سنائی نہیں دیتی ہے صرف خوف کی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ایران اور اسرائیل، ہندوستان اور پاکستان، روس اور یوکرین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشمکش نے پورے خطے کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے، جہاں ہر چنگاری نئے آتش فشاں کو جنم دینے کے لیے کافی ہے۔ ان جنگوں نے زمین کو تو زخمی کیا ہے سب سے بڑھ کر انسانوں کے دلوں سے محبت کے جذبات تک کو نگل لیا ہے۔ یہ تصادم محض جغرافیائی حدوں تک محدود نہیں رہے، انہوں نے عالمی برادری کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر طرف تباہی کے ملبے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور ان ملبوں کے نیچے دبے لوگ اپنی آواز تک بلند نہیں کر پاتے۔ جب کسی معصوم کی آنکھوں میں موت کے سائے سما جاتے ہیں تو پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان جنگوں کا دائرہ اثر اتنا وسیع ہے کہ اس نے موجودہ نسلوں کو متاثر کیا ہے بلکہ آنے والی پشتوں کے لیے بھی نفرت کا ایک تاریک ورثہ چھوڑ دیا ہے۔

جنگوں نے زمین کو ایسے چیرا ہے جیسے کوئی بے رحم ہاتھ کینوس پر سیاہی پھیر دے۔ فضا میں اڑتے راکٹوں کے دھویں نے سورج کی کرنوں کو دھندلا دیا اور دریاؤں کے صاف پانی میں بارود کی کثافتیں اتر گئیں۔ نئی نسل کے قدم جن گلیوں میں کھیلنے تھے وہاں اب گولہ بارود کے خالی خول پڑے ہیں۔ اسکولوں کی دیواریں جو علم کی گونج سے بھرنی تھیں، وہ اب خاموشی کے سائے تلے دب گئی ہیں۔ جوان ذہنوں میں جو خواب پلنے چاہیے تھے وہ اب خطرات کے بادل بن کر منڈلا رہے ہیں۔ زندگی کی کتاب کے ورق الٹتے ہی ان کی انگلیوں پر زخم لگتے ہیں، ہر صفحہ پر المیے کی کوئی نئی داستان درج ہے۔ وہ مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو افق پر دھویں کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید کی بجائے شکست کی تھکاوٹ ہے، جیسے کوئی مسافر صحرا میں راستہ بھول کر تھک ہار کر بیٹھ گیا ہو۔

انسانیت کو بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات سے شروع کرے۔ جیسے چراغوں کی ایک لڑی تاریکی کو مات کر دیتی ہے ویسے ہی ہر شخص کی چھوٹی سی کوشش اکٹھی ہو کر طوفان بن سکتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں میں برداشت کے بیج بوئے جائیں، تاکہ نفرت کی جگہ تفہیم کے پھول کھلیں۔ ثقافتی میلے ہوں، جہاں مختلف زبانوں کی آوازیں ایک ہم آہنگ ترنم بن جائیں۔ فنکار اپنی تخلیقات سے دلوں کے زخم مرہم رکھیں اور ادیب الفاظ کے ذریعے امید کی کہانیاں لکھیں۔ ہر ملک کے شہری اپنے حکمرانوں سے سوال کریں کہ وہ کس طرح امن کی تعمیر میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ نہ کوئی خواب ہے یہ تو حقیقی امکان ہے اگر ہر فرد اپنی حد تک ذمہ داری اٹھائے۔

اگر آج کی چنگاری کو نظر انداز کیا گیا تو کل کی آگ پورے جنگل کو نگل لے گی۔ ڈرون کی گنگناہٹیں صبح کے اذانوں پر حاوی ہو جائیں گی اور میزائلوں کی دھمک شام کے سناٹے کو چیر دے گی۔ چھوٹی چپقلشیں بھی بارود کے انبار کو بھڑکا دیں گی جہاں طاقتور قومیں اپنی جنگی مشینری کو آزمائش کے لیے بے تاب رہیں گی۔ شہروں کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی مگر سفارت کاری کی میز پر دسترخوان بچھانے کی بجائے خون کے دھبے صاف کیے جائیں گے۔ فضا میں اڑتے ہوئے مصنوعی سیارے بھرپور جاسوسی کریں گے اور ساتھ ہی ہدف تک تباہی پہنچانے کے لیے رہنمائی کریں گے۔ دریاؤں کے کنارے آبپاشی کے بجائے راکٹوں کے اڈے تعمیر ہوں گے۔ بچوں کے کھیل کے میدان خالی ہو جائیں گے کیونکہ ان کی زمین کے نیچے دھماکہ خیز مواد دفن ہوگا۔ سائنس دان بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے کی بجائے زیادہ تر مہلک ہتھیار تیار کریں گے۔ انسانیت کا وجود ایک ایسے کھلونے میں تبدیل ہو جائے گا جس کا کوئی کھلاڑی نہیں ہوگا۔

ہماری دنیا ایک ایسے موتیے کی مانند ہے جس کی چمک کو دھول نے ڈھانپ لیا ہے۔ اگر ہم نے اس کی صفائی نہ کی تو یہ قیمتی موتی ریت میں گم ہو جائے گی۔ ہر فرد کو اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا برش تھامنا چاہیے جو نفرت کی میل کو مٹا کر محبت کی چمک بحال کرے۔ تعلیم کے ذریعے ہم نوجوانوں کی انگلیوں میں قلم تھما سکتے ہیں، جو تلواروں کے بجائے الفاظ سے معرکے سر کریں۔ فنکار اپنی تصویروں میں رنگ بھریں، جو جنگ کے سیاہ و سفید منظرنامے کو بدل دیں۔ موسیقار ایسے سروں کی دھن تخلیق کریں، جو دلوں میں اتر کر پرامن ارتعاش پیدا کریں۔ سیاست دانوں کو عوامی فیصلہ سازی میں شامل کرنا چاہیے، تاکہ طاقت کا کھیل عوامی مرضی کے تابع ہو۔ مذہبی رہنما اپنے خطبات میں اتحاد کی تعلیم دیں، جو تقسیم کے زہر کو بے اثر کر دے۔ میڈیا پر تشدد کی کہانیاں نشر کرنے کی بجائے صلح کے واقعات بیان کیے جائیں۔ یوں ہر گلی میں امن کے چراغ روشن ہوں، جو اندھیرے کو للکاریں۔ ہر شخص اپنے اردگرد کے لوگوں میں برداشت اور ہمدردی کا جذبہ بیدار کرے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعات کو بڑھنے نہ دے۔ یہ میں کوئی خیالی پلاؤ نہیں پکا رہی ہوں یہ تو اجتماعی عزم کا تقاضا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے